روس ۔ یوکرین جنگ سےعالمی معیشت کی تباہی

توانائی کا بحران گہرا ہورہا ہے۔فی بیرل تیل کی قیمت 130سے بڑھ کر 200ڈالر ہوسکتی ہے

پروفیسر ظفیر احمد ، کولکاتا

روس اور یوکرین کے درمیان جاریہ جنگ نے ساری دنیا میں ہلچل مچادی ہے۔ جنگ سے پیدا ہونے والے مصائب سے انسانوں کا ہر طبقہ اذیت محسوس کرتا ہے۔ جنگ، جان ومال، غذائی سلامتی اور بود وباش کو طویل مدت تک متاثر کرتی ہے۔ جنگ ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے جس سے طرفین کو جان واملاک کا نقصان ہوتا ہے، شہر اور انسانی آبادیاں تباہ ہوتی ہیں، اس آگ کے اندر انسانیت سسکتی رہتی ہے مگر اس کے مرکز میں توانائی کا عمل دخل زیادہ ہی نظر آتا ہے۔ سعودی عرب اور روس تقریباً بارہ/بارہ فیصد خام تیل پیدا کرتے ہیں جبکہ امریکا دنیا کا سب سے زیادہ یعنی سولہ فیصد خام تیل پیدا کرتا ہے۔ روس کی قومی آمدنی کا 43 فیصد حصہ توانائی کے ذرائع سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر روس اور یوکرین جنگ پر قابو نہیں پایا گیا اور جنگ بندی کی کوئی سبیل نہیں نکلی تو خام تیل کی قیمت عالمی بازار میں دو سو ڈالر فی بیرل ہو سکتی ہے۔ عالمی تیل کی سپلائی میں روس کی حصہ داری دس فیصد ہے۔ یوروپ کی ایک تہائی اور ایشیائی ممالک کی قدرتی گیس اور خام تیل کی بڑی ضرورت روس سے ہی پوری ہوتی ہے۔ روس نے یوروپ میں گیس لائن بھی بچھا رکھی ہے جو پولینڈ-بیلا روس جرمنی سے متصل بہت سارے ممالک سے گزرتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب جنگ میں توانائی کی سیاست کا کافی عمل دخل محسوس ہوتا ہے۔ خام تیل کی قیت نہ رکنے والی جنگ کی وجہ سے 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے جو 2014ء کے بعد سب سے زیادہ بلندی پر ہے۔ روس پر مغربی ممالک کے ذریعہ لگائے گئے بینکنگ پابندیوں کا براہ راست اثر تیل کے جہازوں اور ٹینکروں کو ملنے والی کریڈٹ گارنٹی پر پڑ رہا ہے۔ تیل اور گیس کی نصف سے زائد ضرورت کے لیے جرمنی روس پر منحصر ہے۔ نارڈ اسٹریم ۔۲ گیس پائپ لائن کی سرگرمیاں بند کردی ہیں۔ جواباً روس نے بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر روسی تیل پر پابندی لگائی جاتی ہے تو روس یورپی ممالک کو گیس کی سپلائی بند کردے گا۔ ویسے روس پچاس لاکھ بیرل خام تیل یومیہ برآمد کرتا ہے۔ مغربی ممالک کی طرف سے روسی سنٹرل بینک پر پابندی کی وجہ سے روس کی معیشت پر زبردست مار پڑ رہی ہے اور روسی کرنسی روبل بھی اوندھے منہ گر گئی ہے۔ پٹرولیم کمیٹی نیشنل نے روسی گیس کمپنی گیج روم کے ساتھ ہر طرح کی ساجھے داری کو منجمد کردیا ہے۔ برٹش پٹرولم (بی پی) نے بھی روس کی سرکاری کمپنی روس نیفٹ میں اپنے حصص کو فروخت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ بی پی کی روس نیفٹ میں تقریباً بیس فیصد کی شراکت ہے۔ کل ایل این جی برآمدات کا ایک تہائی ہے کیونکہ روس پہلے ایل این جی میں شیل کا حصہ 27 فیصد ہے۔ امریکا کی توانائی کمپنی اکسان، روس کی سخالین۔1 تیل اور گیس کے منصوبوں کے ذریعہ کام کرتی ہے۔ اس میں بھی او این جی سی کی حصہ داری ہے۔ واضح رہے کہ ایسے نقصان کی تلافی کے لیے متعلقہ ممالک اور وہاں کی کمپنیاں تیل اور گیس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کریں گی۔ روس کے تیل اور گیس کے جہازوں کو مغربی کمپنیاں سلامتی فراہم کریں گی جس کی توقع ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بھلے ہی موجودہ توانائی کے بحران کو برداشت کرلیں مگر ترقی پذیر اور چھوٹے ممالک کے لیے یہ ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں انڈیا بھی شامل ہے۔ انڈیا 80 فیصد تیل اور 65 فیصد قدرتی گیس روس سے ہی درآمد کرتا ہے کیونکہ وہ دفاع ہو یا دیگر شعبے روس کے ساتھ توانائی منصوبوں میں دو طرفہ طور پر عمل پیرا ہے۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق سخت پابندیوں کے درمیان روس نے سستے داموں پر تیل بیچنے کا عندیہ دیا ہے جسے بھارت نے بخوشی قبول کر لیا ہے۔ فی الوقت ٹینکر، انشورنس کورا اور آئل بلنڈ کو لے کر کچھ مشکلات ہیں جنہیں جلد ہی نمٹا لیا جائے گا اس کے بعد ہی سستی قیمتوں پر تیل اور دیگر اشیا لی جائیں گی۔ خام تیل کی قیمت سے ہمارے یہاں پٹرول، ڈیزل اور پکوان گیس کی قیمتیں متعین ہوتی ہیں۔ اس طرح عالمی قدغنوں کا راست اثر مہنگائی پر پڑنا لازمی ہے۔ اس لیے ہمیں خام تیل کا ضروری ذخیرہ بڑھانا ہو گا۔ امریکا، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے تیل زیادہ زیادہ سے منگوایا جائے اس کے لیے راستے نکالنے ہوں گے۔
اقوام متحدہ اس وقت تک روس پر پابندی نہیں لگاتا جب تک بھارت روس سے کاروبار کرنے میں آزاد ہو گا۔ اب روس پر لگائی جانے والی پابندیوں کے بعد جنگ جتنی طویل ہو گی پوتن پر داخلی دباو بڑھتا جائے گا۔ واضح رہے کہ روس اور چین کے درمیان کاروباری رشتہ کافی مضبوط ہے کیونکہ چین روس سے 15.4 فیصد خام تیل درآمد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ روس نے گزشتہ سال چین کو 67 فیصد قدرتی گیس کی سپلائی کی تھی۔ تیل کی قیمتیوں میں اچھال سے امریکی معیشت بھی زد میں آئے گی کیونکہ امریکہ نے گزشتہ سال تین فیصد تیل روس سے درآمد کیا تھا۔ اس لیے اب ضرورت ہے کہ ساری دنیا انتہائی فلاح وبہبود کی خاطر توانائی کے
ذخیرہ کو کام میں لگائے نہ کہ اسے جنگ کا ذریعہ بنائے۔
کوئی ایسی واحد شئے نہیں جس سے یومیہ ضروریات زندگی پر بڑے اثرات مرتب ہوں۔ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ نے خام تیل کی سپلائی کو عالمی طور پر پوری طرح تتر بتر کر دیا ہے جس سے حکومتوں پر مالیاتی خسارہ کا دباو بھی بڑھ گیا ہے۔ جنگ کے پہلے سے ہی ہمارے ملک میں پٹرول اور گیس کی قیمتیں آسمان پر ہیں۔ روس دنیا کا دوسرا سب سے بڑا خام تیل اور گیس کا سپلائر ہے اور اس وقت دنیا میں توانائی کا شدید بحران ہے۔ ایسے حالات میں تمام ملکوں کو مشترکہ طور پر غور کرنا ہو گا کہ کس طرح خام تیل اور قدرتی گیس سے چھٹکارا پانے کے لیے اس کا نعم البدل لایا جائے۔ ممکن ہے کہ خام تیل کی قیمت دو سو ڈالر فی بیرل ہو جائے یہ اندازہ جے پی مارگن چپس اور بینک آف امریکہ کے تجزیہ کاروں کا ہے۔ اس سے تو روس کو فائدہ ملنے والا نہیں ہے کیونکہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے روسی تیل کے برآمدات پر پابندی لگا دی ہے۔ اس سے تیل کی طلب مزید بڑھے گی اور نتیجتاً اس کی قیمت بھی اس سے بھارت جیسی ابھرتی معیشت پر زد پڑنا لازمی ہے۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت سے افراط زر بلندی پر ہے جس سے گھریلو بجٹ پر گہرا اثر پڑے گا۔ طلب کا خاتمہ ہو جائے گا، نتیجتاً ملکی معیشت کو پٹری پر لانے میں دشواری ہو گی اس لیے حکومت اکسائز ڈیوٹی میں کٹوتی کرے اور اپنے تینوں تیل کے قومی ذخیروں سے تیل کو بازار میں لائے تاکہ توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔
آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائرکٹر کرسٹینیا جارجیوا نے روس اور یوکرین کے درمیان جاریہ جنگ کے اثرات پر رپوٹروں سے تفصیل سے بات کی اور کہا کہ بھارتی معیشت پر سب سے زیادہ برا اثر توانائی کی وجہ سے ہوگا حالانکہ بھارت اپنی معیشت کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کا اہل رہا ہے۔ بھارت کے پاس مالی طور سے اس کی گنجائش بھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوروپ میں جو کچھ ہو رہا ہے ویسا تصور میں لانا بھی مشکل ہے کیونکہ یوکرین پر اس کے بھیانک اثرات پڑیں گے۔ روس میں بھی تنزلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ عالمی معاشی منظر پر اس کا برا اثر ہو گا۔ جنگ کا اثر مالی حالات اور کاروباری اعتماد پر بھی پڑے گا۔

 

***

 ’’ بھارتی معیشت پر سب سے زیادہ برا اثر توانائی کی وجہ سے ہوگا حالانکہ بھارت اپنی معیشت کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کا اہل رہا ہے۔ بھارت کے پاس مالی طور سے اس کی گنجائش بھی ہے۔۔ یوروپ میں جو کچھ ہو رہا ہےاس کا تصوربھی محال ہے۔ یوکرین پر اس کے بھیانک اثرات پڑیں گے۔ روس میں بھی تنزلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ عالمی معاشی منظر پر اس کا برا اثر ہو گا۔ جنگ کا اثر مالی حالات اور کاروباری اعتماد پر بھی پڑے گا۔‘‘
( کرسٹینیا جارجیوا،مینیجنگ ڈائرکٹر آئی ایم ایف)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  27 تا 02 اپریل  2022