روسی صدر کے دورہ ہندکے مضمرات

جدید روسی اسلحہ و بڑے دفاعی سودے کی راہ ہموار

اسد مرزا

حلیف امریکا کے مقابلے صدر پوتن سے بھارت کو زیادہ امیدیں؟
سال 2021 میں عالمی اور بین الاقوامی سطح پر کچھ بڑے واقعات پیش آئے۔ اسی سال امریکہ اوراسرائیل میں بھی اقتدار کی تبدیلیاں ہوئیں۔ ہمارا ملک بھارت پچھلے سال تک امریکہ کا بڑا حلیف رہا لیکن سال کے اختتام تک بھارت اور روس میں قربتیں بڑھ گئیں روس نے پہلے تو کورونا ویکسین کی بھارت کو ترجیحی بنیادوں پر فراہمی کی اور سال کے اختتام تک روس بھارت کا حلیف بن کر سامنے آیا ، گزشتہ دنوں دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان ملاقات اور معاہدے اس کی بڑی واضح مثال ہے۔
دونوں ملکوں کے تعلقات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کووڈ وبا کے دوران سفر پر لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے صدر پوتن نے نہ تو UNGA کے اجلاس میں شرکت کی اور نہ ہی اپنے پہلے سے طے شدہ دورہٗ چین پر روانہ ہوئے، بلکہ اس سال انہوں نے اپنا سب سے پہلا سفر ہندوستان کے لیے کیا۔ وہ وزیر اعظم مودی سے ملاقات کر کے علاقائی اور عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کرنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ کورونا وبا کے دوران روس نے اپنے یہاں تیار Sputnik ٹیکے کو سب سے پہلے ہندوستان بھیجا اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے ہندوستانی رکن پارلیمان اور مختلف ریاستوں کے رکن اسمبلیوں کے لیے Sputnik ٹیکے لگانے کا اہتمام کیا۔
اس کے علاوہ وزیر اعظم مودی اور صدر پوتن کے درمیان جو ذہنی آہم آہنگی ہے وہ بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ سن 2014ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد مودی اور پوتن کے درمیان 19 ملاقاتیں ہوچکی ہیں اور نئی دہلی میں یہ ان کی 20ویں ملاقات تھی۔ اس کے علاوہ کووڈ کے ماحول میں عالمی سفر پر پابندیوں اور عالمی رہنماؤں کی دوسرے ملکوں کے اسفار کم ہونے کے باوجود صدر پوتن نے اپنا پہلا سفر ہندوستان کے لیے کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت کا محور خصوصی طور پر افغانستان کے تازہ حالات اور وہاں کی صورت حال کو مستحکم کرنے کے علاوہ علاقائی دفاعی صورت حال خاص طور پر ہند-بحرالکاہل کے کواڈ معاہدے میں ہندوستان کی شمولیت اور ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے جیسے موضوع رہے۔ لیکن سب سے اہم موضوع جو دونوں رہنماؤں کے درمیان طے کیا گیا وہ تھا روس کے ذریعہ ہندوستان کو روس میں تیار جدید ترین اسلحہ کی فروخت۔ کواڈ میں ہندوستان کی شمولیت کے معاملے پر روس نے شروع میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس معاہدے کے ذریعہ امریکہ ہندوستان کی دفاعی طاقت کا فائدہ اپنے مفاد کے حصول کے لیے کرنا چاہتا ہے۔ مجموعی طور پر دونوں رہنماؤں نے اس ایک روزہ دورے کے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات کو وسیع تر کرنے اور آج کے تقاضوں کے مطابق انہیں پورا کرنے کی خاطر 28 معاہدوں اور MoU پر دستخط کیے۔ توقع ہے کہ جلد ہی کسی بڑے دفاعی سودے کے بارے میں بھی انکشاف ہو گا۔ جو معاہدے کیے گئے ہیں وہ دونوں ملکوں کے درمیان اشتراک اور شراکت داری کو مختلف شعبوں میں اور آگے لے جائیں گے جس سے 70 سالہ پرانی دوستی اور زیادہ تقویت حاصل کر سکے گی۔
ہندروس دفاعی تعاون
دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی ساز وسامان کی فروخت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سرد جنگ کے دوران روس نے امریکی پابندیوں کی وجہ سے ہندوستان کو کثیر مقدار میں اس کی فوج، بحریہ اور فضائیہ تینوں کو روسی ساخت کے مختلف سازوسامان مہیا کرائے جبکہ امریکہ ان کی فروخت کے سلسلے میں ہمیشہ حیل وحجت سے کام لیتا رہا۔ ہندوستانی اور روسی محکمہ دفاع کے ذرائع کے بقول اس دورے کے دوران روس ہندوستان کو اپنے جدید ترین میزائل فروخت کرنے کے سودے کو پکا کرنا چاہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق روس اس مرتبہ ہندوستان کو جدید ترین S-500 اور S-550 میزائل فروخت کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مہینے S-400 میزائل کی پہلی کھیپ ہندوستان پہنچ جائے گی۔ روس کی جانب سے ہندوستان کو S-400 میزائل فروخت کرنے پر امریکہ نے شدید احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے نتیجے میں وہ ہندوستان پر CAATSA قانون کے تحت پابندیاں بھی عائد کر سکتا ہے لیکن اس معاملے پر ہندوستان نے سخت موقف اپناتے ہوئے امریکہ کو یہ واضح کرادیا تھا کہ یہ معاہدہ CAATSA قانون کے عمل میں آنے سے پہلے ہی طے پا چکا تھا۔
یہاں ایک اور بات بھی قابلِ غور ہے کہ جہاں ایک جانب وزیر اعظم مودی کے دورِ اقتدار میں ہندوستان کے تعلقات امریکہ سے تھوڑا بہتر ہوئے ہیں لیکن ان کے درمیان دفاعی شعبے میں کوئی بڑا سودا طے نہیں پایا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان نے 1991ء سے اب تک یعنی گزشتہ تیس سالوں کے عرصے میں روس سے 70 بلین ڈالر کا دفاعی سازوسامان خریدا ہے۔ اور صرف 2018-19 میں 15 بلین ڈالر کا سامان خریدا ہے وہیں امریکہ سے اس نے گزشتہ15 سال کے عرصے میں صرف 18 بلین ڈالر کا دفاعی ساز وسامان خریدا ہے اور وہ بھی زیادہ تر چھوٹا دفاعی سازوسامان اور ایسا کوئی بھی اسلحہ امریکہ نے ہندوستان کو فروخت نہیں کیا ہے جس سے اس کی دفاعی طاقت میں کوئی اضافہ ہو۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان ہوائی دفاعی نظام کے دیگر اسلحوں کی فروخت جن کی مالیت 1.5 بلین ڈالر ہے، مذاکرات آخری دور میں ہے، جبکہ MiG-29, 21 اور Sukhoi- 30, 12 جنگی طیاروں کا معاہدہ اگلے سال تکمیل پائے گا۔ روس نے ہندوستان کی امیٹھی آرڈینس فیکٹری میں AK-203, 671,000 کلاشنکوف رائفلز بنانے کا بھی سودا طے کر دیا ہے۔
ہند۔روس باہمی تعلقات
دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کی گہرائی اور وسعت کا اندازہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی جولائی میں ماسکو میں دی گئی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے جس میں کہ انہوں نے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات دوسری جنگِ عظیم کے بعد کی دنیا کے سب سے مستحکم اور تاریخی رشتے رہے ہیں اور شاید اسی وجہ سے دیگر ممالک ان رشتوں کی گہرائی نہیں سمجھ پاتے اور انہیں عام رشتوں کی طرح سمجھتے ہیں اور ان کی اصل نوعیت سے غافل رہتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ تعلقات اتنے لمبے عرصے تک قائم رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ان میں پختگی اور استحکام میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
دراصل روس نے ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی اس کی ہر شعبے یعنی زراعت، تعلیم، ٹکنالوجی، کانکنی، بڑی صنعتیں قائم کرنے، بجلی پیدا کرنے اور فوجوں کو طاقت ور بنانے، الغرض ترقی کے ہر راستے پر اس کی مدد کی اور یہ تعلقات کمیونسٹ روس کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد بھی جاری اور قائم رہے۔ دوسرے، چونکہ شروع دن سے ہی ہندوستانی افواج روسی ساخت کے اسلحے کے استعمال کی عادی تھی اس لیے یہ شراکت داری وقت کے ساتھ اور زیادہ مضبوط ہوتی چلی گئی۔ تیسرے، ہندوستان روس کی وجہ سے دوسرے اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک کے ساتھ سودے بازی بھی کرسکتا ہے اور روس کو معلوم ہے کہ کثیر مقدار میں زر مبادلہ حاصل کرنے کے لیے ہندوستان ایک اہم خریدار ہے اور اسی وجہ سے اس نے بعض دفاعی ساز وسامان تیار کرنے کی ٹیکنالوجی بھی ہندوستان کو مہیا کرانا شروع کر دی ہے، جس کے لیے امریکی کمپنیاں کبھی بھی تیار نہیں ہوتیں اور ساتھ ہی روسی اسلحہ امریکی اسلحہ سے سستا بھی ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات ہے کہ اس شراکت کے لیے روس نے ہندوستان سے کوئی خصوصی رعایت یا اپنے لیے روسی فوجی اڈے تعمیر کرنے یا خفیہ معلومات حاصل کرنے کے کبھی دباؤ نہیں ڈالا۔ مزید یہ کہ روس کی جانب سے ہندوستان کو جلد ہی کسی بحری جنگی جہاز اور جوہری آبدوز مہیا کرانے کی بابت بات چیت چل رہی ہے۔
انہیں سب بنیادی باتوں کی وجہ سے امید ہے کہ صدر پوتن کا دورہ دونوں ملکوں کے باہمی مفاد میں رہے گا اور پرانے رشتوں کو مزید مستحکم اور نتیجہ خیز بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔
یاد رہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن گزشتہ چھ ڈسمبر کو نئی دلی پہنچے تھے۔ اس دورے کے دوران وزیر اعظم مودی سے ان کی ملاقات ہوئی اور ان کے سینئر وزراء نے 2+2 کے فارمولے کے مطابق اپنے ہندوستانی ہم منصبوں یعنی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ سے مذاکرات کیے۔ 2+2 کا فارمولا ابھی تک امریکی اور ہندوستانی وزراء کے درمیان ہی ہوتا چلا آیا ہے اور یہ پہلا موقع تھا کہ ہندوستان نے کسی دوسرے ملک اور وہ بھی ایک سابق سپر پاور کے عہدیداروں کے ساتھ اس طریقے کی بات چیت کر رہا تھا۔ ان ملاقاتوں کی نوعیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملک ان مذاکرات کو کتنی اہمیت دے رہے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہی
www.asad-mirza.blogspot.com
***

 

***

 اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان نے 1991ء سے اب تک یعنی گزشتہ تیس سالوں کے عرصے میں روس سے 70 بلین ڈالر کا دفاعی سازوسامان خریدا ہے۔ اور صرف 2018-19 میں 15 بلین ڈالر کا سامان خریدا ہے وہیں امریکہ سے اس نے گزشتہ15 سال کے عرصے میں صرف 18 بلین ڈالر کا دفاعی ساز وسامان خریدا ہے اور وہ بھی زیادہ تر چھوٹا دفاعی سازوسامان اور ایسا کوئی بھی اسلحہ امریکہ نے ہندوستان کو فروخت نہیں کیا ہے جس سے اس کی دفاعی طاقت میں کوئی اضافہ ہو


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 تا 25 دسمبر 2021