رشتہ داروں سے عداوت دور کریں

غیبت، بہتان اور طعنہ طرازی جیسی معاشرتی خرابیوں کا تدارک ضروری

ڈاکٹر سید محی الدین علوی، حیدرآباد

آج کے بگڑے ہوئے معاشرہ میں بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک رشتہ داروں سے نفرت اور ان کا بائیکاٹ کرنابھی ہے ۔ کوئی بھائی اگر کثیرالعیال ہے لیکن غریب ہے تو اسے دعوتوں میں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی عزیز رشتہ دار گھر کے بازو میں رہتا ہے اور کسی وجہ سے ان بن ہوجائے تواسے دیکھنا بھی گوارا نہیں ہوتا اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اگر وہ بیمار ہوتو اس کی مزاج پرسی تک نہیں کی جاتی اور انتقال کرجائے تو لواحقین کو تعزیت تک پیش نہیں کی جاتی ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس نفرت کو دور کرنے کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ سلام میں پہل کی جائے اور حضورؐ کا طریقہ یہ تھا کہ جو آپؐ سے قطع تعلق کرتا آپؐ اس سے جڑ جایا کرتےتھے۔
معاشرتی خرابیاں زیادہ تر عورتوں میں پائی جاتی ہیں۔ غیبت، بہتان، طعنہ طرازی اور کئی ایسی خرابیاں ہیں جو سماج کو گھن کی طرح کھارہی ہیں اور اگر انہیں ترک نہ کیا گیا تو دنیا کے ساتھ ساتھ عاقبت بھی برباد ہوجائے گی۔ دین اسلام میں رشتہ داروں سے حسن سلوک کی سخت تاکید کی گئی ہے اور یہ حسن سلوک اسی وقت ممکن ہے جب دلوں سے عداوتیں دور ہوں گی اور نفرت کی جگہ محبت پروان چڑھے گی ۔
قرآن مجید میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید یوں کی گئی:
اور آپ کے رب نے فیصلہ فرمادیا کہ تم خداکے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو (بنی اسرائیل)
لیکن موجودہ معاشرے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی اس طرح کی جارہی ہے کہ اولاد بوڑھے والدین کو اولڈ ایج ہوم بھیج رہی ہے۔ یہ اکثر کی بات نہیں ہے بلکہ تھوڑے لوگ ایسا کررہے ہیں لیکن اگر خود پرستی اور نفس پرستی بڑھتی جائے تو یہ تعداد بڑسکتی ہے۔
ماں باپ کے ساتھ محبت و الفت کا سلوک ہونا چاہیے اور ان کی شکر گزاری کو اپنا شیوہ بنایا جائے۔ ارشاد خدا وندی ہے:
(ہم نے وصیت کی) کہ میرا شکر ادا کرو اور اپنے ماں باپ کے شکر گزار رہو۔ ماں باپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کی جائے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی طبعیت میں چڑ چڑا پن آجائے لیکن اولاد کا کام یہ ہے کہ وہ اسے برداشت کرلے اوران کی کسی بات پر اکتا کر جواب میں کوئی ایسی بات ہرگز نہ کہی جائے جو ان کو ناگوار ہو اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے۔
ایک بار نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور اپنے باپ کی شکایت کرنے لگا کہ وہ جب چاہتے ہیں میرا مال لے لیتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے اس آدمی کو بلوایا لاٹھی ٹیکتا ہوا ایک بوڑھا کمزور شخص حاضر ہوا ۔ آپؐ نے اس بوڑھے شخص سے تحقیق فرمائی تو اس نے کہنا شروع کیا۔
ائے خدا کے رسول، ایک زمانہ تھا جب یہ کمزور تھا اور بے بس تھا اور مجھ میں طاقت تھی، میں مالدار تھا اور یہ خالی ہاتھ تھا۔ میں نے کبھی اس کو اپنی چیز لینے سے نہیں روکا۔ آج میں کمزور ہوں اور یہ تندرست و قوی ہے۔ میں خالی ہاتھ ہوں اور یہ مالدار ہے۔ اب یہ اپنا مال مجھ سے بچا بچا کر رکھتا ہے۔
بوڑھے کی یہ باتیں سن کر رحمت عالم ﷺ روپڑے اور بوڑھے کے لڑکے کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا تو اور تیرا مال، تیرے باپ کا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ایک شخص سے کہا کہ ماں باپ ہی تیری جنت دوزخ ہیں۔
عائلی زندگی میں میاں بیوی کے تعلقات جتنے خوشگوار رہیں گے اتنا ہی محبت میں اضافہ ہوگا اور جتنے ناخوش گوار رہیں گے اتنا ہی نفرت میں اضافہ ہوگا۔ خوشگوار تعلقات کے لیے حسن ظن کی ضرورت ہوتی ہے اور نا خوشگوار تعلقات کا سبب بدگمانی ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہم کو روز مرہ زندگی میں ملتی ہیں۔
ایک تعلیم یافتہ لڑکی کی شادی ان پڑھ گھرانے میں ہوئی۔ جب بھی کوئی پوسٹ آتا، گھر والے یہی سمجھتے کہ کوئی محبت نامہ ہےجولڑکی کے نام پر آیا ہے۔ بد گمانی کے ماحول میں اس لڑکی کا جینا مشکل ہوگیا اور ایک دن ایسا بھی آگیا کہ خود شوہر اور لڑکی کے سسرال والے اسے موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں ۔
اگر کھانا کھانے کے دوران کنکر نکل آئے تو شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی پرغصہ نہ ہواتفاق سمجھتے ہوئے درگزر کردے۔
ساس بہو کے جھگڑے عام ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی عام وجہ بھی غلط فہمیاں ہوتی ہیں۔ بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کے ساتھ اپنی سگی ماں جیسا سلوک کرے اور ساس کو بھی چاہیے کہ بہو سے اس کا تعلق ویسا ہی محبت آمیز ہو جیسا اپنی حقیقی بیٹی سے ہوتا ہے۔ رسول اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق دنیا عارضی مطاع ہے اور بہترین مطاع نیک اور صالح عورت ہے۔
ایک نیک عورت اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بناسکتی ہے بشرطیکہ وہ تعلقات کو خوش گوار بناے رکھے اورمحبت و حسن سلوک کواپنا طرز حیات بنالے ۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 فروری تا 19فروری 2022