ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
دعوت دین کے لیے ابلاغ کے رائج طریقوں کا استعمال سنت نبوی
قرآن میں رسول اللہ کی سب سے بڑی سنت کو اس طرح پیش کیا گیا ہے: قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللهِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
تم ان سے صاف کہہ دو کہ ’’میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ (سورۃ یوسف: ۱۰۸)
اس آیت میں رسول اللہ کا راستہ اور منہج دعوت الی اللہ کو واضح کیا گیا ہے۔ اسی راستے کی تفصیل سورۃ الاحزاب میں یوں بیان کی گئی ہے: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (آیت:٤٥)
اے نبی ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر بشارت دینے والا بنا کر اور ڈرانے والا بنا کر
وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا (۳۳:٤۶)
اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔
رسول اکرم سے محبت و اطاعت ایمان کا حصہ ہے۔ اسی جذبہ سے ہم رسول اللہ ﷺ
کی سنتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اب ہم یہ دیکھیں کہ رسول اللہ کی سب سے بڑی اور دائمی سنت کیا ہے جو آغاز نبوت سے لے کر آخرِ نبوت تک جاری و ساری رہی، اور وہ کونسی سنت ہے جس کی خاطر آپ نے ہر طرح کے مصائب کو انگیز کیا۔ یہ سنت ہے سنتِ دعوت۔ اسی سنت کے بارے میں آپ نے اپنی پیاری زوجہ سے فرمایا کہ اے عائشہ سب سے سخت دن میری زندگی میں طائف کا دن تھا۔ یہ وہ دن تھا جب آپؐپر پتھر برسائے گئے اور جس سے آپ لہو لہان ہو گئے۔ آج ہم نے اس اہم سنت کو فراموش کر دیا ہے اور دوسری چھوٹی چھوٹی سنتوں پر عمل کر کے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ کی محبت کا حق ادا کر دیا ہے۔
رسول اللہ کا دعوتی سفر آغازِ نبوت سے ہوا۔وحی کے ذریعے آپؐ سے اللہ تعالیٰ نے پیار بھرے لہجے میں فرمایا: یا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَأَنذِرْ ِوَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ۔(سورۃ المدثر ۱تا۳)
اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے اٹھو اور خبر دار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔
اس حکمِ خداوندی کے بعد رسول اللہ نے آرام و اطمینان کی زندگی کو خیر باد کہہ دیا اور آخر وقت تک اس حکمِ خداوندی کو انجام دیتے رہے۔ اس حکمِ خداوندی کو سن کر آپ نے اپنے گھر والوں، رشتہ داروں اور دوستوں میں اسلام پیش کیا، پھر آپ اپنے گردو نواح میں اپنے قبیلہ کے افراد میں اسلام کو پیش کیا۔
جب سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ٢١٤ ’وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ‘ نازل ہوئی تو رسول اللہ نے پکار لگائی۔ یہ پکار عام بھی تھی اور خاص بھی۔ آپ نے کہا ’’اے جماعتِ قریش! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے بنی کعب! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے محمؐد کی بیٹی فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ کیوں کہ میں تم لوگوں کو اللہ کی گرفت سے بچانے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا، البتہ تم لوگوں سے نسبت و قرابت کے تعلقات ہیں جنہیں میں باقی اور تر و تازہ رکھنے کی کوشش کروں گا۔
رسول ﷺ جوامع الکلم تھے اور آپؐ کے دعوتی خطبے بہت بڑے نہیں بلکہ مختصر اور دل نشین ہوا کرتے تھے۔ اکثر خطبے پانچ منٹ سے زیادہ کے نہیں ہوا کرتے تھے۔ آپ کا پہلا دعوتی خطبہ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جو آپؐ نے قریش کے افراد کو کھانے پر بلا کر پیش کیا تھا۔
آپ نے ارشاد فرمایا :’’ساری حمد اللہ کے لیے ہے۔ میں اس کی حمد کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں۔ اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں‘‘ پھر آپ نے فرمایا :’’رہنما اپنے گھر کے لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں تمہاری طرف خصوصاً اور لوگوں کی طرف عموماً اللہ کا رسول (فرستادہ) ہوں۔ بخدا! تم لوگ اسی طرح موت سے دوچار ہو گے جیسے سو جاتے ہو اور اسی طرح اٹھائے جاؤ گے جیسے سو کر جاگتے ہو۔ پھر جو کچھ تم کرتے ہو اس کا تم سے حساب لیا جائے گا۔ اس کے بعد یا تو ہمیشہ کے لیے جنت ہے یا ہمیشہ کے لیے جہنم۔‘‘
جب سورۃ الحجر کی آیت نمبر ٩٤ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ (پس اے نبیؐ، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے، اُسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو) نازل ہوئی تو آپ نے کھل کر اہلِ مکہ کو خدا کی توحید، اپنی رسالت اور یوم آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور شرک کا ابطال کیا۔ ایک روز آپ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر آواز لگائی: یا صباحا! یہ پکار سن کر قریش کے قبائل آپ کے پاس جمع ہو گئے تب آپ نے فرمایا : ’’تم لوگ بتاؤ کہ اگر میں یہ خبر دوں کہ ادھر وادی میں شہ سواروں کی ایک جماعت ہے جو تم پر چھاپہ مارنا چاہتی ہے تو کیا تم مجھے سچا مانو گے؟‘‘
لوگوں نے کہا:’’ ہاں! ہم نے تم کو سچا ہی پایا ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا :’’اچھا تو میں تمہیں ایک سخت عذاب سے پہلے خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ اس پر ابو لہب نے کہا، تو سارے دن غارت ہو، کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟‘‘
اس اندازِ دعوت کی اتباع آج کے زمانے میں میڈیا کے ذریعے ہو سکتی ہےاس لیے کہ اس زمانے میں کسی اہم اعلان کو بہت سارے لوگوں تک پہنچانا مقصود ہوتا تو یہ طریقہ استعمال ہوتا تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہم کو رائج الوقت ان تمام طریقوں کو استعمال کرنا چاہیے جن سے لوگوں کو خبر دار کیا جا سکے۔
آپ حج کے خیموں اور عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز کے بازاروں میں جا جا کر توحید، رسالت اور آخرت کے بارے لوگوں کو بتلاتے جبکہ کفارِ قریش بھی لوگوں سے یہ کہتے کہ محمد کے کلام میں جادو ہے جس نے عرب معاشرے کو تقسیم کر رکھا ہے۔ اس میں ابو لہب پیش پیش تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے کفارِ قریش کی ناگواریوں کے باوجود دعوت الی اللہ کی رفتار کو تیز تر کر دیا۔جیسے جیسے سمجھ دار لوگ اسلام کے پیغام کو سمجھ کر ایمان قبول کرتے وہ بھی اسلام کی تبلیغ میں لگ جاتے۔ اس طرح روز بروز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ اس سے کفار مکہ کی پریشانی میں اضافہ ہونے لگا۔ اب وہ اس دعوتِ اسلامی کو اپنی مشرکانہ تہذیب کے لیے اصل خطرہ سمجھنے لگے۔ اس کے بعد مشرکین مکہ کی طرف سے علانیہ مخالفت کا محاذ کھل گیا۔ جھوٹے الزامات لگانا، شکوک و شبہات پیدا کرنا، قرآن کی آیات کی تلاوت کے وقت شور مچانا اور گانوں اور پرانے قصوں سے لوگوں کی توجہ کو قرآن سے ہٹانے کی کوشش کرنا معمول بن گیا تھا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود قرآن کی تعلیمات مکہ میں گھر گھر پہنچنے لگیں تو مکہ کے سرداروں نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک سال مسلمان ان کے معبودوں کی پوجا کریں اور ایک سال وہ مسلمانوں کے رب کی عبادت کریں گے۔ جب کفار مکہ کی ساری چالیں الٹی پڑنے لگیں اور دعوت الی اللہ کا سفر آگے بڑھتا رہا تو مخالفین نے مار پیٹ اور پر تشدد کارروائیاں شروع کر دیں۔حضرت بلال ؓ آل یاسرؓ حضرت خبّاب بن ارتؓ پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے۔ ان متشدد کارروائیوں کے باوجود اسلام کی تبلیغ میں ذرا بھی کمی نہیں آئی بلکہ اسلام پھیلتا رہا۔ جب مکہ میں حالات ناقابلِ برداشت ہونے لگے تو پھر مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ مشرکینِ مکہ نے دو افراد کو حبشہ سفارتی مہم کے لیے منتخب کر کے دربارِ نجاشی میں بھیجا تاکہ وہاں سے مسلمانوں کو واپس بھیج دیا جائے۔ دربارِ نجاشی میں جب قریش کے نمائندوں نے درخواست کی کہ حبشہ میں پناہ لینے کے لیے آئے ہوئے پناہ گزیزینوں کو واپس مکہ بھیج دیا جائے تو نجاشی نے مسلمانوں کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا۔ مسلمانوں کے ترجمان حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ نے دربارِ نجاشی میں دعوتی تقریر کی جس کا متن یہ ہے:
’’اے بادشاہ! ہم ایسی قوم تھے جو جاہلیت میں مبتلا تھی۔ ہم بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، قرابت داروں سے تعلق توڑتے تھے، ہمسایوں سے بد سلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا۔ ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم میں سے ایک رسول بھیجا اس کی عالی نسبی، سچائی، امانت اور پاک دامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا اور سمجھایا کہ ہم صرف ایک اللہ کو مانیں اور اسی کی عبادت کریں اور اس کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے، قرابت جوڑنے، پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے اور حرام کاری و خون ریزی سے باز رہنے کا حکم دیا اور فواحش میں ملوث ہونے، جھوٹ بولنے، یتیم کا مال کھانےاور پاک دامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگانے سے منع کیا ہے۔ اس نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اس نے ہمیں نماز، روزہ اور زکوٰۃ کا حکم دیا۔ ہم نے اس پیغمبر کو سچ مانا اور اس پر ایمان لائے اور اس کے لائے ہوئے دین خداوندی میں اس کی پیروی کی۔ چناں چہ ہم نے جب صرف اللہ کی عبادت کی اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا اور جن باتوں کو اس پیغمبر نے حرام بتایا انہیں حرام مانا اور جن کو حلال بتایا انہیں حلال جانا، اس پر ہماری قوم بگڑ گئی۔ اس نے ہم پر ظلم و ستم کیا اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کے لیے فتنے اور سزاؤں سے دو چار کیا تاکہ ہم اللہ کی عبادت چھوڑ کر بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن گندی چیزوں کو حلال سمجھتے تھے انہیں پھر حلال سمجھنے لگیں۔ جب انہوں نے ہم پر بہت ظلم کیا ہمارے لیے زمین تنگ کر دی اور ہمارے درمیان اور ہمارے دین کے درمیان روک بن کر کھڑے ہو گئے تو ہم نے آپ کے ملک کی راہ لی اور دوسروں پر آپ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیا اور یہ امید کی کہ آپ کے پاس ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
نجاشی نے کہا: ’’وہ پیغمبر جو کچھ لائے ہیں اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟‘‘
حضرت جعفر ؓ نے کہا ،’’ہاں ہے‘‘
نجاشی نے کہا: ’’ذرا مجھے بھی پڑھ کر سناؤ۔‘‘
حضرتِ جعفرؓ نے سورۂ مریم کی ابتدائی آیات تلاوت کیں۔ نجاشی اس قدر رویا کہ اس کی داڑھی تر ہو گئی۔
اگلے دن عمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا، ’’اے بادشاہ! یہ لوگ عیسیؑ بن مریمؑ کے بارے میں ایک بڑی بات کہتے ہیں۔‘‘اس پر نجاشی نے مسلمانوں کو پھر بلا بھیجا۔ اس دفعہ مسلمانوں کو گھبراہٹ ہوئی لیکن انہوں نے طے کیا کہ سچ ہی بولیں گے نتیجہ خواہ کچھ ہو چناں چہ جب مسلمان نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے اور اس نے سوال کیا تو حضرت جعفرؓ نے کہا: ’’ہم عیسی علیہ السلام کے بارے میں وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے نبی لے کر آئے ہیں یعنی حضرت عیسیؑ اللہ کے بندے، اس کے رسول، اس کی روح اور اس کا وہ کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری پاک دامن حضرت مریم علیہا السلام کی طرف القا کیا تھا۔‘‘
اس پر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور بولا: خدا کی قسم ! جو کچھ تم نے کہا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے اس تنکے کے برابر بھی بڑھ کر نہ تھے۔
یہ ایک بہترین دعوتی تقریر کا نمونہ ہے۔جس میں حق بات کو بلا خوف و خطر پیش کیا گیا اور اسلام کے انسانی زندگی پر مثبت اثرات کی بھر پور عکاسی کی گئی جہاں اسلام انسان کی آخرت سنوارنے کا ذریعہ ہے وہیں اسلام انسان کی دنیاوی زندگی کو بھی بہتر بناتا ہے۔
ایک مرتبہ قریش کے ایک بوڑھے سردار عتبہ بن ربیعہ نے قریش کی محفل میں کہا کیوں نہ میں محمدؐ سے تنہائی میں بات کروں تاکہ ہم انہیں کچھ دے دلا کر اس دعوت سے باز رکھیں۔ عتبہ نے تفصیل سے بات رکھی کہ ہم چاہیں تو تمہیں ہم میں سب سے مال دار بنا دیں۔ تم چاہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنا دیں، اگر چاہو تو ہم تمہیں ہمارا بادشاہ بنا دیں۔ اگر تمہارا سامنا بھوت پریت سے ہوتا ہے اور تم علاج کروانا چاہتے ہو تو ہم تمہارا علاج کروا دیتے ہیں۔ عتبہ یہ باتیں کہتا رہا اور حضور اکرم ﷺ اس کی باتیں سنتے رہے۔ جب وہ خاموش ہوا تو فرمایا ’’ابولولید! آپ کی بات ختم ہو گئی؟’’ اس نے کہا: ’ہاں‘ تب آپؐنے فرمایا ’’اچھا تو اب میری سنو!۔ پھر آپؐنے سورۃ فصّلت کی آیات پڑھیں ۔
عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے چپ چاپ سنتا جا رہا تھا۔ جب آپؐسجدے کی آیت پر پہنچے تو آپؐنے سجدہ کیا پھر فرمایا: ’’ابوالولید !تمہیں جو کچھ سننا تھا سن چکے اب تم جانو اور تمہارا کام جانے‘‘۔
بیشتر مواقع پر آپ کا طریقِ دعوت یہ تھا کہ آپ قرآن کی آیات مدعوئین کو سناتے اور قرآن کی آیات سن کر ان پر گہرا اثر ہوتا۔ایک مرتبہ نجران سے چند عیسائی آپؐکی رسالت کی خبر سن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐنے ان کے سامنے سورہ اخلاص کو پیش کر کے اللہ کی الوہیت کو بیان کیا۔
ارشادِربّانی ہے: نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ۔ بس تم اس قرآن کےذریعہ سے ہر اُس شخص کو نصیحت کر دو جو میری تنبیہ سے ڈرے۔(سورۃ ق ٤٥)
داعیانِ حق کے لیے حکمتِ دعوت کے سلسلے میں ایک اہم ہدایت یہ ہے کہ وہ قرآن کو دعوت کا ذریعہ بنائیں۔
۱۰ نبوی میں ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا دونوں کا انتقال ہو جاتا ہے۔ ابو طالب کے انتقال کے وقت رسول اللہ ﷺ نے ان کے قریب جا کر فرمایا:’’چچا جان آپ لا الہ الا اللہ کہہ دیجیے اس ایک کلمہ کے ذریعے میں اللہ کے پاس آپ کے لیے حجت پیش کر سکوں گا جب کہ ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بار بار ابو طالب کو عبدالمطلب کے دین کی طرف متوجہ کر رہے رہے تھے۔ اس طرح ابو طالب کی موت عبدالمطلب کی ملت پر ہوئی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
اے نبیؐ، تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔ (سورۃ القصص ٥٦)
اس میں داعیانِ حق کے لیے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہدایت دینا داعی کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس کے ذمہ اللہ کے پیغام کو پہنچا دینا ہے۔
۱۰ نبوی آپ کے لیے غموں کا سال واقع ہوا۔ اس سال کے بعد قریش کی ہمت بہت بڑھ چکی تھی اور وہ کسی خطر ناک فیصلہ کے بارے میں سوچ بچار کر رہے تھے۔ آپ ان حالات میں اہلِ مکہ میں دعوت کے میدان میں اتمامِ حجت ہونے کے بعد طائف کا رخ اختیار کرتے ہیں اس امید میں کہ وہاں کے لوگ ایمان لا کر آپ کو اپنے ہاں پناہ دے دیں گے۔
۔شوال ۱۰ نبوی میں آپؐ اپنے آزاد کردہ غلام زید ؓبن حارثہ کے ساتھ طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے جن کے نام عبدیالیل، حبیب اور مسعود تھے۔ آپؐنے ان کے پاس بیٹھنے کے بعد انہیں اللہ کی بندگی اور اسلام کی مدد کی دعوت دی۔جواب میں ایک نے کہا کہ وہ کعبہ کا پردہ پھاڑے اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو۔ دوسرے نے کہا:’’ کیا اللہ کو تمہارے علاوہ کوئی اور نہ ملا؟ تیسرے نے کہا :’’میں تم سے ہرگز بات نہ کروں گا۔ اگر تم واقعی پیغمبر ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑ رکھا ہے تو پھر تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہیے۔‘‘رسول اللہ نے طائف میں دس دن قیام فرمایا۔ اس دوران آپؐان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے گفتگو کی لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ تم ہمارے شہر سے نکل جاؤ۔بلکہ انہوں نے اپنے اوباشوں کو شہ دے دی۔چنانچہ جب آپؐ نے واپسی کا قصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے، تالیاں پیٹتے اور شور مچاتے آپؐکے پیچھے لگ گئے۔ پھر گالیوں کے ساتھ پتھر بھی چلنے لگے جس سے آپ کی ایڑیوں پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تر بتر ہو گئے۔ بد معاشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا یہاں تک کہ آپؐکو عتبہ و شیبہ ابنائے ربیعہ کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ آپ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے۔ قدرے اطمینان ہوا تو دعا مانگی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہوئی۔ابنائے ربیعہ نے اپنے ایک عیسائی غلام جس کا نام عداس تھا بلا کر کہا کہ اس انگور سے ایک گچھا لو اور اس شخص کو دے آؤ۔ جب اس نے آپؐکی خدمت میں انگور پیش کیا تو آپ نے بسم اللہ کہہ کر ہاتھ بڑھایا اور کھانا شروع کیا۔ عداس نے کہا کہ یہ جملہ تو اس علاقے کے لوگ نہیں بولتے۔ آپؐنے اس سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟اور تمہارا دین کیا ہے؟ اس نےکہا میں عیسائی ہوں اور نینوا کا باشندہ ہوں۔ رسول اللہ نے فرمایا: اچھا تم مردِ صالح یونس بن متی کی بستی کی رہنے والے ہو؟۔ اس نے کہا آپؐ یونس بن متی کو کیسے جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا وہ میرے بھائی تھے۔ وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔ یہ سن کر عداس رسول اللہ پر جھک پڑا اور آپ کے سر اور ہاتھ کا بوسہ دیا۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہےکہ نبی مدعو کی اس چیز کو گفتگو کا موضوع بناتا ہے جو اس کے اور مدعو کے درمیان کلمہ سواء (قدرِ مشترک) ہو۔
مکی دورِ نبوت کے اواخر میں ہر طرف سے مایوس کن خبریں مل رہی تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ سارے اسباب منقطع ہو چکے ہیں اور مکہ ایک بند گلی کی مانند ہو چکا ہے ان حالات میں آپؐکو یہی حکم دیا گیا کہ: وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىَ يَحْكُمَ اللّهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
اور اے نبیؐ، تم اس ہدایت کی پیروی کیے جاؤ جو تمہارے طرف بذریعہ وحی بھیجی جا رہی ہے اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے (سورۃ یونس ۱۰۹)
اس آیت میں یہ تسلی دی گئی کہ نبی کا کام دعوت الی اللہ کے راستے پر صبر کے ساتھ گامزن رہنا ہے اور یہ وہ عمل ہے جو بند گلی میں سے ایسے راستے نکالتا ہے جہاں داعی کا وہم و گمان بھی نہ جاتا ہو۔ یہی امت مسلمہ کے لیے سبق ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں اللہ نجات کے راستے معجزاتی طریقوں سے نکالتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل اعتماد رکھتے ہوئے صبر کے ساتھ دعوت الی اللہ کے راستے کو نہ چھوڑا جاِئے۔
مکہ میں داخل ہو کر آپ نے اطراف و اکناف کے قبائل کو اسلام کی دعوت دینی شروع کر دی جو حج کی ادائیگی کے لیے مکہ آئے ہوئے تھے۔ کچھ افراد اسلام میں حلقہ بگوش ہوئے جن میں یثرب کے سویدؓبن صامت، ایاس ؓبن معاذ، ابو ذر ؓغفاری، طفیلؓ بن عمر دوسی جو قبیلہ دوس کے سردار تھے۔ یمن کے باشندے ضمادؓ ازدی کے علاوہ یثرب کے قبیلہ خزرج کی چھ سعادت مند روحوں نے بھی اسلام قبول کیا جنہوں نے یہود سے یہ سن رکھا تھا کہ ایک نبی جلد ہی نمودار ہونے والا ہے۔ اگلے سال جب موسمِ حج آیا (یعنی ذوی الحج ۱۲ نبوی ) یثرب سے ۱۲ لوگ آئے جن میں پانچ پچھلے سال آئے تھے۔ ان لوگوں نے منیٰ میں عقبہ کے پاس ملاقات کی اور آپؐسے چند باتوں پر بیعت کی۔ رسول اللہ نے یثرب (مدینہ) میں دعوت الی اللہ کے کام کو انجام دینے کی غرض سے مصعبؓ بن عمیر کو اسلام کا سفیر مقرر کرکے بھیجا۔ مصعبؓ بن عمیرکی مبارک کاوشوں سے ایک سال کے اندر نبوت کے تیرہویں سال ستّر سے زائد مسلمان فریضہ حج ادا کرنے کے لیے تشریف لائے اور اسی سال بیعت عقبہ ثانیہ رات کی تاریکی میں جمرۂ عقبہ کے پاس گھاٹی میں پیش آئی جو اسلام کی تاریخ میں فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ دعوت الی اللہ ہی سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا راستہ ہموار ہوا۔
سیرت کے اس مختصر بیان سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہر پیغمبر کی زندگی میں رکاوٹیں آتی ہیں اور ہر رکاوٹ کے دور ہونے اور ہر بند گلی کے کھلنے کا راستہ دعوت الی اللہ ہی سے ملتا ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام کے جیل سے نکلنے کا بھی دروازہ دعوت الی اللہ ہی سے کھلا اور انہیں قصرِ سلطانی تک لے گیا۔ آج ہمارے لیے بھی ملک میں تمام مایوسیوں سے نکلنے کا بھی راز اسی سنتِ دعوت کو اختیار کرنے میں پنہاں ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 جولائی تا 30 جولائی 2022