رسائل و مسائل
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
کیا سجدۂ تلاوت کو مؤخّر کیا جا سکتا ہے؟
سوال: درسِ قرآن دیتے ہوئے کبھی آیتِ سجدہ آجاتی ہے۔ کیا اس موقع پر درس روک کر درس دینے والے اور سننے والوں کو فوراً سجدہ کر لینا چاہیے،یا سجدہ کو مؤخّر کیا جا سکتا ہے کہ درس ختم ہونے کے بعد، یا کبھی آئندہ ہر ایک سجدہ کر لے؟
یہ بھی بتائیں کہ اگر دورانِ تلاوت کئی آیات ِ سجدہ پڑھ لی جائیں توکیا ایک ہی سجدہ کافی ہے ، یا ہر ایک آیت ِ سجدہ پر الگ الگ سجدہ کرنا ہوگا؟
جواب: قرآن مجید میں بعض آیات ایسی ہیں جن میں سجدہ کا ذکر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ جب ان کی تلاوت کرتے تھے تو سجدہ کرتے تھے اور آپﷺ کو دیکھ کرصحابۂ کرام بھی سجدہ ریز ہوجاتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں:
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَقرَأ عَلَینَا السُّورَۃَ فِیھا السَّجدَۃُ، فَیَسجُدُ وَنَسجُدُ (بخاری: ۱۰۷۵)
نبی ﷺ ہمارے سامنے کوئی سورت پڑھتے تھے۔ اس میں سجدہ کی آیت آتی تو آپﷺ سجدہ کرتے تھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے تھے۔
حدیث میںآیت ِ سجدہ پڑھنے پر سجدہ کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
جب ابن ِ آدم آیتِ سجدہ پر سجدہ کرتا ہے تو شیطان دور ہٹ جاتا ہے اور ان الفاظ میں گریہ وزاری کرتا ہے: ہائے میری بربادی۔ ابن ِ آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس نے سجدہ کیا۔ چنانچہ جنت کا مستحق ٹھہرا ۔اور مجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ میں نے انکار کیا تو جہنم میرا مقدّر بنی۔ (مسلم: ۸۱)
صحابۂ کرام کا معمول تھا کہ نماز میں یا اس کے باہر، جب بھی قرآن کی تلاوت کرتے اور آیت ِ سجدہ سے گزرتے تو فوراً سجدہ ریز ہوجاتے تھے۔ ابن ابی شیبہؒ نے مشہور تابعی امام شعبیؒ سے روایت کیا ہے:
كانوا يكرهون إذا أتوا على السجدة أن يجاوزوها حتى يسجدوا (مصنّف ابن ابی شیبہ: ۱؍ ۳۶۶)
صحابۂ کرام جب قرآ ن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے آیت ِ سجدہ پڑھتے تو رک کر سجدہ کرتے تھے۔ اس کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھتے تھے۔
ان احادیث کی بنا پر فقہاء نے آیت ِ سجدہ کی تلاوت کرنے پر سجدہ کرنے کی تاکید کی ہے، البتہ ان کے درمیان نوعیتِ مشروعیت میں کچھ اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک سجدہ ٔتلاوت واجب ہے۔ شوافع اور حنابلہ اسے سنت مؤکدہ قرار دیتے ہیں۔ مالکیہ صرف سنت کہتے ہیں۔
کوشش کی جانی چاہیے کہ جب بھی آدمی تلاوت کرتے ہوئے آیت ِ سجدہ سے گزرے، یا کسی موقع پر صرف آیت ِ سجدہ کی تلاوت کرے تو فوراً سجدہ ریز ہوجائے، البتہ اگر اسے کوئی عذر ہو، یا اس موقع پر سجدہ کرنے میں کچھ زحمت ہو تو اسے مؤخّر کیا جا سکتا ہے اور بعد میں کسی مناسب وقت میں سجدہ کیا جا سکتا ہے۔ بعض احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے:
حضرت زید بن ثابتؓ نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سورۂ النجم کی تلاوت کی(اس میں آیت ِ سجدہ ہے)، لیکن آپﷺ نے سجدہ نہیں کیا۔ (بخاری: ۱۰۷۲، مسلم: ۵۷۷)
حضرت عمر بن الخطابؓ نے ایک مرتبہ جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے سورۂ النحل کی تلاوت کی۔ آیتِ سجدہ آنے پر منبر سے اترے اور سجدہ کیا۔ مسجد میں موجود دیگر لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ اگلے جمعہ کے خطبے میں انھوں نے پھر سورۂ النحل کی تلاوت کی۔ آیت ِ سجدہ پڑھی، لیکن سجدہ نہیں کیا اور فرمایا: آج ہم سجدہ نہیں کریں گے۔ کوئی سجدہ کرلے تو ٹھیک ہے، نہ کرے تو اس پر گناہ نہیں۔(بخاری: ۱۰۷۷، مؤطا مالکؒ: ۵۵۱)
امام مالکؒ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا: ٹھہرو! اللہ تعالیٰ نے آیت ِ سجدہ پر سجدہ کرنا لازم نہیں کیا ہے۔ ہمیں اختیار دیا ہے کہ چاہیں کر لیں، چاہیں نہ کریں۔ انھوں نے خود سجدہ کیا نہ صحابہ کو کرنے دیا۔‘‘ امام مالکؒ نے یہ بھی لکھا ہے: ’’ امام منبر پر ہو، وہ آیت ِ سجدہ کی تلاوت کرے تو منبر سے اتر کر سجدہ کرے، اس پر ہمارے یہاں عمل نہیں ہے۔
فقہ حنفی میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص آیتِ سجدہ پڑھتے وقت سجدہ نہ کرے، بعد میں کسی وقت کر لے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
وأداؤھا لیس علی الفور، حتّٰی لو أدّا ھا في أي وقت کان یکون مؤدّیا لا قاضیاً۔
سجدۂ تلاوت فوراً کرنا ضروری نہیں ہے۔ آیتِ سجدہ پڑھنے والا کسی وقت بعد میں سجدہ کرلے تو بھی اسے ادا سمجھا جائے گا۔ اس کی حیثیت قضا کی نہ ہوگی۔
اگر کوئی شخص دورانِ تلاوت کئی بار سجدہ کی آیتیں پڑھ لے تو احناف کا مسلک یہ ہے کہ اگر ایک مجلس میںایک ہی آیت ِ سجدہ بار بار پڑھی ہے تو ایک سجدہ کافی ہوگا، لیکن اگر الگ الگ کئی آیات سجدہ پڑھی ہیں تو بہتر ہے کہ ہر مرتبہ سجدہ کرے۔ اگر وہ تلاوت مکمل کرنے کے بعد سجدہ کر رہا ہو، یا کبھی بعد میں سجدہ کرے تو جتنی آیات ِ سجدہ کی اس نے تلاوت کی ہے اتنے ہی سجدے کرے۔
کیا باپ زندگی میں اپنی زمین جائیداداولاد کے درمیان تقسیم کرنے میں کمی بیشی کر سکتا ہے؟
سوال: ایک صاحب اپنے ایک بیٹے سے بہت خفا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اسے عاق کر دوں گا۔ اس طرح میرے مرنے کے بعد اسے میری جائیداد میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس بیٹے نے میری زیادہ خدمت کی ہے، اسے میں زیادہ دوں گا اور دوسرے بیٹوں کو کم۔
کیا ان کا یہ کہنا درست ہے؟ کیا اسلام میں نافرمان بیٹے کو عاق کرنا جائز ہے؟ اور کیا باپ زندگی میں اپنی جائیداد بیٹوں میں تقسیم کرنا چاہے تو کیا وہ ان کے درمیان کمی بیشی کر سکتا ہے؟
جواب: اسلام میں وراثت کا نظام موجود ہے۔ کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی زمین جائیداد اور دیگر مملوکہ چیزیں ا س کے قریبی رشتے داروں میں تقسیم ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے اور سب کے حصے متعین کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوٰلِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوٰلِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً(النساء: ۷)
مَرد وں کا اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہے اور عورتوں کا بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتے داروں نے چھوڑا ہو، اگرچہ تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصے مقرر ہیں۔
ایسی تدبیریں اختیار کرنا جن سے ورثہ میں سے کوئی محروم ہوجائے، درست نہیں ہے۔ ایسا کرنے والا گناہ گار ہوگا۔
بعض اولادیں والدین کی نافرمان ہوجاتی ہیں اور غلط روش پر جا پڑتی ہیں۔ چنانچہ والدین ان سے سخت ناراض ہوجاتے ہیں۔ اپنی ناراضی اور نافرمان اولاد سے اپنی لا تعلقی ظاہر کرنے کے لیے وہ اعلان کر دیتے ہیں اور بسا اوقات یہ اعلان اخبارات میں بھی چھپوا دیتے ہیں کہ فلاں شخص سے ،جو ہمارا بیٹا ہے، اب ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، اسے ہم نے عاق کر دیا ہے۔
آدمی کا کسی ناراضی کی بنا پر اپنی اولاد کو عاق کرنا جائز نہیں ہے۔ شرعی طور پر اس عمل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے مرنے کے بعد مالِ وراثت میں دوسری اولادوں کی طرح وہ لڑکا بھی حصہ پائے گا جسے عاق کیا گیا ہو۔
اولاد میں سے کسی کو زمین جائیداد سے محروم کر دینے سے دوریاںپیدا ہوتی ہیں۔ اس کی نافرمانی مزیدبڑھ جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ سماج میں بدنامی ہوتی ہے۔ پھراس کا بھی قوی امکان رہتاہے کہ نافرمان اولاد آئندہ سدھر جائے اور نیک بن جائے۔ اس لیے کسی اولاد کی نافرمانی کی صورت میں اسے عاق کرکے زمین جائیداد سے محروم کرنے کے بجائے اس کے حق میں دعا اور حسن ِ تدبیر سے اصلاح ِ احوال کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
البتہ اگر کوئی شخص مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں اپنا مال اور دیگر مملوکہ چیزیں اپنی اولاد کے درمیان عملاًتقسیم کر دے۔ وہ کسی ایک اولاد کو کچھ نہ دے اور دیگر اولاد کو ہبہ کرکے انھیں مالک بنا دے تو قانونی طور پر اس کا یہ عمل نافذ ہوجائے گا، اگرچہ وہ اپنی ایک اولاد کو محروم کرنے کا گناہ گار ہوگا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آدمی جس چیز کا مالک ہو اس میں اسے آزادانہ تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اگر اسے یہ حق نہ ہو تو ملکیت کیسی؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَکُم مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہ(الحدید: ۷)
’’اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔‘‘
وَآتُوھُم مِّن مَّالِ اللَّہِ الَّذِیْ آتَاکُمْ (النور: ۳۳)
’’اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمھیں دیا ہے۔‘‘
وَآتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً(بنی اسرائیل: ۲۶)
’’ رشتے دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔ فضول خرچی نہ کرو۔‘‘
ان تمام آیات میں خرچ کرنے کی آزادی دی گئی ہے اور کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں عائد کی گئی ہے۔
کسی بیٹے کو عاق کرکے اسے اپنے مال سے یک سر محروم کرنے کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ دانے د انے کو محتاج ہوجائے اور در بدر مارا پھرے۔ حدیث میں ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو نصیحت کی تھی:
إنك أن تذر ورثتك أغنياء، خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس (بخاری؛ ۱۲۹۵، مسلم: ۱۶۲۸)
تم اپنے ورثہ کو مال دار حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انھیں محتاجی کی حالت میں چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔
اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا کل سرمایہ اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تو کیا اس کے لیے لازم ہے کہ وہ سب کے درمیان برابر تقسیم کرے؟ یا وہ حسبِ ضرورت ان کے درمیان کچھ کمی بیشی کر سکتا ہے؟ اس سلسلے میں ہمیں ایک حدیث سے رہ نمائی ملتی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ نے بیان کیا ہے:
میرے باپ نے مجھے ایک چیز تحفے میں دی۔ میری ماں نے کہا : میں اسے قبول نہیں کروں گی جب تک آپ رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بنالیں۔ میرے باپ مجھے لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:’’میں نے اپنے اس بیٹے کو فلاں چیز دی ہے، لیکن اس کی ماں کا اصرار ہے کہ میں اس پر آپ کو گواہ بنا لوں۔‘‘آپﷺ نے فرمایا: اے بشیر! کیا تمھارے اور بھی لڑکے ہیں؟ انھوںنے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے پھر سوال کیا: کیا تم نے دوسرے لڑکوں کو بھی یہ چیز دی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں۔تب آپ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔‘‘ ایک اور روایت میں آپ کا یہ ارشاد بھی ہے: ’’میں ظلم و زیادتی پر گواہ نہیں بنوں گا۔ تمھارے بیٹوں کا حق ہے کہ تم ان کے درمیان انصاف سے کام لو۔‘‘ (بخاری: ۲۵۸۶، مسلم: ۱۶۲۳)
اس حدیث کی بنا پر بعض فقہاء (حنابلہ، احناف میں سے اما م ابو یوسفؒ، ابن مبارکؒ، طاؤسؒ اور ایک روایت کے مطابق امام مالکؒ) کی رائے ہے کہ اولاد کے درمیان تقسیم میں برابری واجب ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم دیتا ہے تووہ گناہ گار ہوگا۔ اگر اس نے ایسا کر دیا ہے تو اس کی تلافی کی صورت بس یہ ہے کہ یا تو جس کو زیادہ دیا ہے اس سے واپس لے لے، یا جس کو کم دیا ہے انھیں مزید دے کر برابر کر دے۔
فقہاء یہاں تک کہتے ہیں کہ زندگی میں تقسیم کی صورت میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان بھی تفریق نہیں کرنی چاہیے، بلکہ دونوں کو برابر دینا چاہیے۔ البتہ حنابلہ، احناف میں سے امام محمدؒ اور ایک مرجوح قول کے مطابق امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ لڑکے اور لڑکی کو دو ایک کے تناسب (۱:۲) سے دیا جا سکتا ہے، جیسا کہ میراث کی تقسیم لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْْن(مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔) کے اصول پر کی جاتی ہے۔
لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کو ضرورت محسوس ہو تو وہ اپنی زندگی میں اولاد کو دینے میں کمی بیشی کر سکتا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ہبہ کرنے میں اپنی صاحب زادی ام المومنین حضرت عائشہؓ کو اپنی دیگر اولاد پر ترجیح دی تھی۔ اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے بیٹے عاصم کو، جنھیں وہ زیادہ عزیز رکھتے تھے، اپنی دیگر اولاد کے مقابلے میں زیادہ دیا تھا۔
اس بنا پر احناف، مالکیہ اور شوافع کہتے ہیں کہ اگر آدمی اپنی زمین جائیداد یا دیگر مملوکہ چیزیں اپنی اولاد میں تقسیم کر رہا ہو تو انھیں برابر دینا مستحب ہے، واجب نہیں۔
راجح رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ آدمی عام حالات میںروپیہ پیسہ خرچ کرنے میں اولادکے درمیان (بشمول لڑکوں اور لڑکیوںکے) برابری کا معاملہ کرنے کی کوشش کرے، البتہ اگر کوئی خصوصی مدد کا محتاج ہو تو اس کی خصوصی طور پر مدد کردے،مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے تین لڑکے ہوں۔ دو صاحبِ حیثیت ہوں اور ایک غریب ، یا سب یکساں مالی حیثیت رکھتے ہوں، لیکن ایک کثیر العیال ہو، تو اس کی حسبِ ضرورت اضافی مدد کردے۔ البتہ زمین جائیداد کو اگر اپنی زندگی میں اولاد میں تقسیم کرتا ہے، (ان کی ضرورت کے پیش نظر) تو وراثت کے حصوں کے مطابق بھی تقسیم کرسکتا ہے۔
[ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: الموسوعۃ الفقہیۃ کویت: ۱۳؍۳۵۹۔۳۶۱، لفظ ’التسویۃ‘۔]■