رام مندر، مسلمان اور چندہ

رام مندر کے لیے مسلم حمایت اور چندہ حاصل کرنے کی مہم کے پس منظر میں ہفت روزہ دعوت نے زیر نظر مباحثہ کا آغاز کیا ہے۔ اس اہم موضوع پر ہمیں قارئین کی آراء مل رہی ہیں جن میں سے بعض کو اس شمارہ میں شائع کیا گیا ہے اور باقی کو آئندہ شمارہ میں جگہ دی جائے گی۔ اگر مزید قارئین اس بحث میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو وہ جلد سے جلد اپنی مختصر اور جامع تحریریں [email protected] پر ارسال کریں۔ (ایڈیٹر)

 

چندہ دے کر ایمان کا سودا نہ کریں
ہفت روزہ دعوت کے پچھلے شماروں میں ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کا مضمون ’’رام مندر، مسلمان اور چندہ‘‘ اور فاطمہ خان کا مضمون ’’آر ایس ایس میں مسلمانوں کی شمولیت اور حمایت‘‘ شائع ہوئے اور قارئین کو اس اہم موضوع پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی ہے۔ ڈاکٹر وید پرتاپ کے اس دعوے کو ماننے میں مجھے سخت تامل ہے کہ مسلمان جوش وخروش کے ساتھ مندر کے لیے چندہ دینے کی مہم میں شامل ہو رہے ہیں۔ میرے خیال میں کوئی سچا مسلمان کسی بت خانے کی تعمیر اور شرک کے مرکز کے قیام کے لیے اپنا پیسہ نہیں دے سکتا اور جو لوگ پیسہ دے رہے ہیں یا دوسروں کو اس کی ترغیب دے رہے ہیں وہ بجائے خود اپنی مسلمانیت کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ دراصل ایمان فروشوں کا ایک چھوٹا سا ٹولہ ہے جس کو سنگھ پریوار استعمال کر رہا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں پر تاریخی ظلم کرتے ہوئے اور تمام شواہد کو جھٹلا کر مندر کے حق میں فیصلہ کروایا گیا اور اب مظلوم مسلمانوں سے جن کے دل بابری مسجد کی شہادت کے صدمے سے کبھی ابھر نہیں سکتے، یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ سب کچھ بھول کر رام مندر کے لیے چندہ دیں گے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہندوتوا کے علمبردار چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے عقیدے کے تقاضوں اور شناخت پر سمجھوتہ کر کے ان کے کلچر کو قبول کرلیں جس کے لیے انہوں نے ’مسلمانوں کے بھارتی کَرن‘ کی پر فریب اصطلاح وضع کی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کے ادارتی نوٹ میں بالکل درست نشاندہی کی گئی ہے کہ رام مندر کے لیے آنے والے دنوں میں جبری چندے کی مہم زور پکڑ سکتی ہے۔ اس کا مقصود مختلف ریاستوں میں آنے والے اسمبلی انتخابات کے مد نظر ہندو-مسلم ٹکراو کے ذریعہ انتخابی ماحول کو گرم کرنا، مسلم مرعوبیت اور ہندو تفاخر کا تاثر قائم کرتے ہوئے فرقہ ورانہ صف بندی کرنا اور دنیا کو یہ پیغام دینا کہ مسلمان بابری مسجد کی شہادت کو بھول چکے ہیں اور باور کرانا کہ مسجد کو شہید کر کے اس کی جگہ رام مندر قائم کرتے ہوئے دراصل ایک ’تاریخی غلطی‘ کی اصلاح کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر صورتحال نہایت نازک ہونے جا رہی ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کے سامنے اپنے عقیدے اور دینی غیرت و حمیت کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف تفرقہ پرداز طاقتوں کے جبر واستبداد کا سامنا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسی حکمت عملی تیار کریں جس سے نہ ایمان کے تقاضوں پر کوئی سمجھوتہ ہو اور نہ ہی ٹکراو کی کیفیت پیدا ہو۔ لاکھ کوششوں کے باوجود اگر ٹکراو ہو ہی جاتا ہے تو مسلمان متحدہ طور پر اس کا مقابلہ کریں لیکن اپنے ایمان پر کوئی آنچ آنے نہ دیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے بطریق احسن یہ پیام پہنچانا چاہیے کہ وہ اپنے دینی عقیدے کی وجہ سے مندر کے لیے پیسہ نہیں دے سکتے اور اگر وہ دعوت دین بھی پیش کر دیں تو اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اس بحث کے اور بھی کئی پہلو ہو سکتے ہیں جنہیں اختصار کی شرط کے مد نظر چھوڑ رہا ہوں۔ آخر میں ہفت روزہ دعوت کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اس نے بر وقت اس مسئلہ کو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ گزارش ہے کہ بحث کے اس کالم کو دعوت کی مستقل خصوصیت بنایا جائے تاکہ لوگ مسائل پر غور کرنے اور اپنی رائے بنانے کے عادی ہو سکیں۔
فراست مرزا، مسقط (عمان)
آر ایس ایس میں مسلمانوں کی شمولیت اور
رام مندر کیلئے چندہ کی حقیقت
دسمبر ۲۰۰۲ میں مسلم راشٹریہ منچ کے نام سے ایک تنظیم سنگھ کے سابق سربراہ سدرشن کی کوششوں سے قائم ہوئی تھی۔ ابھی تک کی اطلاع کے مطابق اس سے منسلک ارکان کی تعداد بیس ہزار ہے۔ بیس کروڑ سے زائد کی آبادی والی امت مسلمہ میں اتنی تعداد اس قسم کے لیے مہیا ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہ تعداد اس وجہ سے بھی ممکن ہو سکی کیوں کہ سدرشن جارحیت پسند نہیں تھے بلکہ وہ افہام و تفہیم میں یقین رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ کی تاریخ میں سدرشن نے ہی شاید پہلی بار ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی دوری اور فرقہ وارانہ خلیج کو پاٹنے کی جانب قدم بڑھایا۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ آنے کی کوشش کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسلام کی تعلیمات اور ان کی دینی قیادت کے اعلیٰ اقدار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اس کی زندہ مثال ان کا آخری وقتوں میں عید گاہ جاکر مسلمانوں کو عید کی مبارکباد دینے کی ضد کرنا ہے، جس کے کچھ دنوں بعد خبر آئی کہ وہ لا پتہ ہوگئے ہیں اور پھر ان کے موت کی خبر آئی۔ بہر حال موضوع ہے سنگھ کے مسلم چہرہ والی تنظیم میں مسلمانوں کی شمولیت۔ یہ سچ ہے کہ کچھ لوگ اس میں شامل ضرور ہوئے ہیں مگر یہ سچ نہیں ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد آر ایس ایس سے جڑ چکی ہے۔ مسلمانوں میں ایسی فطرت کے کچھ لوگ ہیں جو موقع سے فائدہ اٹھانے میں مشاق ہوتے ہیں، اسی قبیل کے چند لوگ اس میں چلے گئے ہیں اور وہ مسلسل اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو آر ایس ایس کے قریب کریں۔ مگر جو لوگ اس طرح کی کوششوں میں مصروف ہیں وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور قوم کے درمیان انہیں جس زبان میں یاد کیا جاتا ہے اسے یہاں بیان کرنا مناسب نہیں ہے۔ میں ممبئی میں ایسے افراد کو جانتا ہوں جو مسلم راشٹریہ منچ کے سربراہ اندریش کمار کی تعریفوں کے پل باندھتے نہیں تھکتے۔ میرے سامنے بھی انہوں نے ایسی ہی کوشش کی مگر میرے مزاج کو دیکھتے ہوئے پھر انہوں نے جھوٹ اور فریب کا سہارا لیا کہ انہوں نے سنگھ کی اعلیٰ قیادت کے سامنے ان کی خامیوں اور مسلمانوں کی وطن عزیز کے تئیں بے مثال قربانیوں کو پیش کی لیکن سنگھ کے سامنے ان کے اس بیان کا کیا اثر ہوا وہ بتانے سے قاصر رہے۔ ایسے مشکوک افراد موٹی رقم کے لالچ میں اس طرح کی گھناؤنی حرکت کرتے ہیں اور مسلمانوں کے درمیان اس تنظیم کو قابل قبول بنانے کی تحریک میں مصروف ہیں۔ یہ بات عام لوگوں کو معلوم نہیں لیکن درست ہے کہ سنگھ کی جانب سے ایسے لوگوں کو مالی اعانت کے بدلے ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
کووڈ کے سبب لاک ڈاؤن کے بعد مساجد کھلیں تو گیٹ پر یا وضو خانوں میں مسلم راشٹریہ منچ کی جانب سے احتیاطی تدابیر والے پوسٹر چسپاں کئے گئے۔ اس پوسٹر کے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہیں کہ کس نے لگایا یا یہ پوسٹر جس تنظیم کی جانب سے لگائے گئے اس کا پس منظر کیا ہے۔میرے ایک دوست نے اس کی تصاویر بھیجیں تو اس کی خبر بنا کر عام کی گئی۔ اس تعلق سے اردو اخبارات کا رویہ سرد اور مایوس کن رہا۔ پوسٹر اور مسلم راشٹریہ منچ کے تعلق سے میرے ایک دوست اور ایک مسجد کے ٹرسٹی نے نام لے کر بتایا کہ فلاں شخص جو کہ فلاں مسجد کا ٹرسٹی بھی ہے مذکورہ تنظیم سے جڑا ہوا ہے۔
جو لوگ مسلمانوں کے سنگھ سے جڑنے کی نام نہاد تحقیقی رپورٹ لکھ رہے ہیں وہ مسلمانوں کے درمیان بھرم پیدا کر کے انہیں اخلاقی طور پر کمزور کرنے کا کام کر رہے ہیں جیسا کہ اوپر لکھا گیا کہ مسلم راشٹریہ منچ کے ارکان کی تعداد بیس ہزار ہے وہ اس وقت کی بات ہے جب سدرشن سنگھ کے سربراہ تھے اور جو اعتدال پسندی کے لیے معروف تھے۔ وہ مسلمانوں کے اتنے قریب آئے کہ اسلام سے متاثر بھی ہوئے اور بعض خبروں کے مطابق انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اسی وجہ سے انہیں کھلے عام مسلمانوں سے ملنے بھی نہیں دیا گیا اور مشتبہ حالات میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ اگر یہ خبر عام ہو جاتی کہ سنگھ کے سابق سربراہ نے اسلام قبول کر لیا ہے تو ان کی جانب سے کھڑی کی گئی جھوٹ کی ساری عمارت ہی زمین بوس جاتی۔ اسی خوف سے شاید موجودہ سربراہ موہن بھاگوت مسلمانوں کے قریب نہیں آ رہے ہیں اور نہ ہی ہندوؤں کو مسلمانوں سے قربت کا اشارہ کر رہے ہیں۔
جب اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ مسلمان سنگھ سے جڑ رہے ہیں تو اس کی وجوہات تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے پھر بھی جو لوگ اس سے جڑے ہیں ان کے بارے میں بتایا جاچکا کہ وہ کس قبیل کے ہیں۔ سنگھ سے جڑنے یا رام مندر کے لیے چندہ دینے یا اس کے لیے چندہ مہم میں شامل ہونے والے افراد وہ ہیں جن کا قوم سے تعلق بس روایتی قسم کا ہے۔ اس سلسلے میں بہار کے مشرقی چمپارن بی جے پی اقلیتی سیل کے سربراہ محب الحق سے معلوم کیا کہ کیا وہ رام مندر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم میں شامل ہیں؟ ان کا جواب تھا بالکل، جب پارٹی میں ہیں تو یہ کرنا ہی ہوگا۔ مطلب رام مندر تعمیر کے لیے چندہ مہم میںشامل ہونا ان کی مجبوری ہے اور خوف کے سبب بھی ہے۔ اس سوال پر کہ کیا مسلمانوں سے رام مندر کا چندہ وصول کرنا درست ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بھائی چارہ کے فروغ کے لیے یہ کام کیا ہے جب کہ محب الحق کے آس پاس کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ رام مندر کے لیے چندہ انہی لوگوں نے دیا ہے جن کے کچھ نہ کچھ مفاد تھے۔ محب الحق میرے چندہ کے متعلق سوال سے ناراض تو ہوتے ہیں لیکن شاید فون پر ہونے کی وجہ سے بہت خوبی سے اپنی بات کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا مندر کے لیے چندہ دینا کوئی گناہ ہے؟ میں نے انہیں سمجھایا کہ ثواب یا عذاب کا فیصلہ آپ یا ہم نہیں کرسکتے۔ میرا ایک اور سوال تھا ’کیا مسلمانوں نے بھی کبھی اپنی مساجد کی تعمیر کے لیے کسی غیر مسلم سے چندہ لیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ مسجد میں کیسی رقم لگتی ہے اور اس کی تعمیر کے کیا کیا شرائط ہیں اس سے مسلمان بخوبی واقف ہیں۔
یہ جواز کہ عدم تحفظ کے احساس کے سبب مسلمان آر ایس ایس سے جڑ رہا ہے اور رام مندر کے لیے چندہ دے رہا ہے، درست نہیں ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس میں گنتی کے مسلمان شامل ہیں اور جو شامل ہیں ان کا تعلق قوم سے کتنا ہے یہ بتایا جا چکا ہے۔ بعض لوگوں کے لیے صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بس مسلمانوں جیسے ناموں والے ہیں، قوم ان کو اپنا کہنے میں تحفظ کا شکار ہے۔ یہ تحفظ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ یہ قوم لاکھ خرابیوں کے باوجود مُردہ نہیں ہے۔ چند مسلم نام والے عجیب و غریب بیانات دیتے اور حرکتیں کرتے ہیں، کوئی سونے کی کلس لگانے کی بات کرتا ہے تو کوئی گائے کے تحفظ کے لیے بیانات دیتا ہے۔ کوئی پیشانی پر تلک لگا کر اور ہون و پوجا میں شامل ہو کر بھی خود کو مسلمانوں میں ہی شمار کرتا ہے۔ ایسے چند لوگوں کو اگر کچھ پذیرائی مل بھی جاتی ہے تو ان کی جانب سے جنہیں اقتدار کی گلیوں سے کچھ پانے کی امید ہے۔ ایسے چند لوگوں کو ہم دیکھ بھی چکے۔ ان میں سے کچھ کو استعمال کر کے پھینکا بھی جا چکا ہے۔ ہر وقت ان کا نام لے کر بتانا درست نہیں ہے، بس تھوڑا دماغ دوڑائیں نام یاد آ جائے گا۔
یہ ثابت کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے کہ سنگھ میں شامل ہونا یا نام نہاد مسلم راشٹریہ منچ میں کچھ مسلمانوں کا اپنے لیے جگہ بنانا روایتی قیادت سے بیزاری کے سبب ہے۔ مسلمان خواہ کتنا بھی قیادت سے متنفر ہو جائے مگر وہ قوم کی دشمنی میں پوری قوت لگانے والوں کا ساتھی کبھی نہیں بن سکے گا۔ چند لوگ ہر دور میں رہے ہیں کل میر جعفر، میر صادق اور ترکی میں کرتغلو جیسے کردار تھے تو آج بھی انہی کے قبیلے کے چند افراد ہیں، جنہیں بہر حال مجموعی طور پر پوری مسلم امہ سے جوڑنا اگر دوستوں کی جانب سے ہے تو احمقانہ سوچ ہے اور اگر دشمنوں کی جانب سے ہے تو یہ مسلمانوں کا حوصلہ توڑنے کا ایک حربہ ہے۔آخری بات یہ کہ مسلمان اندریش کمار کی کرشماتی شخصیت کے سبب ہی آر ایس ایس کے قریب ہو رہے ہیں، یہ بھی دیوانے کا خواب ہی ہے۔ وہ اجمیر درگاہ بم دھماکہ کے مشتبہ ملزم تھے جس سے موجودہ حکومت کے دور میں انہیں گلو خلاصی ملی ہے۔ مجھے آج تک اندریش میں کوئی ایسی خوبی نظر نہیں آئی، اگر کوئی کرشمہ ہے تو وہ صرف مال اور اقتدار کی قوت ہے اور اس سے وہی متاثر ہوتے ہیں جنہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔
نہال صغیر، ممبئی
مذہبی رواداری کی امید نا انصافی کے شکار مسلمانوں سے ہی کیوں؟
ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک نے مسلمانوں کو باہمی رواداری کا مشورہ دیتے ہوئے رام مندر کے لئے بڑھ چڑھ کر چندہ کی حمایت کی ہے۔ اس سلسلے میں یہاں کچھ غور طلب نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔
اول: کیا رواداری کا مظاہرہ صرف مسلم اقلیت کی طرف سے ہونا چاہیے؟ کیا اکثریتی طبقے کے اوپر باہمی رواداری نبھانا ضروری نہیں ہے؟ ڈاکٹر وید پرتاپ مسلم بادشاہوں کی مذہبی رواداری کی مثالیں دے رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ ان بادشاہوں کی مذہبی رواداری کے قصے اکثریتی طبقے کے گوش گزار کرائیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ مسلم حکمرانوں نے یہاں کی غیر مسلم عوام کے ساتھ جو حسن سلوک روا رکھا تھا اسی کی بدولت تو وہ اتنے سال بھارت پر حکومت کر پائے۔
دوم: ڈاکٹر وید پرتاپ لکھتے ہیں کہ سب کا خدا ایک ہے تو بابری مسجد میں بھی تو اسی خدا کی عبادت ہوتی تھی جس کو ہندو بھی اپنا پرماتما تصور کرتے ہیں، پھر مسجد شہید کر کے مندر تعمیر کرنے کا جواز کیا ہے؟ جب سب کا مالک ایک ہے اور تمام عبادت گاہیں ایک ہی خدا کا تصور پیش کرتی ہیں تو کیا ہندو کسی اور خدا کی عبادت کرتے ہیں جو مسلمانوں کا خدا نہیں ہے۔
سوم: چندہ وہاں دیا جاتا ہے جہاں پیسوں کی قلت ہو یہاں تو ساری دنیا سے چندہ وصول کیا جا رہا ہے، با ضابطہ سونے کی اینٹیں دان میں دی جا رہی ہیں۔ وہاں مسلمانوں سے چندے کی امید رکھنا جو سچر کمیٹی کے شماریات کے مطابق دلتوں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں، کہاں تک درست ہے؟
ویسے بھی سارے شواہد بابری مسجد کے حق میں ہونے کے باوجود صرف اکثریتی طبقے کے افراد کو خوش کرنے کے لئے یہ فیصلہ رام جنم بھومی کے حق میں دیا گیا ہے اور ساری دنیا نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے جو مسلمانوں کو نیچا دکھانے کے لئے اور ہندو انتہا پرستی کے فروغ کے لئے کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ یہ بتانے کے لئے کیا گیا ہے کہ اب یہاں ہندو انتہا پرستوں کی حکومت چلے گی، چاہے انصاف کی دھجیاں ہی کیوں نہ اڑ جائیں۔
ڈاکٹر کاظم ملک، ممبئی
کسی کو جبری چندہ وصولی کا حق نہیں ہے
رام مندر کی تعمیر کے نام پر چندہ کرنے کی آڑ میں اقیلتوں کو پریشان کرنا کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے،۔ آر ایس ایس اور بجرنگ دل رام مندر کے چندہ کے نام پر غنڈہ گردی کرنا بند کر دیں۔ بے شک آپ کو چندہ کرنے کا حق ہے مگر زبردستی کرنے اور نفرت و تشدد پھیلانے کا حق ہرگز نہیں ہے۔ نفرت سے باز آ جائیے۔ ملک کو نفرت کی نہیں محبت کی ضرورت ہے۔ چندہ کے بہانے لوگوں کو ہراساں کرنا اور نفرت و تشدد پیدا کرنا بہت شرم کی بات ہے۔
سیف الاسلام، دربھنگہ، بہار

دراصل ایمان فروشوں کا ایک چھوٹا سا ٹولہ ہے جس کو سنگھ پریوار استعمال کر رہا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں پر تاریخی ظلم کرتے ہوئے اور تمام شواہد کو جھٹلا کر مندر کے حق میں فیصلہ کروایا گیا اور اب مظلوم مسلمانوں سے جن کے دل بابری مسجد کی شہادت کے صدمے سے کبھی ابھر نہیں سکتے، یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ سب کچھ بھول کر رام مندر کے لیے چندہ دیں گے؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021