رازداری برائے فروخت۔۔!

واٹس ایپ پرائیویسی پر خدشات نئے نہیں ہیں

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

ہزاروں افراد نے واٹس ایپ سے اپنا ناطہ توڑ کر سگنل اور ٹیلیگرام جیسی میسنجر ایپس سے اپنا رشتہ جوڑ لیا ہے۔ چند روز قبل تک کئی لوگوں کا خیال تھا کہ واٹس ایپ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے وہ اپنے دوست احباب کو لطیفے اور دیگر پیغامات بھیج کر اپنی خوشی بانٹ سکتے ہیں یا اپنے اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ’’مفت‘‘ ویڈیو کال کر سکتے ہیں لیکن ان کے اس خیال پر اس وقت ضرب لگی جب واٹس ایپ پر انہیں ایک پیغام موصول ہوا جس میں اس نے اپنے صارفین سے کہا کہ وہ اپنی رازداری کے اصول و ضوابط تبدیل کر رہا ہے۔ جس کے فوراً بعد انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک طوفان برپا ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو پیغامات موصول ہونے لگے کہ واٹس ایپ اپنے صارفین کی رازداری پر پالیسی بدل رہا ہے جس کی وجہ سے اس میں اب رازداری باقی نہیں رہے گی، واٹس ایپ ہمارے فون سے نجی ڈیٹا کسی کو بھی دے سکتا ہے۔ چنانچہ لوگ اسے چھوڑ کر دوسرے میسنجر ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے لگے۔ تقریباً 1.2 ملین لوگوں نے ’’سگنل‘‘ نامی مسینجر ایپ ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ اسی عرصے میں واٹس ایپ نے اپنے ہفتہ وار ڈاؤن لوڈ میں گیارہ فیصد کی کمی درج کی۔ ایک اور میسنجر ایپ ٹیلیگرام کو یکم جنوری سے دس جنوری تک 1.7 ملین افراد نے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ واٹس ایپ کے حوالے سے ڈیٹا پرائیویسی کے بارے میں تشویش کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جب سے اسے فیس بک انڈیا نے خریدا ہے یہ تنازعات میں گھری ہوئی ہے لیکن یہ نیا تنازعہ واٹس ایپ کی ایک نئی رازداری پالیسی کے جاری کرنے کہ بعد شروع ہوا جو اب ایک ملک بھر میں موضوعِ گفتگوبن گیا ہے۔
واٹس ایپ نے نئے نوٹیفکیشن کے ذریعہ صارفین کو ایپ کا استعمال جاری رکھنے کے لیے 8فروری تک مہلت دی ہے۔ اگر صارف 8فروری تک تبدیل شدہ پالیسی پر راضی نہیں ہوتا ہے تو اسے ایپ چھوڑنا پڑے گا۔ اس طرح وہ اپنی نئی رازداری پالیسی کو قبول کرنے کے لئے صارفین کو مجبور کر رہا ہے۔ پالیسی میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ واٹس ایپ اپنے صارفین کے جغرافیائی محل وقوع کا اندازہ لگانے کے لئے انٹرنیٹ پروٹوکول پتے اور فون نمبر، ایریا کوڈ سمیت صارفین کے فونز سے وسیع میٹا ڈیٹا اکٹھا کرے گا۔ مزیدیہ کہ رازداری پالیسی میں اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ واٹس ایپ فیس بک کو ان پیغامات تک رسائی کی اجازت دے گا جو صارفین میسنجر ایپ پر کاروباری اداروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ یعنی اس پالیسی پر عمل درآمد سے واٹس ایپ صارفین کا ڈیٹا فیس بک سے شیئر کر سکے گا وہ فیس بک کی معاون کمپنیوں سے بھی ڈیٹا شیئر کر سکتا ہے تاکہ فیس بک اپنے اشتہارات کے ذریعہ صارفین پر مزید اثر انداز ہو سکے۔ کاروبار کے لیے فیس بک کس طرح واٹس ایپ کی بات چیت کو اسٹور اور اسے منظم کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر صارفین شرائط و ضوابط اور رازداری کی پالیسیوں کو بغور پڑھتے ہی نہیں ہیں، اس کو پڑھے بغیر ہی ان تمام باتوں سے اتفاق کر لیتے ہیں۔ لیکن واٹس ایپ کی اس پالیسی نے پہلی بار صارفین کو ان تمام ضوابط کو پڑھنے کا موقع دیا ہے۔ ایسے صارفین جو کئی سالوں سے واٹس ایپ استعمال کر رہے تھے وہ بھی بڑے پیمانے واٹس ایپ سے اپنا ناطہ توڑ رہے ہیں اور نئے مسینجر ایپس سے اپنا رشتہ جوڑ رہے ہیں۔
ڈیجیٹل حقوق کے کارکن اور ایک غیر منفعت بخش تنظیم ’پوائنٹ آف ویو‘ کے بانی بشکھا دتہ نے کہا کہ ’’ہم چھ سالوں سے واٹس ایپ کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ لوگ اب اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اس پر ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں‘‘۔ لوگ دوسرے ایپس استعمال کرنے میں تامل کر رہے تھے کیونکہ ان کے تمام دوست احباب واٹس ایپ پر تھے لیکن اس ہفتہ میں جانتا ہوں کہ بہت سارے لوگ سگنل مسینجر ایپ استعمال کرنے لگے ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ ایپ کریش ہو جائے گی۔ بھارت میں واٹس ایپ سے دوسرے پلیٹ فارمز کی طرف جانے کی کیا وجوہات ہیں۔ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ برسوں سے واٹس ایپ کی رازداری پالیسی سے بے چین تھے لیکن انہوں نے اب کارروائی کرنے کا انتخاب کیوں کیا؟ بہت سے لوگوں کے لئے سب سے بڑی وجہ 7 جنوری کو امریکی الیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایلون مسک کا ایک ٹویٹ مانا جاتا ہے۔ واٹس ایپ کی نئی پالیسی پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مسک نے ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے صرف یہ کہا کہ ’’سگنل استعمال کریں‘‘- یہ ایپ میسنجر پلیٹ فارم جو اوپن سورس ہے اور اسے صارفین کے ڈیٹا کی سیکیورٹی کا دفاع کرنے والے ایپ کے طور پر جانا جاتا ہے۔کئی لوگ محسوس کرتے ہیں کہ واٹس ایپ کو ترک کرنے میں ہی بہتری ہے جب کہ وہ دوسرے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی ڈیٹا پالیسیوں پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔
دوسرے کئی لوگوں کے لیے اصل مسئلہ فیس بک انک اور اس کے چیف مارک زکربرگ ہیں۔ ان کے نزدیک رازداری ایک مسئلہ ہے لیکن طاقت کا توازن بھی برقرار رہنا چاہئے۔ کولکاتہ میں رہنے والی 38سالہ مہروترا نے کہا کہ ’’زکربرگ اب ظالم عالمی رہنماؤں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی کی طرح کھیل رہے ہیں جو سماج میں تفرقہ انگیز سیاست کرنے کے لئے مشہور ہیں لہٰذا واٹس ایپ سے نکلنا میرے لئے ایک سیاسی فیصلہ ہے‘‘۔ مہروترا نے اب ٹیلیگرام کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جو ان کے خیال میں ایک محفوظ پلیٹ فارم ہے۔ انہوں نے کہا ’’میں ٹیلیگرام کو ایک موقع دینا چاہتا ہوں کیونکہ اس کا مالک زکربرگ نہیں ہے‘‘۔
سیاسی کارکن اور مصنف توشار کانتی بھٹاچاریہ نے بھی سگنل ایپ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھٹاچاریہ نے کہا کہ ’’رازداری کے معاملات ہر چیز کے ساتھ موجود ہیں یہاں تک کہ آدھار نمبر کے ساتھ بھی یہ مسئلہ موجود ہے۔ لیکن ہمیں اپنی تمام معلومات رضاکارانہ طور پر کسی خانگی امریکہ کمپنی کو کیوں دینا چاہئے؟‘‘۔
واٹس ایپ نے اپنی پرائیویسی پالیسی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے 13 جنوری کو سرکردہ انگریزی اخبارات میں پورے صفحے کا اشتہار دیا جس میں اس نے وضاحت کی کہ ’’واٹس ایپ آپ کی رازداری کا احترام کرتا ہے اور حفاظت کرتا ہے‘‘ فیس بک کی زیر ملکیت اس مسینجر ایپ نے یہ بھی کہا کہ ’’آپ کی رازداری کا احترام ہمارے ڈی این اے میں ہے‘‘۔
اس نے مزید کہا کہ ’’واٹس ایپ آپ کے ذاتی پیغامات نہیں دیکھتا ہے نہ ہی آپ کی کالیں سنتا ہے اور نہ ہی فیس بک کرتا ہے آپ کا ہر ذاتی پیغام، تصویر، ویڈیو، وائس (صوتی) پیغام اور دستاویزات جس کو آپ اپنے دوستوں، خاندانوں اور ساتھیوں کو ون آن ون یا گروپ چیٹس میں بھیجتے ہیں محفوظ ہیں جو آپ کے اور پیغام بھیجے جانے والے کے درمیان ہی رہتی ہیں۔
اس اشتہار میں واٹس ایپ نے کہا کہ تبدیل کیا ہوا ہے؟ "ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پالیسی اپ ڈیٹ سے آپ کے پیغامات کی رازداری پر کسی بھی طرح سے اثر نہیں پڑے گا۔ واٹس ایپ پر صرف بزنس میسج کرنے سے متعلق تبدیلیاں ہوئی ہیں جو اختیاری ہیں۔ رازداری کی اس پالیسی میں مزید شفافیت لائی گئی ہے کہ ہم ڈیٹا کو کیسے اکٹھا کرتے اور استعمال کرتے ہیں‘‘۔
2014 میں جب واٹس ایپ کو فیس بک نے خریدا تھا اسی وقت واٹس ایپ کے ذمہ داروں نے کہا تھا کہ جو رازداری سے متعلق تشویش پائی جاتی ہے ہم یقین دلاتے ہیں کہ اس میں کسی طرح کا کوئی رد وبدل نہیں کیا جائے گا اور کہا تھا کہ فیس بک کبھی بھی واٹس ایپ کا ڈیٹا استعمال نہیں کرے گا۔ اسے فیس بک سے شیئر نہیں کیا جائے گا یہ دونوں الگ الگ کمپنیاں ہیں ان کی حیثیت منفرد ہی رہے گی۔ دوسری بات یہ کہی گئی تھی کہ واٹس ایپ چیٹ ’اِنڈ ٹو اِنڈ‘ محفوظ ہے اور واٹس ایپ کسی بھی طرح کا ڈیٹا جمع نہیں کرتا۔ کچھ عرصہ قبل انسٹاگرام و فیس بک میں انضمام ہواہے اسی طرح کا انضمام واٹس ایپ کا بھی ہوگا جس کے ذریعہ صارفین اپنے پیغام واٹس ایپ سے فیس بک اور فیس بک سے واٹس ایپ کو بھیج سکتے ہیں۔ یہ تو رہی انضمام کی بات لیکن ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ واٹس ایپ اپنا ڈیٹا فیس بک اور اس کی ملحقہ کمپنیوں کو شیئر کرنے جا رہا ہے۔ واٹس ایپ اپنے صارفین کی مختلف معلومات کو (جو کہ واضح نہیں ہے) جمع کرے گا اور ان کی معلومات دوسری کمپنیوں کو شیئر کرے گا۔ اس طرح کی معلومات واٹس ایپ پہلے جمع نہیں کرتا تھا اور نہ ہی شیئر کرتا تھا۔ فیس بک کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ریٹنشن (برقراری) کی جو ڈیٹا پالیسی ہے وہ اب واٹس ایپ کے ڈیٹا پر بھی لاگو ہوگی۔ تیسری بات یہ ہے کہ فیس بک اور واٹس ایپ کو یہ اختیارحاصل ہوگا کہ وہ آپ کی ترسیل کردہ تصویر یا ویڈیو یا دستاویز کو پھر سے شائع کرے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں ڈیٹا محفوظ کیا جائے گا۔ ہماری یہ بھی ایک خام خیالی ہوگی کہ واٹس ایپ اِنڈ ٹو اِنڈ انکریپٹیڈ (محفوظ) ہے۔ ہمیں اس خام خیالی سے باہر نکلنا ہوگا جس طرح فیس بک اپنے ڈیٹا کے ساتھ کرتا ہے اسی طرح اب واٹس ایپ کے ڈیٹا کے ساتھ بھی ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب آپ کوئی بھی مفت ایپ ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں تو وہ آپ سے آپ کے رابط تک رسائی کی، آپ کے ویڈیوز تک رسائی کی، آپ کے تصاویر تک رسائی کی اور آپ کے دستاویزات تک رسائی کی اجازت مانگتا ہے تب ہی آپ کو ایپ استعمال کرنے کی اجازات دیتا ہے جب کہ ہم ان اجازت ناموں کے بعد ہی ایپ استعمال کر پاتے ہیں پھر اگر وہی چیز واٹس ایپ کر رہا ہو تو اتنی پریشانی کیوں ہے؟ اکثر ایپس ہماری معلومات کو یعنی ہمارے ڈیٹا کو فروخت کرتی ہیں۔ یہی ان کی کمائی کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ اس کے بالمقابل خریدے ہوئے ایپ میں صارف کو اختیار ہوتا ہے۔ جو کوئی فیس بک استعمال کرتا ہے اس کو اندازہ ہوگا کہ وہ اس کی ترجیحات کے مطابق اشتہارات دیتا ہے ان ہی اشتہارات سے فیس بک کو کمائی ہوتی ہے۔ چوں کہ واٹس ایپ بھی اب فیس بک کی ملکیت ہو چکا ہے تو وہ اس کوشش میں ہے کہ اس ایپ کے صارفین تک اشتہارات کیسے پہنچائے اسی چیز کو پیش نظر رکھ کر اس نے رازداری کی پالیسی میں رد وبدل کیے ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ واٹس ایپ استعمال کرتے وقت ہمیں کسی قسم کا اشتہار دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑتی اس پالیسی میں ردو بدل کے بعد یہ ہوگا کہ آپ کو اشتہارات کی بھرمار کا سامنا کرنا پڑے۔ اس درمیان حکومت کی طرف سے بھی کوئی وضاحت سامنے
نہیں آئی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق واٹس ایپ نے اپنی شرائط تبدیل کرنے کے عمل کو ماہ مئی تک ملتوی کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ شدید عوامی رد عمل کا اثر ہے۔
***

جب واٹس ایپ پر صارفین کو یہ پیغام موصول ہوا کہ وہ وہ اپنے رازدای کے اصول و ضوابط میں تبدیلی کررہا ہے تو انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک طوفان برپا ہوگیا جس کے بعد لوگ اسے چھوڑ کر دوسرے میسنجر ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے لگے۔ تقریباً 1.2 ملین لوگوں نے ’’سگنل‘‘ نامی مسینجر ایپ ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ اسی عرصے میں واٹس ایپ نے اپنے ہفتہ وار ڈاؤن لوڈ میں گیارہ فیصد کی کمی درج کی۔ ایک اور میسنجر ایپ ٹیلیگرام کو یکم جنوری سے دس جنوری تک 1.7 ملین افراد نے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021