’دی کشمیر فائلز‘ ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی منظم کوشش!

نازی دور کے ہتھکنڈوں کا اعادہ۔ مسلمانوں کے خلاف فلم بینوں کے منفی تبصرے

معین دین ، حیدرآباد

’دی کشمیر فائلز‘ نامی فلم ان دنوں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ اس فلم میں ایسا کیا ہے جس نے اس پر تنازعہ کھڑا کر رکھا ہے۔
یہ فلم جنوری 1990ء کے اس واقعہ پر مبنی ہے جب وادی کشمیر میں عسکریت پسندی کی ابتدا ہوئی تھی اور اس دوران سیکڑوں کی تعداد میں کشمیر کے ہندو پنڈتوں (واضح رہے کہ کشمیر میں مسلم پنڈت بھی ہوتے ہیں) کو وادی چھوڑنا پڑا تھا۔ اس وقت بی جے پی کی حمایت یافتہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی حکومت مرکز میں برسر اقتدار تھی اور بی جے پی کے سینئر لیڈر جگموہن جموں وکشمیر کے گورنر کے عہدے پر فائز تھے۔
فلم کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے جب دہلی کے جواہر لال یونیورسٹی کا ایک طالب علم کرشنا پنڈت (اداکار درشن کمار) اپنے آنجہانی دادا (انوپم کھیر) کی استھیاں لیکر کشمیر جاتا ہے تاکہ وہ اسے اپنے دادا کے آبائی وطن میں دریا میں بہا سکے۔ اسے دادا نے بتایا تھا کہ اسکے والدین کی ایک حادثے میں موت ہو گئی تھی لیکن جب وہ کشمیر پہنچتا ہے اور وہاں اپنے لواحقین کے دوستوں سے ملاقات کرتا ہے تو اسے اصل حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس کے والدین کی موت کسی ایکسیڈینٹ کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی بلکہ انہیں کشمیر کے علیحدگی پسندوں نے قتل کیا تھا۔ اسے وہ تمام واقعات سنائے جاتے ہیں کہ کس طرح مسجدوں سے پنڈتوں کے قتل عام کے لیے صدائیں بلند کی گئی تھیں اور متعدد افراد کو قتل کیا گیا جسکی وجہ سے انہیں کشمیر میں اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔ فلم کے مطابق ایک بھی مسلمان ان کو بچانے نہیں آیا۔ پنڈتوں کا قتل عام ہوتا رہا اور علیحدگی پسندوں نے ظلم وستم کا بازار گرم کیے رکھا۔ ان مناظر کو انتہائی جذباتی انداز میں پیش کیا گیا تاکہ ناظرین کے جذبات کو برانگیختہ جا سکے، ناظرین نہ صرف آبدیدہ ہوں بلکہ ان کے اندر اس مخصوص طبقے کے خلاف نفرت کی آگ سلگ اٹھے۔
فلم دیکھنے کے بعد سنیما ہال سے نکلنے افراد کے ردعمل کو ہی لیجیے، حقیقیت واضح ہو جائے گی۔ انہیں یہ کہتے سنا گیا ہے ’’مسلمان آپکا کتنا ہی بڑا اور گہرا دوست کیوں نہ ہو لیکن وقت پڑنے پر وہ صرف اپنے مذہب کو ہی ترجیح دے گا‘‘ کوئی یہ کہتا ہو پایا گیا، ’’ہندوؤں کا ایک ہونا ضروری ہے ورنہ یہ (گالی کے الفاظ) ہمیں ہی کاٹ ڈالیں گے‘‘ یہاں تک خواتین کی زبان سے بھی اس ایک مخصوص طبقے کے لیے اہانت آمیز الفاظ استعمال کیے گئے۔ یہ تمام قسم کے ردعمل یوٹیوب اور متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر بھی موجود ہیں۔
ناقدین نے فلم کے اسی پہلو پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فلم میں صرف ایک رخ کو یعنی پنڈتوں پر مظالم کو ہی دکھایا گیا ہے لیکن دوسرے فریق پر ہونے والے ظلم کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ انہیں صرف ویلن کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جب متعدد متاثرین اس فلم میں پیش کیے گئے مناظر کو حقائق کے برخلاف قرار دے چکے ہیں تو پھر اس فلم کو کیوں دکھایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ جموں کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج نے بھارتی فضائیہ کے افسر اسکواڈرن لیڈر روی کھنہ کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کے مناظر دکھانے پر روک لگا دی ہے۔ اسکواڈرن لیڈر روی کھنہ 25 جنوری 1990 کو عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے تھے۔ انکی بیوہ نرمل کھنہ نے عدالت کو بتایا کہ انکی لاش کے ساتھ بے حرمتی کے واقعات فرضی ہیں۔ ان کے شوہر کو گولی ضرور ماری گئی تھی لیکن لاش کے ساتھ بے حرمتی کی بات جھوٹ ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بی جے پی کی اسپانسرڈ فلم ہے جس کا مقصد ملک گیر سطح پر اکثریتی طبقے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بھڑکائے رکھنا ہے جس سے کہ بی جے پی لوگوں کی توجہ معاشی بدحالی، بے تحاشہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل سے ہٹائی جا سکے اور اسکا ووٹ بینک نہ صرف مستحکم رہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا رہے۔
یہی وجہ ہے کہ سماجی ماہرین اس فلم کو صرف ایک فلم کی طرح نہیں دیکھ رہے بلکہ اس میں انہیں نازی دور کے جرمنی کی جھلک دکھائی دے رہی ہے جب یہودیوں کے قتل عام کے لیے اسی طرح کی فلمیں بنا کر اکثریتی طبقے کے جذبات بھڑکائے گئے تھے۔
سماجی ماہرین کو اس فلم میں رومن پولانسکی کی ’’دی پیانسٹ‘‘ فلم کی جھلک دکھائی دے رہی ہیں جس میں دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں پر ہونے والے مظالم کی روداد پیش کی گئی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کو فرانسیسی فلم ’لا ہین‘ یعنی نفرت کے اس ڈائیلاگ کی یاد آگئی ہے جسمیں کہا گیا ہے کہ ’’نفرت سے نفرت ہی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ ماہرین سماجیات کو ’’ٹیرینٹینو‘‘ اور ’’گیسپر نوئے‘‘ فلموں کی بھی یاد آرہی ہے جس میں ظلم وبربریت کو حقیقی رنگ دینے کے لیے انتہائی جذباتی مناظر بے باکی کے ساتھ فلمائے گئے تھے۔
سماجی ماہرین کو افریقہ کے روانڈا اور برونڈی قتل عام کی یاد تازہ ہو گئی ہے جہاں نسلی تصادم نے ظلم وبربریت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔
سماجی ماہرین کو تشویش ہے کہ ایک ہی رخ پر بنائی گئی فلم ’’دی کشمیر فائلز‘‘ کہیں پرانے زخموں کو پھر تازہ نہ کردے اور ملک میں ایک مخصوص طبقے کی نسل کشی صرف ایک چنگاری سے کہیں شعلے میں نہ تبدیل ہو جائے۔
یہ فلم ایک ایسے وقت ریلیز ہوئی ہے جب بی جے پی نے اتر پردیش، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا کے اقتدار پر ایک مرتبہ پھر قبضہ جمایا ہے۔ تو کیا بی جے پی قیادت اسی پر اکتفا کر لے گی؟ بالکل نہیں۔ جو سیاسی جماعتیں نفرت کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں وہ اس نفرت کے پودے کی سیرابی کے لیے ہر طرح کے جتن کرتی ہیں۔ اسکا اندازاہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلمساز وویک اگنی ہوتری نے اس فلم کے اداکار انوپم کھیر، اپنی پتنی اور اس فلم کی ایک اداکارہ پلوی جوشی کے ساتھ وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی تو مودی نے نہ صرف فلم کی ستائش کی بلکہ یہاں تک کہا کہ اس طرح کی فلمیں بنتی رہنی چاہئیں۔
بی جے پی کی زیر اقتدار متعدد ریاستوں نے فلم کی نمائش کو ٹیکس فری کردیا ہے۔ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش حکومتوں نے تو باقاعدہ پولیس اہلکاروں کو فلم دیکھنے کے لیے چھٹی دینے تک کا اعلان تک کل کر ڈالا ہے۔ یعنی پولیس اہلکار جب اس فلم کو دیکھیں گے تو مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ کیسا ہوگا، اسکا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ ہجومی تشدد کے واقعات اب کوئی نئی بات نہیں رہ گئے ہیں۔ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ کہیں یہ فلم ہجومی تشدد کو مزید ہوا دینے کا کام نہ کرے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  27 تا 02 اپریل  2022