ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، حیدرآباد
ہندوستان کی آزادی میں نا قابلِ فراموش رول ادا کرنے والے دینی مدارس اب حکومت کی نظروں میں کھٹکنے لگے ہیں۔ ملکِ عزیز میں دینی مدارس کے تعلق سے جو معاندانہ سلوک اس وقت روا رکھا جا رہا ہے وہ حکومت کے متعصبانہ رویہ کا کھلا ثبوت ہے۔ حالیہ دنوں میں ۲۰۲۰ کے ختم ہونے سے ایک دن پہلے ۳۰؍ دسمبر کو آسام کی بی جے پی حکومت نے سرکاری امداد سے چلائے جانے والے تمام دینی مدارس کو بند کر دینے کا فیصلہ کر دیا۔ اس ضمن میں ریاستی قانون ساز اسمبلی میں ایک قانون بھی منظور کرلیا گیا۔ اپنے اس اقدام کی مدافعت کرتے ہوئے حکومت نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں دینی تعلیم کے لیے حکومت کوئی مالی امداد فراہم نہیں کر سکتی۔ گزشتہ سال ۱۳؍ دسمبر کو آسام کی کابینہ نے دینی مدارس اور سنسکرت کے اسکولوں کو بند کرنے کی تجویز منظور کی تھی اور کہا تھا کہ ریاستی حکومت کی تعلیمی پالیسی کو سیکولر بنانے کے لئے یہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دینی مدارس کے ساتھ سنسکرت کے اسکولوں کو بھی بند کرنے کی کابینہ نے مظوری دی تھی لیکن آسام اسمبلی میں ۳۰؍ ڈسمبر ۲۰۲۰ کو جو قانون منظور ہوا اس میں سنسکرت اسکولوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آسام کی حکومت ریاست میں صرف دینی مدارس کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ مدارس ہیں جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ مدارس آسام مدرسہ ایجوکشن ایکٹ ۱۹۹۵ اور آسام مدرسہ ایجوکشن انسٹیٹیوشن ایکٹ ۲۰۱۸ کے تحت قائم کئے گئے تھے۔ نئے بِل کے ذریعہ ان دونوں قوانین کو منسوخ کر دیا گیا۔ اس سے ان مدرسوں میں پڑھنے والے ۵۰ ہزار ۶۰۰ طلباء کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔یہ طلباء ان مدارس میں عربی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دینی مدارس کو آئندہ یکم؍ اپریل سے سرکاری عصری مدارس میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ آسام کے وزیر تعلیم ہمینتا بسوا سرما کا ادعّا ہے کہ ان کی حکومت ریاست کے ۶۱۰ دینی مدارس پر سالانہ ۲۶۰ کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے اور مجوزہ قانون کو لاگو کرنے کا مقصد دینی مدارس کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ ان مدارس کو عصری اداروں میں تبدیل کرنا حکومت کا منشا ہے، اس لیے اپوزیشن کا یہ الزام سراسر غلط ہے کہ حکومت مسلمانوں کی مخالفت میں کام کر رہی ہے۔ حکومت کے ان دعوؤں میں اگر ذرہ برابر بھی صداقت ہوتی تو ملک میں یہ پراگندہ ماحول دیکھنے کو نہ ملتا۔ملک کے موجودہ حالات اور اس کے مستقبل کے نقشہ پر جن کی دور رس نگاہیں مرکوز ہیں وہ جانتے ہیں کہ آسام کی بی جے پی حکومت نے جن خفیہ عزائم کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ریاست کے دینی مدارس پر شب خون مارنے کی منصوبہ بندی کی ہے یہ دراصل سنگھ پریوار کی طویل مدتی پالیسی کی ایک کڑی ہے۔ اس لیے ملت کو اور مدارس کے ذمہ داروں کو مستقبل کے خطروں کا ادراک کرنا ضروری ہے ورنہ دو سو سال سے قائم دینی مدارس کا وجود ایک قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔ ملک و ملت کی تعمیر میں مدارسِ اسلامیہ کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ لیکن گزشتہ کم از کم دو دہائیوں سے فسطائی طاقتوں کی آنکھوں میں ان کا وجود خار بن کر کھٹک رہا ہے۔ خاص طور پر جب سے ملک میں فرقہ پرستی کو جڑ پکڑنے کا موقع ملا، دینی مدارس کے خلاف مذموم پروپگنڈہ میں نا قابلِ یقین حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ فرقہ پرستوں کی سُر میں سُر ملا کر قومی میڈیا بھی دین کے ان قلعوں کو بدنام کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا رہا۔ اب ایک نئے انداز سے دینی مدارس کو ختم کرنے کی سازش رچائی جا رہی ہے۔
۲۰۲۰ کے ختم ہوتے ہوتے آسام کی بی جے پی حکومت نے دینی مدارس کو برخواست کرنے کے لیے جس نئے قانون کو نافذ کرنے کی تیاری کرلی ہے، یہ طوفان اب آسام تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ جہاں جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں اس نوعیت کا قانون لایا جائے گا۔ اتر پردیش کی حکومت نے بھی نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی سرکاری امداد والے دینی مدارس کو ختم کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ یو پی میں ایسے دینی مدارس کی تعداد ۵۶۰ ہے۔ امداد یافتہ دینی مدارس کے علاوہ یو پی مدرسہ بورڈ بھی وہاں قائم ہے۔ ان مدارس کی کُل تعداد ۱۹۲۱۳ ہے۔ آسام حکومت کے فیصلہ سے اتر پردیش کے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء سخت تشویش کا شکار ہو گئے ہیں۔ یو پی کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ سے خیر کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔ آسام کی مثال ان کے لئے آسانی پیدا کر دے گی۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ سب کچھ وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا ایسی خام خیالی ثابت ہو گی جس پر بعد میں کفِ افسوس مَلنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ بی جے پی کی زیرِ اقتدار ۱۶ ریاستوں میں کسی بھی عنوان سے دینی مدارس کو ختم کیا جاتا ہے تو پھر ۲۰۲۳ کے عام انتخابات کے بعد اگر یہ پارٹی تیسری مرتبہ راج سنگھاسن پر قبضہ کرتی ہے تو شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک ملک کے طول و عرض میں جتنے دینی مدارس ہیں ان پر تالے لگانے میں فرقہ پرست طاقتیں دیر نہیں کریں گی۔ اس وقت مدرسوں کے ذ مہ دار چاہے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلیں یا سنگھ پریوار سے راہ و رسم بڑھا لیں ان کے مدارس کی بقاء ممکن نہیں ہے۔ ہندو احیاء پسند تنظیموں کو یہ بات ہرگز پسند نہیں کہ یہاں ایسی تعلیم گاہیں موجود رہیں جو اسلامی ثقافت اور روایات کی ترجمانی کرتی ہوں۔ دینی درس گاہوں کی وجہ سے ہی ہندوستان کا مسلمان دین پر چل رہا ہے اور وہ کسی مشرکانہ عقیدہ کو ہرگز قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ ہندوتوا طاقتیں اس ملک کو اپنے رنگ میں رنگ دینا چاہتی ہیں اور وہ محسوس کرتی ہیں ان کا مشن ملک میں دینی مدارس اور دینی جماعتوں کے ہوتے ہوئے پورا نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لئے دینی مدارس کو کسی نہ کسی عنوان سے گھیرنا فسطائی قوتوں کا ایجنڈا ہے۔ آسام میں دینی مدارس کو ختم کرنے کا جو قانون لایا گیا اس کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ اچانک یا بغیر منصوبہ بندی کے نہیں ہو رہا ہے۔ جب کبھی بی جے پی کے ہاتھوں میں اقتدار آیا اس معاملے میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔
اٹل بہاری واجپائی جس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے، انہوں نے چار مرکزی وزرا پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی کو یہ ذ مہ داری دی گئی تھی کہ وہ قومی سلامتی کو درپیش خطرات کا جائزہ لے۔ اس کمیٹی نے فروری ۲۰۰۱ میں اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی تھی۔ اس رپورٹ میں دینی مدارس کے تعلق سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ پورے ملک میں بہت سے نئے مدارس قائم ہوئے ہیں اور خاص طور پر مغربی ہند کے ساحلی علاقوں میں اور مغربی بنگال اور شمال مشرق کے سرحدی علاقوں میں جو مدارس قائم ہوئے ہیں یہاں سے اسلامی اتحاد کے جنگجو ابھر رہے ہیں اس لئے ان مدارس پر حکومت خاص نظر رکھے۔ ۲۰ سال پہلے حکومتی سطح پر دینی مدارس کے تعلق سے یہ نظریہ قائم کرلیا گیا۔ اس کے بعد سے ہی دینی مدارس کے تعلق سے بے بنیاد پروپگنڈا شروع کر دیا گیا۔ حکومت کی جانب سے سختیاں اور پابندیاں بھی بڑھ گئیں۔ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے دینی مدارس کی تلاشیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہاں پڑھنے والے طلباء اور وہاں پڑھانے والے اساتذہ پر بیجا مقدمات دائر کرکے ان مدارس کو دہشت گردوں کی پناہ گاہیں کہہ کر بد نام کیا گیا۔ یہ سلسلہ نہ صرف اب بھی جاری ہے بلکہ اس میں اور تیزی آ گئی ہے۔
ملک میں موجود دینی مدارس کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے حکومت مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو گمراہ بھی کرتی ہے۔ بعض مدارس کے ذ مہ دار حکومت کے فریب کے جال میں پھنس بھی جاتے ہیں۔ ایک نعرہ یہ دیا جاتا ہے کہ حکومت دینی مدارس کو ختم نہیں کر رہی ہے بلکہ ان مدارس کو ماڈرنائز کیا جا رہا ہے تاکہ دینی مدارس کے فارغین بھی زمانہ کے ساتھ چل سکیں۔ یہ وہ خوبصورت تاویل ہے جس کو بنیاد بنا کر دینی مدارس بورڈ یا دینی مدرسہ بورڈ وغیرہ قائم کیا جاتا ہے۔ ان مدارس میں قرآن، حدیث اور فقہ کے علاوہ سائنس، میاتھس اور سماجی علوم جیسے عصری مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ حکومت ان مدارس کی مالی امداد بھی کرتی ہے جس کو حکومت کی ایڈ یا گرانٹ کہا جاتا ہے۔ بہت سارے مدارس سرکاری امداد کی لالچ میں اپنے مدرسوں کو حکومت سے رجسٹر کرالیتے ہیں۔ یہیں سے دراصل ان مدارس کی شناخت اور اس کا تشخص خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ جدید کاری کے نام پر یہ سب کھیل کھیلا گیا۔ اور اب حکومت چونکہ امداد دیتی ہے اس لیے وہ ان مدارس کو اپنی مرضی سے چلانے کا اختیار بھی اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتی ہے۔ آسام حکومت جو بِل لے کر آئی ہے اس میں بھی یہی دعویٰ کیا جا رہا ہے حکومت دینی مدارس کو بند نہیں کر رہی ہے بلکہ ان اداروں کو عصری اداروں میں تبدیل کر رہی ہے۔ حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے اس تبدیلی سے ان مدارس میں بر سرِ خدمت اساتذہ اور دیگر عملہ کی تنخواہوں اور الاؤنسس میں کوئی فرق نہیں آ ئے گا۔ اس قسم کا اطمینان دلانے کے بعد رائے عامہ حکومت کے اقدامات کی تائید کرے گی۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سارے دینی مدارس کے اساتذہ بھی آسام کے اس نئے قانون کا خیر مقدم کریں۔ ہر شخص اس قانون کی باریکیوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ قانون فی الحقیقت دینی مدارس کی روح کو ختم کر دینے والا ہے۔ جب روح ہی ختم ہو جائے گی تو رسمی دینی تعلیم سے کیا کسی صالح انقلاب کی امید کی جا سکتی ہے؟ سنگھ پریوار کا مطمحِ نظر یہی ہے کہ ہندوستان میں مسلمان برائے نام مسلمان بن کر رہیں۔ دینی مدارس کو اپنے زیرِ اثر لے کر حکومت اس میں من مانی ردّ و بدل کرے گی اور مدارس کے ذمہ داروں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ حکومت کے منظورہ نصاب کے مطابق ہی طلبا کو تعلیم دیں۔ دینی مدارس کی جدید کاری اور حکومتی امداد کے نام پر یہ سب کیا جا رہا ہے۔ ۲۰۱۰ میں بنائے گئے قانونِ حقِ تعلیم کے ذریعہ بھی دینی مدارس کو بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت کہا گیا کہ
جو بھی مدرسہ یا اسکول حکومت سے الحاق نہیں کرائے گا وہ غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔ الحاق کے لئے بڑی کڑی شرطیں رکھی گئیں تھیں۔ دینی مدارس حکومت کی شرطوں کو پورا کرنے کے متحمل نہیں تھے۔ اس پر کافی ہنگامہ ہوا اور بڑی کوششوں کے بعد اس قانون سے دینی مدارس کو مستثنی قرار دیا گیا۔ لیکن اب کسی قانون سے استثنیٰ کا امکان نہیں ہے۔ ایسے میں مدارس کے ذمہ داروں کو حکومت سے مالی امداد لیتے ہوئے سارے خطروں کو اپنے سامنے رکھنا ہوگا۔ ہندوستان کے دینی مدارس مسلمانوں کے عطیات سے چلتے رہے ہیں۔ ان کے اسلاف نے حکومتوں سے کوئی امید نہیں لگائی تھی۔ اب بھی اسی طریقہ پر مدرسوں کو چلانے کی ضرورت ہے۔ اس گئی گزری حالت میں بھی مسلمان اپنے دینی مدارس کو چلانے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ دینی مدارس کے تعلق سے حکومت کے رویہ کو نئی قومی تعلیمی پالیسی کے پسِ منظر میں دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ ایک مخصوص مذہب، تہذیب اور زبان کو فروغ دینے کی پلاننگ حکومت کر چکی ہے۔ اس لیے اس قسم کے جارحانہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ مدارس کے تئیں حکومت کے ان عزائم کے سدّباب کے لئے ملت اسلامیہ کو پوری سنجیدگی کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے دینی مدارس کی بقا وتحفظ اور ترقی کے لئے متحدہ اور نتیجہ خیز لائحہ عمل ترتیب دے کر اسے عملی جامہ پہنانا ہوگا۔
مدارس کے تئیں حکومت کے ان عزائم کے سدّباب کے لئے ملت اسلامیہ کو پوری سنجیدگی کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے دینی مدارس کی بقا وتحفظ اور ترقی کے لئے متحدہ اور نتیجہ خیز لائحہ عمل ترتیب دے کر اسے عملی جامہ پہنانا ہوگا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021