دہلی فساد : ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
گاندھی جی کے زمانے میں صحافیوں کی غالباً تین اقسام ہوا کرتی تھیں جن کو انہوں نے اپنے بندروں سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن مودی یگ کے اندر ان میں ایک اور قسم کا اضافہ ہوگیا۔ ان کو گوگل صحافی کہہ سکتے ہیں۔ پردھان سیوک کا سوشیل میڈیا سے کنارہ کشی کا ارادہ ان لوگوں پر بجلی بن کر گرا۔ اس سے پہلے کہ ان میں سے کچھ صدمے کا شکار ہوکر آتم دہن (خودکشی) کر لیتے وزیر اعظم نے پینترا بدل کر اپنے سوشیل میڈیا کے کھاتے یومِ خواتین کے پیش نظر صنفِ نازک کے لیے وقف کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کو پڑھ کر کوئی اور خاتون نہ سہی کم ازکم جسودھا بین ضرور خوش ہوئی ہوں گی۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ اب تو شوہرِ نامدار کی نظرِ کرم ان پر ہو ہی جائے گی۔ بہت جلد وہ ہولی کے موقع پر جب اپنےگاوں میں والدہ سے ملنے کے لیے ٹیلی ویژن والوں کے ساتھ آئیں گے تو ان پر بھی گلال اڑائیں گے اور اس بہانے کیمرے کی نظرِ التفات ان پر بھی پڑ جائے گی اور ساری دنیا ان کے دور درشن کرلے گی۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پردھان سیوک نے اس سال ہولی منانے کا ارادہ ہی ترک کر دیا۔ بیباک صحافی خالد داروگر کے مطابق دہلی میں خاک و خون کی ہولی کھیلنے کے بعد بھلا عبیر و گلال کی ہولی میں کیا مزہ باقی رہ جائے گا؟ فساد کے بعد اپنی جماعت کے ارکانِ پارلیمان کو مخاطب کر کے جب وزیر اعظم مودی نے امن، ترقی و رواداری کا پروچن دیا تو بے ساختہ زبان پر یہ شعر آگیا؎
بھاشن فساد کے کبھی تقریر امن کی
جادوگروں کو یاد ہے منتر الگ الگ
عِصرِ حاضر میں صحافیوں کی پہلی قسم اندھے بھکتوں پر مشتمل ہے۔ ان کی آنکھوں پر پٹی اور جیب میں نوٹوں کی گڈی ہوا کرتی ہے۔ دیکھنے کا کام وہ خود نہیں بلکہ ان کا کیمرا کرتا ہے۔ وہ کیمرے کی فلم چلا کر اپنے آقا سے سنے ہوئے احکامات زبانِ تر سے من و عن ادا کردیتے ہیں۔ حقیقت بیانی کی انہیں چنداں فکر نہیں ہوتی۔ ان کا آقا کمل چھاپ بھی ہوسکتا ہے اور پنجے والا بھی۔ اس کے ہاتھ میں جھاڑو یا پتنگ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ دوسری قسم ان کی ہے جو کیمرا سمیت عوام میں جاتے ہیں۔ لوگوں نے جو کچھ بھی جھوٹ یا سچ بیان کر دیا اس کو سن لیتے ہیں۔ انہیں کسی بیان کی تفتیش و تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ زبان بندی کے سبب بغیر کچھ پوچھے جو کچھ سنا اور دیکھا اسے پیش کردیتے ہیں۔ تیسری قسم ان بیدار مغز اور فرض شناس صحافیوں پر مشتمل ہوتی ہے جو سنی سنائی باتوں پر آنکھ موند کر یقین نہیں کرتے ہیں۔ وہ دیکھتے بھی ہیں، سوال بھی پوچھتے ہیں اور اس کے بعد دماغ کا استعمال کرکے اپنے مشاہدات پر غور و خوض کرتے ہیں۔ افہام تفہیم کے بعد ٹھونک بجا کر صحیح خبریں دیتے ہیں۔ چوتھے اور آخری زمرے کے صحافی نہ تو دیکھتے ہیں اور نہ ہی بولتے یا سنتے ہیں۔ ان کا کام انٹر نیٹ سے مواد چرانا اور دھماکے دار انداز میں پیش کر دینا ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کل سوشیل میڈیا پر یہی سنسنی پھیلانے والی فوج چھائی ہوئی ہے۔ دہلی کے فسادات پر سارے لوگ اپنے اپنے زاویہ سے نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے والے اندھے صحافی کو جلے ہوئے گھر نظر آتے ہیں۔ اس کے کیمرے میں لٹی ہوئی دوکانوں کی فلم ہوتی ہے۔ اس کو بیوہ خواتین نظر آتی ہیں یتیم بچے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا آقا انہیں جانی نقصان کے اعداد وشمار بتا دیتا ہے اور وہ مالی خسارے کی قیاس آرائی کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ دہلی کے حالیہ فسادات کی نہایت بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 51 ہوچکی ہے نیز اب بھی نالوں سے لاشیں ملنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔ مریضوں کی ایک کثیر تعداد ہنوز مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہے۔ تباہ شدہ مکان و دوکان کا شمار دشوار ہے۔ یہ سب دیکھ کر آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں۔
اس قسم کے لوگوں کو کبھی کبھار پتھروں کے ڈھیر پر تشویش ہوتی ہے۔ انہیں اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ گھر اور دوکانیں جلانے والے بلوائیوں کو سڑکوں پر رکاوٹ بناکر کیوں روکا گیا؟ بعض اس بات پر اعتراض وماتم کرتے ہیں کہ ننگی تلواریں لے کر قتل کرنے کے لیے آنے والے فسادیوں پر نہتے شہریوں نے پتھر بازی کیوں کی؟ یہ چاہتے ہیں کہ باہر سے آکر فساد کرنے والوں کا استقبال پھولوں کی بارش کر کے کیا جائے۔ بلوائیوں سے ان کی ہمدردی پر لیلیٰ مجنوں کا وہ نغمہ صادق آتا ہے کہ ’کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو‘ جبکہ ان کا اپنا یہ حال ہے کہ وہ خود آئے دن اپنے اسٹوڈیو میں آنے والے مہمانوں کو الفاظ سے سنگسار کرتے رہتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں جب کوئی صحافی آگے بڑھ کر فساد زدگان سے یہ سنتا ہے کہ کس طرح تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ایک منظم جم غفیر نے اپنے بچاؤ کے لیے کھڑے ہونے والوں پر حملہ کیا اور پولس نے نہ صرف بلوائیوں کی اس بھیڑ کو تحفظ فراہم کیا بلکہ ان کے شانہ بشانہ اور بڑھ چڑھ کر فساد میں حصہ لیا تو ناظرین چونک پڑتے ہیں۔ اس تناظر میں اچانک ان کو یہ نقصان کم لگنے لگتا ہے۔ ایسے بھیانک فساد کے اس قدر کم عرصے میں رک جانے پر سبھی کو تعجب ہوتا ہے لیکن چونکہ اس طرح کے صحافی کی زبان اور دماغ پر قفل لگا ہوا ہوتا ہے اس لیے وہ کسی سے کچھ پوچھنے یا سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔ کیمرے کی آنکھ نے جو قید کیا وہی پیش کردیتا ہے۔ ایسے بے ضرر لوگوں کے لیے بھی تو خطرہ ہوتا ہے کہ ؎
میں جھوٹ کی بستی میں بھی سچ بول رہا ہوں
اب میرے لیے اس کی سزا دیکھیے کیا ہو؟
تیسری قسم کا صحافی جب فسادات کے اتنے جلدی رک جانے کی وجوہات تلاش کرنے کی خاطر لوگوں سے طرح طرح کے سوال کرتا ہے تو اس کے سامنے حیرت کی ایک نئی دنیا آجاتی ہے۔ اس کو پتہ چلتا ہے جس وقت پولیس کی آڑ میں یہ بزدلانہ حملہ ہوا تو کچھ جانباز نوجوان گھروں میں دبک کر بیٹھنے کے بجائے جان ہتھیلی پر رکھ کر بلوائیوں کو روکنے کے لیے میدان میں آگئے۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے یہ کہہ کر اجازت لی کہ یہ ہمارا آخری سلام ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ہم لوٹ کر نہ آئیں۔ ان کی دلیر ماوں نے انہیں دعا دی کہا بیٹو جاو اور مقابلہ کرو۔ تمہاری مزاحمت واپس آنے سے زیادہ اہم ہے۔ جس امت کے اندر ایسے بہادر نوجوان اور بلند حوصلہ خواتین ہوں وہ بھلا کب زیر ہوسکتی ہیں۔ ان پر تو عاصم عثمانی کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
وہ مٹاتے ہی رہے حرف مکرر کی طرح میں ابھرتا ہی رہا آخر ابھرنا تھا مجھے
مصطفیٰ آباد کے ایک محلے سے محض تیس چالیس لوگوں نے فسادیوں کی ایک بہت بڑی بھیڑ کے حملے کا مقابلہ کیا۔ ان میں سے جب دس بارہ لوٹ آئے تو خواتین نے انہیں چوڑیاں دے کر عار دلائی۔ وہ اس رسوائی کو برداشت نہیں کر سکے اور پھر مورچوں کی جانب لوٹ گئے۔ نوجوانوں نے کالونیوں کے داخلے کے مختلف راستوں پر گھر اور اسکول کے گیٹ توڑ کر رکاوٹ بنائی تاکہ فسادیوں کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔ بلوائیوں نے انہیں پھاند کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو کالونی کے لوگوں نے اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے پہلے پتھروں سے اور پھر دوبدو مقابلہ کیا۔ برہم پوری پل کے قریب مدرسے پر حملہ ہوا تو بچوں کو وہاں سے بحفاظت نکال لیا گیا۔
شاہین باغ کی طرز پر فاروقیہ مسجد کے سامنے مظاہرہ کرنے والی تقریباً چالیس مقامی خواتین کو ایک نوجوان اپنی جان پر کھیل کر محفوظ مقام پر لے گیا مگر واپسی میں اس کو پانچ گولیاں لگیں اور وہ شہید ہوگیا۔ حالات جب معمول پر آئے تو وہ خواتین اپنے گھروں کو لوٹیں۔ ان لوگوں نے سب سے پہلے اس بہادر نوجوان کا حال دریافت کیا جس نے ان کی جان بچائی تھی اور جب پتہ چلا کہ و ہ چل بسا تو سب نے اس کے گھر پر جا کر اس کے والدین سے تعزیت کی۔ اپنی عقیدت اور احسان مندی کا اظہار کیا۔ اگر اس طرح کی مزاحمت نہیں ہوتی تو کون جانے یہ درندے کتنا جانی و مالی نقصان کرتے۔ سوشیل میڈیا پر منیشا پانڈے کے نام سے بھی ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے جس کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔ اس نے رخسانہ نامی ایک بیوہ کی داستانِ عزیمت لکھی ہے جو ۳ بیٹیوں کے ساتھ وہاں رہتی ہے جو کیرالا میں ملازمت کرتے ہیں۔ فساد کی آہٹ سن کر ریحانہ نے بجلی کے تار پر لگے پلاسٹک کو چِھل کر اس کے ذریعہ دروازے پر کرنٹ دوڑا دیا۔ بلوائیوں نے دروازے پر لوہے کی سلاخ ماری تو خود ہی بجلی کے جھٹکے سے ڈھیر ہوگئے اور دیر تک کراہتے رہے لیکن دوبارہ دروازے سے قریب آنے جرأت نہیں کی۔ اس کو کہتے ہیں’ اپنا تحفظ آپ‘ اس طرح کی حالت پر حفیظ میرٹھی نے کہا تھا ؎
وار کو ان کے کبھی خاطر میں میں لایا نہیں
کتنے دشمن میں نے اس تدبیر سے پسپا کیے
ایک محلے میں جب ایک قلیل تعداد فسادیوں میں گھر گئی تو انہوں نے فاطمہ مسجد کے اندر پناہ لے لی۔ دیگر مقامات پر جہاں ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کو بچایا اس کے برعکس اس علاقہ کے اوباش لوگ بھی فسادیوں سے جا ملے۔ پولیس کو مدد کے لیے فون کیا تو سامنے سے کوئی جواب نہیں ملا یہاں تک کہ ان کو اپنی موت دکھائی دیکھنے لگی۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ مسجد کی نچلی منزل میں آگ لگائی جا رہی تھی اور وہ اوپری منزل پر اپنی موت کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک پولیس کا ایک دستہ آیا اور ان سب کو بحفاظت چندو پور بچا لے گیا۔ یہ معجزہ اس طرح رونما ہوا کہ کھجوری خاص سے قریب چندو پور نام کی ایک بستی ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ان لوگوں کو کھجوری کے مصیبت زدگان کا پتہ چلا تو انہوں نے بھی انتظامیہ سے فون پر مدد طلب کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے محلے کے غیر مسلم افراد کو جمع کرکے ان کے ذریعہ انتظامیہ سے رابطہ کیا اور پولیس کو ہوش آگیا اور وہ حرکت میں آگئی۔ اس نے فوراً فاطمہ مسجد میں پھنسے لوگوں کو وہاں سے نکال کر چندو پور پہنچانے کا یقین دلایا۔ اس طرح وہ لوگ موت کے منہ سے باہر آگئے۔ بقول ساحر لدھیانیوی ؎
ہزار برق گریں لاکھ آندھیاں اُٹھیں
وہ پھول کِھل کے رہیں گے جو کِھلنے والے ہیں
شیو پوری میں بھی مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ وہاں ایک مسلم ہیڈ کانسٹبل بھی پولیس کو بلانے میں کامیاب نہیں ہوا لیکن خوش قسمتی سے وہ خفیہ ایجنسی میں زیر ملازمت تھا۔ اس کے افسر نے فورس روانہ کی اور وہ اپنے اہل خانہ و دیگر پاس پڑوس کے لوگوں کے ساتھ وہاں سےنکل گیا۔ اس کے نتیجے میں جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر دوکانوں اور مکانات کو پھونک دیا گیا۔ اس دوران مدینہ مسجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ فساد کے بعد کچھ لوگ محلے میں لوٹے وہ ڈرے اور سہمے ہوئے تھے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے مسجد کے امام مولانا محبوب قاسمی بھی واپس آگئے۔ جمعرات کو انہوں نے مغرب کی اذان دی تو مشکل سے ایک صف بن سکی۔ قاسمی صاحب نے سوچا کہ یہاں ڈیرہ ڈالے بغیر کام نہیں چلے گا چنانچہ ان کی حوصلہ مندی رنگ لائی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے دن جمعہ کے وقت مسجد مصلیوں سے بھر گئی تھی۔ ہمارا وفد جب شام میں مغرب کے وقت مدینہ مسجد کا دورہ کیا تو دوسری منزل پر آخری صف تک نمازی تھے اور باقاعدہ لاوڈ اسپیکر پر نماز پڑھائی جارہی تھی۔
اہلِ ایمان کی اس پامردی نے بلوائیوں کے حوصلے پست کردیے۔ اس طرح فساد بھڑکا کر اپنا مفاد حاصل کرنے اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ اس کامیابی کا سہرا بنیادی طور پر ان نوجوانوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے حفاظت خود اختیاری کے لیے گھر سے باہر آکر فسادیوں کا مقابلہ کیا اور ان ماوں کے بھی جنہوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ امت میں جب تک ایسا جذبہ موجود ہے فسادی اور امن کے دشمن تھوڑا بہت نقصان تو پہنچا سکتے ہیں لیکن ان پر غلبہ نہیں حاصل کر سکتے۔ اس لیے اللہ کی مدد ونصرت ان کے شاملِ حال رہتی ہے۔ ایسے لوگوں کی زبان پر حفیظ میرٹھی کا یہ شعر ہوتا ہے ؎
دب کے رہنا ہمیں نہیں منظور
ظالمو جاو اپنا کام کرو