دہلی فسادات: جے این یو کے سابق طالب علم اور نوجوان رہنما عمر خالد کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا

نئی دہلی، ستمبر 14: جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد کو فروری میں ہوئے شمال مشرقی دہلی فسادات میں مبینہ کردار کے الزام میں دہلی پولیس کی خصوصی سیل نے گرفتار کر لیا۔

دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے خالد سے تقریباً 11 گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد انھیں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت گرفتار کیا۔

ایک سینئر نامعلوم پولیس افسر نے دی ہندو کو بتایا کہ خالد پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ تشدد میں ملوث مرکزی سازشیوں میں سے ایک ہے۔

خالد کو پیر کے روز دہلی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ نامعلوم پولیس عہدیداروں نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ وہ آئندہ چند روز میں ممکنہ طور پر اس کے خلاف چارج شیٹ داخل کریں گے۔

اس ماہ کے شروع میں بھی دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے عمر خالد سے پوچھ گچھ کی تھی۔

عام آدمی پارٹی کے معطل کونسلر طاہر حسین کے خلاف پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی چارج شیٹ میں خالد کا نام سامنے آیا تھا۔ چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ 8 جنوری کو حسین نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران عمر خالد اور یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے شریک بانی خالد سیفی سے دہلی کے شاہین باغ میں ملاقات کی، جہاں عمر خالد نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے وقت کسی بڑے فساد کے لیے تیار رہنا ہے۔

اپریل میں جے این یو کے سابق طالب علم پر تشدد سے متعلق ایک اور معاملے میں یو اے پی اے کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان پر مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر کرکے تشدد کو بھڑکانے کا الزام لگایا گیا تھا۔

خالد کی گرفتاری اس واقعے کے ایک دن بعد ہوئی جب پولیس نے ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی (ایم) کے سکریٹری جنرل سیتارام یچوری، معاشی ماہر جیاتی گھوش، دہلی یونی ورسٹی کے پروفیسر اپوروانند، سوراج ابھیان کے رہنما یوگیندر یادو اور دستاویزی فلم ساز راہل رائے کو فسادات کے ’’شریک سازشیوں‘‘ کے طور پر نامزد کیا ہے۔

دہلی پولیس نے دعوی کیا ہے کہ پنجرا توڑ کی سرگرم کارکنان دیونگنا کلیتا اور نتاشا نروال نے تشدد میں نہ صرف اپنی سرگرمی کا اعتراف کیا ہے، بلکہ انھوں نے گھوش، اپوروانند اور رائے کا اپنے ’’سرپرستوں‘‘ کے طور پر نام لیا ہے۔

عمر خالد کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر یو اے پی اے اور عمر کی گرفتاری کے خلاف ہیش ٹیگس چلنے لگے اور متعدد معروف شخصیات نے اس کی مذمت کی ہے اور عمر کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔