دہلی تشدد: پولیس نے عمر خالد اور جامعہ ملیہ کے دو طلبا کے خلاف یوپی اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا

نئی دلی، اپریل 21: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا میران حیدر اور صفورا زرگار کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ یعنہ یو اے پی اے کے تحت فروری میں شہریت ترمیمی قانون کے تحت شمالی مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق مقدمہ درج کیا ہے۔ انھوں نے اس ایکٹ کے تحت جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا۔

فروری میں دہلی میں فرقہ وارانہ فساد میں 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ 1984 کے سکھ مخالف تشدد کے بعد دہلی میں بدترین تشدد دیکھا گیا تھا۔

فروری میں فرقہ وارانہ فسادات کو بھڑکانے کی سازش کے الزام میں گرفتار حیدر اور زرگار پہلے سے ہی عدالتی تحویل میں ہیں۔ زرگار جامعہ رابطہ کمیٹی کی میڈیا کوآرڈینیٹر ہیں، جب کہ حیدر کمیٹی کے ممبر ہیں۔ حیدر، جو ایک پی ایچ ڈی اسکالر ہیں، دہلی میں راشٹریہ جنتا دل کے یوتھ ونگ کے صدر بھی ہیں۔

2 اپریل کو دہلی پولیس نے میران حیدر کو گرفتار کیا تھا۔ کچھ دن بعد یونیورسٹی میں ایم فل کی طالبہ صفورا زرگار کو بھھی جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے قریب سڑک میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ سول سوسائٹی گروپوں نے 16 اپریل کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں ان دونوں طلبا کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

پولیس نے ایف آئی آر میں دعوی کیا ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد ایک ’’منصوبہ بند سازش‘‘ تھا جسے مبینہ طور پر خالد اور دو دیگر لوگوں نے ’’بھڑکایا‘‘ تھا۔ طلبا پر مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینے اور فساد بھڑکانے، بغاوت، قتل اور قتل کی کوشش کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں دعوی کیا گیا ہے کہ خالد نے مبینہ طور پر دو مختلف مقامات پر اشتعال انگیز تقریریں کیں اور دہلی کے رہائشیوں سے اپیل کی کہ وہ فروری میں ریاستہائے متحدہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہندوستان کے دورے کے دوران احتجاج کے طور پر سڑکوں پر نکلیں۔ تاکہ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ بد سلوکی کیے جانے کی ’’افواہ‘‘ پھیلائی جائے۔ ایف آئی آر میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ پولیس نے متعدد گھروں سے آتشیں اسلحہ، پٹرول بم، تیزاب کی بوتلیں اور پتھر اکٹھے کیے ہیں اور سازش کا سراغ لگایا ہے۔

ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ خواتین اور بچوں کو 23 فروری کو جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے تحت سڑکیں بند کر کے علاقے میں تناؤ پیدا کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سول سوسائٹی اور فلمی شخصیات نے پولیس کے اس قدم کی مخالفت کی ہے اور اسے مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنائے جانے کے مترادف کہا ہے۔