دکنی دنیا

کرناٹک میں باحجاب طالبات کی کالج سے بے دخلی کی ملک بھر میں گونج

سید احمد سالک ندوی

آئینی حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ انصاف پسند حمایت میں آگے آئے
طالبات کی مدد کے لیے ملی تعلیمی ادارے اپنے دروازے کھول سکتے ہیں
فرقہ پرست ذہنیت کی کالج انتظامیہ اپنی بات پر بضد مگر طالبات کا حوصلہ قابل ستائش
گورنمنٹ ویمنس کالج اڈپی میں مسلم طالبات کے حجاب کے مسئلہ کی گونج اب ریاست سے باہر ملک بھر میں سنائی دے رہی ہے۔متاثرہ طالبات کالج گیٹ کے باہر احتجاج کر رہی ہیں ۔ وہیں دوسری جانب اڈپی سے متصل کنداپور میں بھی اس کا اثر دیکھا جا رہا ہےجہاں کی سرکاری جونیئر کالج میں حجاب پہننے والی مسلم طالبات کو کیمپس کے گیٹ پر ہی روک دیا گیا۔ اطلاع کے مطابق کالج پرنسپال نے با حجاب مسلم طالبات کو اندر داخل ہونے سے یہ کہہ کرروک دیاکہ ’’ سرکار کی طرف سے اڈپی حجاب تنازع پر اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا سرکیولر جاری ہوا ہے اس لیے انہیں حجاب کے ساتھ اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس موقع پر طالبات اور پرنسپال کے درمیان بحث بھی ہوئی جس میں طالبات نے اپنےآئینی حقوق کا حوالہ دیا ۔
غیر مسلم طلبہ کا سخت رد عمل
کنداپور سرکاری پی یو کالج میں مسلم لڑکیوں کے حجاب پہننے کے خلاف غیر مسلم لڑکوں نے زعفرانی شال اوڑھ کر کالج میں حاضری دی ۔ اڈپی میں گرمائے ہوئے اس مسئلہ کو غیر مسلم طلبہ فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے100 سے زائد طلبہ زعفرانی شال گلے میں لٹکا کر کالج میں حاضر ہوئے ۔
اس واقعہ کے بعد کنداپور ایم ایل اے ہالاڈی سرینواس شیٹی نے کالج کا دورہ کیا اور مسلم طالبات کے والدین کے ساتھ ایک میٹنگ منعقد کرتے ہوئے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یونیفارم کے علاوہ کسی قسم کا لباس پہن کر کالج میں حاضر ہونے کی اجازت نہیں رہے گی ۔ لیکن ایم ایل اے کے ساتھ ہوئی اس میٹنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور مسلم طالبات کے والدین نے صاف لفظوں میں کہا کہ حجاب کو چھوڑا نہیں جا سکتا ۔
قومی انسانی حقوق کمیشن کی مداخلت
قومی انسانی حقوق کمیشن(این ایچ آر سی) نے اس معاملے میں ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے۔ نئی پیش رفت کے تحت این ایچ آر سی نے کرناٹک حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔یہ نوٹس اڈپی کی سرکاری کالج کی 8 مسلم طالبات کو حجاب پہننے کے سبب کلاس میں داخلہ کی اجازت نہ دیے جانے سے متعلق ہے۔نوٹس میں کہاگیا ہے کہ اس معاملے کے حقائق بہت ہی پریشان کن ہیں۔موصول کردہ شکایت میں جو الزامات لگائے گئے ہیں، وہ تعلیم کے حقوق سے متعلق سنگین نوعیت کے ہیں۔اس لیے اس معاملے میں متاثرہ طالبات کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہوئی ہے۔یہ نوٹس اڈپی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، محکمہ تعلیمات کے پرنسپل سکریٹری کو بھیجی گئی ہے، اور 4 ہفتوں کے اندر جواب طلب کیاگیا ہے۔
ایک اور رخ
حجاب تنازع نےاس وقت دوسرا رخ اختیار کیا جب حجاب کی اجازت مانگنے والی 6 مسلم طالبات کے خلاف غیر مسلم طالبات کے ایک گروپ نے اڈپی ضلع ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کو ایک میمورنڈم دیا۔ میمورنڈم میں کہا گیا ہے’’ ہمارے کالج کا ماحول خراب ہوگیا ہے ۔ فائنل امتحان بالکل قریب ہے ۔ تعلیم کو اہمیت دینے کے بجائے بدنظمی پھیلائی جارہی ہے ۔ صرف 6 طالبات کی وجہ سے 600 طلبہ کا مستقبل دھندلا گیا ہے ۔ کالج کیمپس میں پولیس اور میڈیا کا آنا جانا معمول بن گیا ہے۔‘‘ اس کے بعد سےکہا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے باقاعدہ منظم سیاست کام کرر ہی ہے۔
بی جے پی لیڈر کی بد زبانی اور دھمکی
کالج انتظامیہ کمیٹی کے نائب صدر اور بی جے پی لیڈر یشپال سوورنا نے حجاب تنازع پر احتجاج کرنے والوں کو کھلی دھمکی دیتے ہوئے کہا’’ ہم ہندو تنظیموں کی مدد سے اس معاملہ کو پانچ منٹ میں ختم کر سکتے ہیں ۔‘‘ یشپال نےالزام لگایا کہ اس میں کیمپس فرنٹ آف انڈیا اور پی ایف آئی کا ہاتھ ہے ۔ ‘‘ یشپال نے یہ بھی کہا : ” ہم جانتے ہیں کہ وہ لوگ ہمیں چیلنج کرتے ہوئے بدنظمی پھیلا رہے ہیں ۔ ہمیں پتہ ہے کہ ہندو تنظیموں کی مدد سے کس طرح جواب دینا ہے ۔ یہاں مجھے کالج انتظامیہ کمیٹی کے صرف ایک ذمہ دار نمائندے کی حیثیت سے بات کرنی ہے ۔ ورنہ مجھے ہندو تنظیم کے رکن کی حیثیت سے بات کرنا بھی آتا ہے ‘‘۔
کیا کہتے ہیں کرناٹک کے وزیر تعلیم
ریاستی وزیر برائے بنیادی و ثانوی تعلیم بی سی ناگیش نے کہا کہ اڈپی کے سرکاری پی یو کالج یا دیگر تعلیمی اداروں میں حجاب پہن کر آنے کا یہ معاملہ حکومت کے لیے ایک درد سر بن گیا ہے۔ ناگیش نے کہا کہ تعلیمی ادارہ ایک مقدس مقام ہوتا ہے دوفرقوں کے درمیا ن اس کو میدان جنگ بننے کا موقع نہیں دیا جانا چاہیے۔ سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر طالب علم ان اداروں میں برابر ہے۔ تعلیمی اداروں میں اس طرح کی سرگرمیوں کوموقع نہیں دیا جانا چاہیے۔ مگر اسی بیچ حکومت کرناٹک نے تمام تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی ۔
سدرامیا اپوزیشن لیڈر نے خاموشی توڑی۔۔؟
کرناٹک کانگریس قائد، حزب مخالف لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ سدرامیا نے ایک ماہ بعد اس واقعہ پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہےکہ سرکاری کالجوں میں حجاب اور اسکارف کا مسئلہ پیدا کرکے مسلم لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنےکی سازش ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی بی جے پی سرکار دستور کےدیے ہوئے تعلیمی اور مذہبی حق کو چھیننے کی کوشش کررہی ہے۔
سدرامیا نےکہاکہ کنداپور کالج کے پرنسپال نے گیٹ بند کرکے 29مسلم طالبات کو کلاس میں بیٹھنے پر روک لگائی ہے۔ جو سراسر غلط ہے اور ان کےبنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ سدرامیا نے سوال کیا کہ اسکارف بہت برسوں سے پہنا جارہاہے تو اب اس پر پابندی لگانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے ؟ سدرامیا نےکہاکہ تعلیم دستور کے لحاظ سے بنیادی حق ہے۔ ذاتی طورپرکہوں تویہ دراصل لڑکیوں کے بنیادی تعلیمی حق کو چھیننا ہےتاکہ مسلم طالبا ت تعلیم حاصل نہ کرسکیں۔یہ انہیں تعلیم سے محروم کیےجانےکی خفیہ کوشش ہے۔ تعلیم حاصل کرنا اور اپنے پسندیدہ مذہب پر عمل کرنا ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔
ملت کو کیا کرنا چاہیے
اب یہ معاملہ پوری طرح فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر چکا ہے ۔ عدالت اس پر کیا فیصلہ دیتی ہے یہ بھی اہم ہے لیکن ان طالبات کو حجاب کے ساتھ پڑھانے کے لئے کیا متبادل ہو سکتا ہے ۔۔؟ اس سلسلے میں جب ہم نے ملی حلقوں کے بعض ذمہ داروں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ ’’ہمیں عدالت پر بھروسہ کرنا چاہیے کہ وہ دستور میں دی گئی آزادی کے مطابق فیصلہ دے گی‘‘۔ ایک صحافی نے کہا کہ کنداپور کے آس پاس بڑے بڑے مسلم تعلیمی اداروں کو آگے آنا چاہیے اور ان طالبات کی مدد کرنی چاہیے ، اس طور پر کہ اگر انہیں حجاب کی اجازت نہیں ملتی ہے تو مسلم ادارے اپنے یہاں ان کی تعلیم کا نظم کریں تاکہ ان بچیوں کا سال ضائع ہونے سے بھی بچ جائے اور وہ بہتر ماحول میں اپنی پڑھائی مکمل کریں ۔اسی طرح دوسری طرف ہم اپنی قانونی جد و جہد بھی جاری بھی رکھیں۔ ملت کا وہ حلقہ جس کے پاس ایسے تعلیمی ادارے ہیں امید کہ وہ اس پہلو سے بھی اس مسئلے پر غور کرے گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 فروری تا 19فروری 2022