دو ماہ میں 1.89کروڑ افراد نے نوکریاں گنوائیں
ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کے منفی اثرات۔معاشی استحکام کے لیے ٹھوس اقدامات ضروری
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
لاک ڈاؤن کے بعد ملک میں معاشی سرگرمیاں آہستہ آہستہ دوبارہ شروع ہو رہی ہیں اور بتدریج اپنی پٹری پر لوٹ رہی ہیں۔ یہ تیزی اس لئے بھی نظر آرہی ہے کیوں کہ پچھلے تین ماہ سے سارے کاروبار بند پڑے تھے۔ حقیقت میں یہ رفتار اتنی سست ہے کہ اس سے معیشت کو کوئی بڑا فائدہ حاصل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پھر دوسری طرف لاک ڈاؤن کی تباہ کاریوں کے اثرات بھی منظر عام پر آرہے ہیں۔ چھوٹی اور متوسط درجہ کی صنعتیں اور تجارتیں بند ہوگئی ہیں یا بند ہونے کے در پر ہیں جس کی وجہ سے اس کا بہت گہرا اثر ان میں کام کرنے والے ملازمین پر پڑا ہے۔ مختلف اداروں کی جانب سے ان اثرات کا تخمینہ لگا یا جا رہا ہے۔ اسی بیچ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکادمی (سی ایم آئی ای) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں ملازمین سے متعلق اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں۔ اس کے مطابق COVID-19لاک ڈاؤن کے دوران اپریل تا جولائی 2020 تک تقریباً 18.9 ملین افراد نے اپنی نوکریاں گنوائی ہیں۔ غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن سے تنخواہ یافتہ ملازمین کی حالت زار بدتر ہوگئی ہے۔ اس وبائی مرض سے زیادہ حکومت کی نا اہلی نے ان کی زندگیوں کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔
سی ایم آئی ای کے ذمہ دار مہیش ویاس نے کہا کہ ’’لاک ڈاؤن کے شروع ہونے کے بعد ماہ اپریل میں تقریباً 17.7 ملین افراد نے نوکریاں کھو دیں۔ یہ تعداد ماہ جولائی کے آتے آتے تقریباً 18.9 ملین تک پہنچ گئی‘‘۔یومیہ مزدوری کرنے والے تقریباً 7 ملین افراد بے روزگار ہو گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں تقریباً 19 ملین نوکریاں کم نکلیں جو 22 فیصد کم ہیں۔ اچھی نوکری کے حاصل ہونے کے بعد کوئی بھی فرد اسے چھوڑ نا نہیں چاہتا۔ جس طرح اس کا خود سے نوکری چھوڑ دینا مشکل ہے اسی طرح اس کا حصول اس سے کہیں زیادہ مشکل اور پُرمشقت عمل ہے۔ اسی لیے ان نوکریوں کا جانا لوگوں کے لیے شدید پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر روزآنہ کی اساس پر مزدوری کرنے والے مزدوروں، ہاکروں اور چھوٹے اور متوسط درجہ کے ملازمین اور خانگی اسکول کے اساتذہ نے اپنی ملازمتیں گنوا کر شدید نقصان اُٹھایا ہے اور یہی افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
ماہ اپریل میں 121.5 ملین ملازمین نے اپنی نوکریاں کھوئی ہیں جن میں سے تقریباً 91.2 ملین افراد ایسے تھے جن کا شمار غیر منظم شعبہ کے ملازمین کے زمرے میں کیا جاتا ہے۔ جو مجموعی ملازمتوں کا تقریباً 32 فیصد حصہ بنتا ہے لیکن یہی زمرہ سب سے زیادہ متاثر رہا ہے اس زمرے کے ملازمین نے ماہ اپریل میں تقریباً 75 فیصد ملازمتوں کا نقصان اُٹھایا ہے جو کہ انتہائی تشویش ناک امر ہے۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک (ADB) کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق کوویڈ 19 کی وجہ سے ملک میں 41 لاکھ نوجوان بے روزگار ہوگئے ہیں جن میں تعمیراتی اور کھیتی باڑی کے شعبے کے مزدوروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایسے نوجوان جن کی عمریں 24، 25 سال کی ہیں اس بحران کا زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے لاک ڈاؤن ختم ہونے لگا ویسے ویسے معاشی سرگرمیاں بھی شروع ہو رہی ہیں۔ جو لوگ نقل مکانی کئے تھے وہ اب نوکریوں کی تلاش میں نکل رہے ہیں۔ سی ایم آئی ای کے مطابق ماہ اپریل میں کھوئی ہوئی ملازمتوں میں سے جولائی تک تقریباً 84 ملین افراد نے واپس اپنی ملازمت حاصل کرلیں ہیں۔ مزید 7 ملین افراد کو ابھی اپنی کھوئی ہوئی نوکریاں ملنا باقی ہیں۔ بے روزگاری کی مجموعی شرح ماہ جولائی میں 7.43 فیصد ہوگئی جو ماہ جون میں 11 فیصد تھی۔ جن کو نوکریاں واپس ملیں ان میں ابھی بھی بہت سے خدشات پائے جاتے ہیں اور وہ مختلف اندیشوں کا شکار ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تنخواہوں میں کٹوتی اور اس کے حصول میں تاخیر سے ملازمین میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ کن مشکلوں سے گزر رہے ہیں انہیں کتنی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔
میڈیا کے ذریعہ ملازمین کے تعلق سے جو واقعات منظر عام پر آئے ہیں وہ کافی تکلیف دہ ہیں ان کی تنخواہوں میں کٹوتی اور تاخیر باعث تشویش ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے اور بھی اہم باتیں ہیں۔ منظم شعبہ کے ملازمین کو بھی جس بُری طرح سے دھکا لگا ہے اس کا اندازہ ان دو باتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
1- اخراجات میں کمی۔ جون 2020 کو ختم ہونے والی سہ ماہی میں (بی ایس ای) کی 100معروف کمپنیوں کی کارپوریٹ فائلنگ کے مطابق خدمات، اشیائے ضروریہ اور صنعتی شعبہ کے ملازمین کے اخراجات میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ خاص طور سے ان کمپنیوں نے اپنی سہ ماہی میں ملازمین کے مجموعی اخراجات میں واضح کمی درج کی ہے۔ مہندرا فائنانس (36.7) ہیویلس انڈیا (27) ٹاٹا موٹرس (26) ایچ ڈی ایف سی لائف انشورنس (21) ماروتی سوزوکی ہندوستان (15) انٹرگلوب ایوی ایشن (14.8) بجاج فنانس (13) اور یونائٹیڈ اسپرٹ (12.9) وغیرہ۔ مارننگ کنٹیکسٹ کے ایک تجزیہ کے مطابق جون تک کی سہ ماہی میں 30 کمپنیوں نے جو بینچ مارک سنسیکس پر مشتمل ہیں ان میں سے نصف سے زیادہ کمپنیوں نے اپنے ملازمین پر کم خرچ کیا ہے۔ اس نے کہا ’’ریلائنس جس کا شمار ملک کی سب سے قیمتی کمپنیوں میں ہوتا ہے، جس نے اپنے منافع کو دوگنا سے بھی زیادہ دیکھا ہے، اس کے ملازمین کے اخراجات میں تقریباً 14.68 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے‘‘
سویگی کے ملازمین گزشتہ ایک ہفتہ سے احتجاج پر ہیں۔ ان کے مطابق کمپنی نے ہفتہ وار اور ماہانہ مراعات سے دستبرداری اختیار کر لی ہے۔ انڈین ایکسپریس کی رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ سویگی کے عملے نے کہا ہے کہ کمپنی کی نئی پالیسی کے مطابق ان کی آرڈر فیس میں 133 فیصد کمی کی گئی ہے ۔
2- (ای پی ایف او) سے اپنی رقم نکالنے والوں کی تعداد میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے، جب کہ یہ رقم صرف باقاعدہ ملازمین تک محدود ہے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے جو عام طور پر وقوع پزیر نہیں ہوتی۔ اخراجات میں کمی اس بات کی دلیل ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی گئی ہے جیسا کہ ریلائنس اور سویگی کہ معاملے میں ہم نے دیکھا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ملازمتیں اب جزوی معاہدوں پر پُر کی جا رہی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ماہ اپریل تا جولائی 2020 تک ’’امنگ‘‘ ایپ کے ذریعہ کل 11.27 لاکھ افراد سے آن لائن درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان درخواستوں میں گزشتہ سال ماہ مارچ تا دسمبر کے مقابلے میں تقریباً 180 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ اکنامک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق (ای پی ایف او) کے عہدیداروں کے حوالے سے یہ بات بتائی گئی ہے کہ ’’اپریل 2020 سے جولائی 2020 تک 8 لاکھ (ای پی ایف او) صارفین نے تقریباً 30 ہزار کروڑ روپئے کی خطیر رقم اپنے کھاتوں سے واپس لے لی ہیں‘‘۔ ای پی ایف او کے ایک عہدیدار نے مزید کہا کہ’’3ملین صارفین نے تقریباً 8 ہزار کروڑ روپے ’کوویڈ ونڈو‘ کے تحت واپس لے لی ہیں جب کہ 50 لاکھ صارفین نے 22 ہزار کروڑ روپے بطور پیشگی طبی امور کے واپس نکال لیے ہیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ان رقومات کے واپس لینے میں اضافے کی تین وجوہات ہیں۔ وبائی مرض کی وجہ سے ملازمت کا ختم ہوجانا، تنخواہوں میں کمی اور طبی اخراجات وغیرہ۔ یہ مذکورہ دو کیفیات ملک میں معاشی عدم استحکام کی صورت حال کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
ملک کی مختلف صنعتوں میں ملازمتوں کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے، خاص طور پر خدمات پر مبنی صنعتوں کی صورت حال بدترین حد تک خراب ہو چکی ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس کے سدھرنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں۔
گو کہ کوئز کارپ نے آنے والے مہینوں میں صورت حال کے بدلنے اور بتدریج معیشت میں استحکام کی امید ظاہر تو کی ہے لیکن مختلف شعبوں میں ملازمت کے پیدا ہونے کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کے برقرار رہنے پر تشویش بھی ظاہرکی ہے۔
معیشت کو اپنی پٹری پر واپس لانے کے لئے معاشی ماہرین نے بہت سے مشورے بھی دئے ہیں تاکہ روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔ اسی سلسلے میں فیڈ بیک انفرا کے چیئرمین ونائک چٹرجی نے حکومت کو ایک مشورہ دیا کہ ’’بجٹ میں سے قومی تجدیدی فنڈ کے نام سے 30 لاکھ کروڑ روپے مختص کئے جائیں تاکہ معیشت کو دوبارہ پٹری پر لایا جا سکے‘‘اس رقم کو نہ صرف تعمیراتی کاموں کے لئے خرچ کیا جائے بلکہ دوسرے شعبوں، چھوٹے و متوسط درجہ کی صنعتیں، مالیاتی شعبہ جات اور غریب عوام کی حالت کو بہتر بنانے پر بھی خرچ کیا جائے اور ریاستی حکومتوں کو اس رقم سے مدد فراہم کی جائے۔ 60 فیصد رقم آر بی آئی فراہم کرے اور باقی 40 فیصد دوست ممالک سے طویل مدتی قرضوں کی شکل میں حاصل کیا جائے۔ اس جیسے مشورے اور بھی ماہرین نے دئے ہیں۔ لیکن حکومت کا رویہ انتہائی مایوس کن ہے۔ اتنے شدید اور ناگفتہ بہ حالات کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت گہری نیند سو رہی ہے اور حالات کو بدلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرنا نہیں چاہتی۔ ہر چھوٹا اور متوسط درجے کا صنعت کار چیخ رہا ہے کہ حکومت اس جانب توجہ دے اور کچھ ان کی داد رسی کرے لیکن دانستہ طور پر حکومت ان چھوٹے صنعتکاروں کی طرف توجہ دینا نہیں چاہتی بلکہ وہ ان صنعتوں کو بھی اپنے سرمایہ دار آقاؤں کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔ یقینی طور پر یہ حکومت معاشی میدان میں بُری طرح سے ناکام ہو چکی ہے اس کے پاس کوئی واضح منصوبہ ہے اور نہ ہی کوئی مضبوط لائحہ عمل کہ جس سے ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو اُوپر لایا جاسکے۔حکومت ہے کہ اپنی وہی ہندو قوم پرستی کے نشے میں مبتلا ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں میں تفریق پیدا کر کے اپنی ناکامیوں کو چھپا رہی ہے۔
ملک کی مختلف صنعتوں میں ملازمتوں کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے، خاص طور پر خدمات پر مبنی صنعتوں کی صورت حال بدترین حد تک خراب ہو چکی ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس کے سدھرنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں