دل سے ملاقات

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے۔۔

جاویدہ بیگم ورنگلی

آج کے اس مصروف ترین دور میں دل سے ملاقات کرنا اور وہ بھی تنہائی اور یکسوئی کے ساتھ جبکہ گھر آئے ہوئے مہمان سے ملاقات کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اسمارٹ فون ہر ایک کو اس طرح مصروف رکھتا ہے کہ دوسری باتوں کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ وہ ہوتے ہیں ان کے سامنے اسمارٹ فون ہوتا ہے جو ان کو ہر طرف سے بیگانہ رکھتا ہے۔ اسمارٹ فون کو دور جدید کا رقیب بھی کہہ سکتے ہیں جس نے انسان کو ہر چیز سے غافل بنا رکھا ہے۔ انسان کو جب اپنی ہی خبر نہیں تو بھلا وہ دل کی خبر گیری کیا کرے گا۔ دل کی خبر گیری تو دل کی دھڑکن دیکھنے والا آلہ ہی کرتا ہے اور دل میں خواہشات تو خود سے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ان پر قابو پانا کوئی آسان نہیں ہوتا یہ تو مشکل ترین کام ہے۔ اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے جنگ حنین جیسی جنگ سے واپسی پر صحابہ کرام سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا ’’جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف چلو‘‘۔یعنی تزکیہ نفس کی طرف۔ دل کے تزکیہ کا عمل کوئی وقتی و ہنگامی عمل نہیں ہے، یہ عمل ہر وقت جاری رہنے والا عمل ہے اور بغیر کسی خلل کے مسلسل جاری رہتا ہے۔ چاہے یہ کارروائی عمر بھر چلتی رہے۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے، بہت نکلے میرے ارمان پھر بھی کم نکلے والا معاملہ رہتا ہے۔ نفس دنیا کی رنگینیوں کو خوبصورت بنا کر اور برائیوں کو آراستہ کرکے گناہ کو زندگی کا ایک معمول بناکر انسان کے سامنے پیش کرتا رہتا ہے۔
انسان لذت پسند عیش و آرام کا دل دادہ ہوتا ہے۔ وہ نفس کے فریب میں آکر یہ بھول جاتا ہے کہ فانی لذتوں کے بدلے جنت کی ابدی نعمتوں کا سودا کر رہا ہے کیونکہ نفس کا کام ہی نیکیوں کے خلاف برسر پیکار رہنا ہے اور عہد و بند سے فرار اس کی فطرت ہے۔ وہ آوارہ و آزاد رہنا چاہتا ہے خواہ پابندی اس کے لیے سود مند ہی کیوں نہ ہو۔ وہ کس قسم کی روک ٹوک اور حد بندی کو پسند نہیں کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی خواہش پوری ہوتی رہے اور خواہشوں کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔ وہ ہر خواہش کی تکمیل پر یہی کہے جاتا ہے: بہت نکلے میرے ارمان پھر بھی کم نکلے۔ انسانی نفس کا میلان خواہشات کی طرف ہوتا ہے اگر اللہ کی رضا اس کی رحمت بیش بہا مطلوب ہو تو نفس کو قابو میں لانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو فلاح کی خوش خبری دیتا ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کرتے ہیں ’’یقیناً فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا (شمس ۹ تا ۱۰) اللہ نے واضح انداز میں بتایا دیا ہے کہ جو اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرتا ہے اچھے کاموں پر ابھارتا ہے تقویٰ کی بلندیوں تک لے جاتا ہے وہ فلاح پانے والا ہے۔ اس کے برخلاف وہ شخص نامراد و ناکام ہو گا جو اپنے نفس کے اندر پائے جانے والے نیکی کے رجحانات کو ابھارنے اور نشو ونما دینے کے بجائے اس کو دبا دیتا ہے اس کو بہکا کر برائی کے رجحانات کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے اندر نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات برابر رکھ دیے ہیں۔ سورہ بلد میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ہم نے اس کو نیکی اور بدی دونوں راستے بتادیے (سورہ بلد ۔۱) اور سورہ دہر میں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ’’ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا خواہ شاکر بن کر رہے یا کافر (دہر ۳) اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم وعقل کی صلاحیتیں دینے کے ساتھ اسے اخلاقی حِس بھی دی ہے جس کی بدولت وہ برائی اور بھلائی میں امتیاز کرتا ہے۔ انسان کو اختیار کی آزادی دی ہے چاہے وہ نیکی اختیار کرسکتا ہے یا برائی کا رخ بھی اختیار کرسکتا ہے اور پھر اللہ نے انسان کو خیر یا شر کے انجام سے بھی خبردار کر دیا ہے۔ سورۃ النسا میں ہے: اور اے انسان، تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے، اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے کسب و عمل کی بدولت ہے (النسا ۷۹) اس لیے نفس کا محاسبہ کرنا ضروری ہوتا ہے اس نے کیا نیکی کمائی ہے اور کیا برائی کمائی ہے کیونکہ اس پر انسان کے نجات یا ہلاکت کا انحصار ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ ’’تمہارے سینے میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر یہ درست ہے تو سارا جسم درست رہے گا اگر یہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جائے گا‘‘ یعنی دل کے درست ہونے پر ہی تمام کاموں کے درست ہونے کا انحصار ہے۔ اگر یہ بگڑ جائے تو سارے کام بگڑ کر رہ جائیں گے۔ اس لیے اپنی توجہ کا مرکز دل کو بنانا ضروری ہے۔ ذرا سی غفلت سے دل میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ شیطان جو انسان کے دل کو نشانہ بنائے ہوئے ہے وہ ذرا سی غفلت سے فائدہ اٹھا کر دل میں دنیا کی محبت پیدا کرتا ہے تو اس کے قدموں میں لغزش پیدا ہونی ہے وہ کام اللہ کی رضا وہ خوشنودی کے بجائے دنیا کے دکھاوے کے لیے کرتا ہے۔ ایک حدیث میں دکھاوے کے عمل کا انجام بتایا گیا ہے کہ ’’قیامت کے دن اللہ کے سامنے ایک عالم، ایک سخی اور ایک شہید کو پیش کیا جائے گا۔ ان تینوں کواللہ تعالیٰ اپنی دی گئی نعمتیں یاد دلائے گا وہ ان نعمتوں کا اقرار کریں گے اور کہیں گے اے اللہ! جو نعمتیں تو نے ہم کو دی تھیں وہ ہم نے تیرے رضا کے لیے لگادی ہیں۔ اس پر اللہ کہے گا ’’تم نے یہ نعمتیں میری رضا کے لیے نہیں بلکہ دنیا میں عزت و شہرت اور نیک نامی حاصل کرنے میں لگا دیں۔ اس کا بدلہ تم کو دنیا میں مل گیا۔ پھر فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ ان تینوں کو اوندھے منہ گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دو۔ یہ درد ناک انجام صرف دل میں خرابی پیدا ہونے کی وجہ سے ہوا۔ بظاہر دیکھنے میں ان تینوں کا عمل اللہ کے احکام کے مطابق ہی تھا لیکن دل کے بگاڑ نے ان کے عمل کو ثواب کے بجائے باعث عذاب بنا دیا کیونکہ ہمارے عمل کو دیکھنے والی وہ ہستی ہے جس سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں ہے وہ دل میں پوشیدہ باتوں کو تک جانتا ہے وہ ظاہری عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ نیت کو دیکھتا ہے، اس لیے دل سے ملاقات ضروری ہے اور یہ ملاقات تنہائی میں ہو اس میں دوسروں کے خیالات دخل انداز نہ ہوں تاکہ ٹھیک طریقے سے دل کی کیفیت سے آگاہ ہوسکیں کہ اللہ سے تعلق بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے۔ اللہ کا ذکر اور اس کی محبت کا کیا عالم ہے۔ دشمنی و محبت، رشتے و ناطے لینا و دینا، کمانا و خرچ کرنا الغرض زندگی کے تمام معاملات اللہ کے احکام اور رسولؐ کی سنت کے مطابق ہو رہے ہیں یا نہیں۔ دل کا محاسبہ ہی نہیں بلکہ اس کی حفاظت کا بھی خاص خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ کامیابی کا انحصار دل کی سلامتی پر ہے۔ دل ہی تمام نیک کاموں کو انجام دیتا ہے۔ ایمان لانا دل کی ذمہ داری ہے۔ ایمان کے بنیادی تقاضے بھی دل کو پورا کرنے ہوتے ہیں۔ محبت خشیت، تقویٰ احسان و قربانی توبہ وانابت یہ سب دل کے کام ہیں۔ جو کام اعضا وجوارح کے کرنے کے ہوتے ہیں ان میں بھی دل کی شمولیت ضروری ہوتی ہے۔ جس دل کو زندگی کے سارے کام انجام دینا ہے اس کی خبر گیری کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں؟ ہم رات دن مصروف رہتے ہیں یہ مصروفیت کس کے لیے اور کس لیے اور اس کا حاصل کیا ہے؟ اس پر کوئی غور کرنا نہیں چاہتا کیونکہ کوئی شخص خواہ وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے، اپنے آپ کو خوب جانتا ہے کہ وہ کیا ہے (سورہ القیامہ ۱۴تا۱۵)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  19 تا 25 دسمبر 2021