دلی کے فساد میں پولیس کی فرقہ پرستی آشکار !
چارج شیٹ کو سی اے اے مخالف احتجاجیوں کے خلاف ہتھیار بنا لیا گیا !!
افروز عالم ساحل
فساد ہوتے نہیں، کرائے جاتے ہیں۔ آئی پی ایس آفیسر و اتر پردیش کے سابق ڈائرکٹر جنرل وبھوتى نارائن رائے کے مطابق ’تقریباً سبھی بڑے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی ہے۔ تباہی بھی سب سے زیادہ انہی کی ہوتی ہے،ان حالات میں امن و قانون قائم کرنے والی ایجنسیوں سے یہ امید ہوتی ہے کہ گرفتاریوں اور تلاشیوں کے دوران وہ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندوؤں کی زیادہ گرفتاریاں کریں اور ان کے گھروں کی زیادہ تلاشیاں لیں لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوتا۔‘
ہر فساد میں پولیس فرقہ پرست ہوجاتی ہے۔ (جیسا کہ دلی فساد میں بھی کھل کر یہ دیکھنے کو ملا کہ پولیس دنگائیوں کی طرف کھڑی رہی اور کئی مقامات پر ایک خاص فرقہ کے لوگوں کے ساتھ مل کر دوسرے فرقے کے لوگوں پر پتھراؤ اور گولیاں چلاتی نظر آئی) پھر فساد کے بعد کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ پولیس یکطرفہ کارروائی کرتی نظر آتی ہے۔ دلی فساد میں تو اس قدر یکطرفہ کارروائی ہوئی کہ عدالت تک کو مداخلت کرنا پڑا۔
واضح رہے کہ پہلے 26 فروری کو دلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھر نے پولیس کو پھٹکار لگائی اور سوال کیا کہ ’اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے لیڈروں پر ایف آئی آر کیوں نہیں؟‘ جج صاحب کا اشارہ بی چے پی کے لیڈروں پر تھا۔ باضابطہ طور پر ان لیڈروں کی تقریروں کی ویڈیو کلپس انہوں نے عدالت میں چلا کر دکھائی۔ اس کے باوجود آج تک ان لیڈروں پر ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہے، یہ بات الگ ہے کہ جج صاحب کا تبادلہ ضرور کردیا گیا ہے۔
پھر 27مئی 2020کو دلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے جج جسٹس دھرمیندر رانا نے دلی پولیس کو پھٹکار لگائی اور اس کی تفتیش پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’کیس ڈائری دیکھنے سے آپ کی کارروائی یکطرفہ نظر آرہی ہے۔‘ اس کے پیش نظر عدالت نے متعلقہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس کو ہدایت دی کہ وہ منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنائے۔
جب پولیس کے یکطرفہ ’کھیل‘ پر سوال اٹھنے شروع ہوئے اور خاص طور پر یہ سوال ہماری عدالتوں میں ججوں کے ذریعے اٹھائے گئے تو پولیس نے اپنی پرانی اسکرپٹ میں تبدیلی کرنی شروع کردی، لیکن اس ’کھیل‘ میں وہ یہ بھول گئے کہ پہلی اسکرپٹ میں انہوں نے جو لکھ دیا ہے وہ اب عدالتوں میں پہنچ چکی ہے۔ اور پولیس اپنی بیلنس وادی تھیوری کی وجہ سے خود ہی پھنستی نظر آرہی ہے۔
جو دلی پولیس 1030 صفحات پر مشتمل اپنی پہلی چارج شیٹ میں عام آدمی پارٹی کے معطل کونسلر طاہر حسین، خالد سیفی اور عمر خالد کو اس فساد کے پیچھے کا ماسٹر مائنڈ بتا چکی ہے۔ وہیں اس نے گزشتہ دنوں دو چارج شیٹس مزید داخل کی ہیں، جن میں بتایا ہے کہ فروری میں دارالحکومت کے شمال مشرقی ضلع میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد کے دوران ’’جئے شری رام‘‘ کہنے سے انکار پر لوگوں کے ایک ہجوم نے 9مسلمانوں کو ہلاک کر دیا۔ پولیس نے کہا کہ ملزم اپنی سرگرمیوں کو مربوط بنانے اور ضرورت پڑنے پر افرادی قوت یا گولہ بارود کی فراہمی کے لیے واٹس ایپ گروپ کا استعمال کرتے تھے۔ حالانکہ اس چارج شیٹ کا ذکر نام نہاد مین اسٹریم میڈیا میں نہیں کیا گیا، جس طرح سے پہلے درج چارج شیٹوں میں کیا گیا تھا۔
پولیس کے ذریعہ داخل کی گئی ان چارج شیٹس میں کہا گیا ہے کہ ایک واٹس ایپ گروپ ’’کٹّر ہندو ایکتا‘‘ 25 فروری کو رات 12:49بجے ’’مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔‘‘ پولیس نے کہا کہ ارکان نے اس گروپ میں ’’مسلمانوں کو مارنے‘‘ اور ’’ان کی لاشوں کو گٹر میں پھینکنے‘‘ کی باتیں کی گئیں۔ چارج شیٹ کے مطابق ابتداء میں اس گروپ کے تقریباً 125ارکان تھے، لیکن 8مارچ تک کل 47ارکان گروپ سے باہر چلے گئے تھے۔ پولیس واٹس ایپ کی گفتگو کو ’’غیر قانونی اعتراف‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پولیس نے اس چارج شیٹ میں بتایا ہے کہ مسلح افراد نے جس کو بھی دیکھا اسے روک لیا۔ ان کا نام، پتہ، شناختی کارڈ دیکھا اور انہیں کہا کہ ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگائیں۔ جس نے بھی انکار کیا، یا جو مسلمان انہیں ملا، اس کو بھاگیرتی وہار میں بے دردی سے مار دیا گیا اور اس کی لاش کو نالے میں پھینک دیا گیا۔پولیس نے اس چارج شیٹ میں دو معاملات میں شناختی بیانات قلم بند کیے ہیں۔ لوکیش سولنکی نے، جس کی شناخت اہم مجرم کے طور پر کی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق 11:39بجے پہلا پیغام یہ تھا: ’’بھائی میں گنگا وہار سے لوکیش سولنکی ہوں۔ اگر کوئی پریشانی یا لوگوں کی کمی ہے تو مجھے بتائیں۔ میں گنگا وہار کی پوری ٹیم کے ساتھ آؤں گا۔ ہمارے پاس ضرورت کا سارا سامان ہے، گولیاں، بندوقیں، سب کچھ۔‘‘ 11:44بجے اس نے مبینہ طور پر یہ میسج کیا: ’’رات 9 بجے کے قریب آپ کے بھائی نے میری ٹیم کے ساتھ دو مسلمانوں کو مار کر نالے میں پھینک دیا ہے۔ ونے! آپ جانتے ہو کہ اس طرح کے کام کو انجام دینے میں آپ کا بھائی ہمیشہ ہی آگے رہتا ہے۔‘‘ عدالت 13 جولائی کو اس معاملے پر غور کرے گی۔
وہیں اس کے بعد داخل کی گئی ایک دوسرے چارج شیٹ میں دلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ جعفرآباد میں چکا جام کا مقصد ہندو۔ مسلم فساد کو بھڑکانا تھا۔ اس چارج شیٹ میں جعفرآباد میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر ہندو مسلم فسادات بھڑکانے کی سازش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
پولیس نے اس چارج شیٹ میں صاف طور پر کہا ہے کہ سی اے اے مخالف احتجاج کے منتظمین فسادات کے ’’ماسٹرمائنڈ‘‘ ہیں اور احتجاجات کا مقصد صرف چکا جام کرنا نہیں بلکہ ’ہندو مسلم فسادات‘ کو ہوا دینا بھی تھا۔ مذکورہ چارج شیٹ میں جعفرآباد میں 25 فروری کو ہونے والے تشدد کے احوال درج کیے گئے ہیں۔ جعفرآباد میں 23 فروری کو پتھراؤ ہوا تھا جس میں 12 ملزمین ماخوذ ہیں جن میں پنجرہ توڑ تنظیم کے ارکان دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال کے نام بھی شامل ہیں۔ پولیس نے الزام لگایا ہے کہ نتاشا اور دیوانگنا دونوں دلی کے جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے قریب فسادات کی سازش میں سرگرم عمل تھے۔
دلی پولیس اس پورے کھیل میں بی جے پی سے وابستہ تمام لیڈروں کو صاف طور پر بچاتی نظر آرہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پولیس ڈائری میں جس کسی بی جے پی لیڈر کا نام پایا گیا اسے دلی پولیس نے اپنی چارج شیٹ سے ہی غائب کر دیا ہے۔ یہ نام مشرقی دلی میونسپل کارپوریشن کے جوہری پور سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کونسلر کنہیا لال کا ہے۔ اس سلسلے میں دی کوئنٹ نامی ویب سائٹ نے ایک خبر میں شکایت کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کنہیا لال نے بھاگیرتی وہار میں ہجوم کی رہنمائی کی تھی اور مبینہ طور پر ’کٹوؤں کو، مُلّوں کو نبٹا دو‘ کہا تھا۔
سنگین بات یہ ہے کہ پولیس کے سامنے اپنے بیان میں بی جے پی کے کونسلر کنہیا لال کا نام لینے والے عینی شاہدین کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں ہیں۔ اس ’گواہ‘ نے دلی ہائی کورٹ میں ایک بار پھر ایک رٹ پٹیشن دائر کی ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسے اس سلسلے میں لگاتار دھمکی دی جارہی ہے۔ اس دھمکی کے پیچھے شکایت کنندہ نے کنہیا لال کا ہی نام لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی فیملی اب خوف میں ہے۔یہی نہیں، ایک نام جو بار بار دلی کے تشدد کا نشانہ بننے والوں کے بیانات میں سامنے آیا ہے وہ ہے شمال مشرقی دلی کے بی جے پی کے سابق ایم ایل اے جگدیش پردھان کا ہے۔ پولیس شکایت میں متاثرہ افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پردھان کے حامیوں کو فسادات میں حصہ لیتے دیکھا۔
یہاں یہ واضح رہے کہ جگدیش پردھان پر فسادات کے دوران موجود ہونے کا الزام نہیں ہے، بلکہ شکایتوں میں پردھان کے نام پر نعرے بازی، پراسرار فون کالز اور اس کے ’حامیوں‘ کے فساد میں شامل ہونے کے الزامات ہیں۔شکایات یہ بھی ہے کہ فسادات کے دوران، ’جئے شری رام‘ ، ’کپل مشرا زندہ باد‘ کے ساتھ ساتھ ’جگدیش پردھان زندہ باد‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس کے پاس کم از کم تین ایسی شکایتیں ہیں، جن میں جگدیش پردھان کا نام درج ہے۔
غور طلب ہے کہ بی جے پی کونسلر کنہیا لال کو سابق ایم ایل اے جگدیش پردھان کا قریبی ساتھی مانا جاتا ہے۔ اس سے قبل فسادات میں ہندوتوا وادی نیتا راگنی تیواری کا ہاتھ ہونے پر دیے گئے بیانوں اور دلی پولیس کی جانچ سے حیرت انگیز طریقے سے بی جے پی لیڈر کپل مشرا کا نام ہٹائے جانے کی رپورٹ میڈیا میں آچکی ہے۔واضح رہے کہ دلی فساد معاملے میں کل 750 ایف آئی آر درج کی ہوئی ہیں۔ ان میں سے 690ایف آئی آر کی تحقیقات مقامی پولیس یعنی نارتھ ایسٹ پولیس کررہی ہے جبکہ 60ایف آئی آر پر کرائم برانچ تحقیقات کر رہی ہے۔
ایک اطلاع کے مطابق 30جون تک 125 مقدمات پر چارج شیٹ داخل کی جاچکی ہیں۔فسادیوں کی حمایت کرنے اور مبینہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے الزام کے جواب میں دلی پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مجموعی طور پر 447افراد میں سے205 کا تعلق اقلیتی طبقے سے ہے اور ماباقی ہندو ہیں۔ کچھ توقف کے بعد انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کرائم برانچ کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے 63 مسلمانوں اور 41ہندوؤں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے، جب کہ مقامی شمال مشرقی دلی پولیس نے 142مسلمانوں اور 164ہندوؤں کے خلاف الزامات دائر کردیے ہیں۔ یعنی دلی پولیس کے ذریعے بیلنس تھیوری کا پورا خیال رکھا جارہا ہے۔
ان سب کے درمیان سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان فسادات میں دلی پولیس زیادہ تر ہندوؤں کے نام پر ان لوگوں کو نشانہ بنارہی ہے جو سی اے اے کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ ہرش مندر، یوگیندر یادو اور ڈی ایس بندرا جیسے لوگوں کے نام بھی اس فساد کی سازش کرنے والوں کے ناموں میں شامل کیے گئے ہیں۔غورطلب بات یہ ہے کہ دلی پولیس نے فساد میں ہلاک کانسٹبل رتن لال قتل معاملہ سے متعلق چارج شیٹ میں ڈی ایس بندرا کا نام بھی شامل کیا ہے۔
اسی چارج شیٹ میں سوراج انڈیا کے صدر یوگیندر یادو اور اسٹوڈنٹ لیڈرکول پریت کور کا نام بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ بندرا ایک وکیل ہیں اور انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کھل کر احتجاج درج کرایا تھا اور شاہین باغ کے ساتھ ساتھ چاند باغ کے مظاہروں میں پبلک کچن اور لنگر سروس شروع کی تھی۔ اس کے لیے وہ کئی اخبارات کی سرخی بنے تھے۔
وہیں ہرش مندر پر الزام ہے کہ انہوں نے 16 دسمبر کو دھرنا کے مقام کا دورہ کرکے مظاہرین کو اکسایا تھا کہ وہ سپریم کورٹ پر یقین نہ کریں اور انصاف کے حصول کے لیے سڑک پر اتریں۔ ان کے اوپر دلی تشدد کی سازش رچنے کا الزام ہے۔ حالانکہ فروری میں ہونے والے تشدد کے پیش نظر ہرش مندر نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں ان سیاسی لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی تھی جنہوں نے تشدد بھڑکنے سے پہلے اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں، جن کے نتیجے میں تشدد برپا ہوا تھا۔
ان سب معاملوں پر ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے رحمان کہتے ہیں کہ پولیس کے ذریعہ اب تک پیش کردہ چارج شیٹ محض ایک جھوٹ کا پلندہ ہے۔ ان کا مقصد صرف یہی ہے کہ جن لوگوں نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کی انہی کو اس فساد کا اصل ملزم بنا دیا گیا اور ہندوؤں نے اگر کچھ کیا بھی ہے تو وہ انتقام میں کیا ہے۔ شروعات تو مسلمانوں نے کی، ہندوؤں نے صرف جوابی کارروائی کی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ پولیس کی زیادہ تر چارج شیٹس حقائق سے کافی دور ہیں۔ ان کی تھیوری عدالت میں ٹکے گی نہیں، کوئی بھی اچھا وکیلِ دفاع عدالت میں ان کی چارج شیٹوں کے پزرے اڑا دے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انصاف کے لیے طویل انتظار کرنا پڑے گا اور اس دوران میڈیا کے مخصوص گوشے یکطرفہ طور پر پولیس کی تھیوری کا زہر لوگوں کے ذہنوں میں بھرنے کی خدمت انجام دیتے رہیں گے۔
پولیس کے ذریعہ اب تک پیش کردہ چارج شیٹ محض ایک جھوٹ کا پلندہ ہے۔ ان کا مقصد صرف یہی ہے کہ جن لوگوں نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کی انہی کو اس فساد کا اصل ملزم بنا دیا گیا اور ہندوؤں نے اگر کچھ کیا بھی ہے تو وہ انتقام میں کیا ہے۔ شروعات تو مسلمانوں نے کی، ہندوؤں نے صرف جوابی کارروائی کی ہے۔