دلی فسادات پر چارج شیٹ سے ایمرجنسی کی یادیں تازہ
پولیس کی منطق سمجھ سے بالاتر۔ سینئر صحافی قربان علی سے دعوت کی خاص بات چیت
(دعوت نیوز دلّی بیورو)
’چارج شیٹس عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ پولیس کی زبان کو وکیل یا قانون کے ماہرین ہی سمجھ پاتے ہیں، لیکن دلّی فسادات کی چارج شیٹ مجھے ایسی لگ رہی ہے جیسے ایمرجنسی کے زمانے کی ہو، جب ایک لاکھ سے زیادہ سیاسی لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں میرے مرحوم والد بھی تھے۔‘
یہ باتیں مشہور سینئر صحافی قربان علی صاحب کی ہیں۔ قربان صاحب کا صحافت کے میدان میں 34 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔ وہ بی بی سی ورلڈ سروس کے ساتھ 14 سال سے زیادہ اور راجیہ سبھا ٹی وی، دوردرشن نیوز، ای ٹی وی نیوز، یو این آئی، اوبزرور گروپ آف پبلیکیشنز اور آنند بازار پتریکا گروپ جیسے نامور میڈیا ہاؤسز کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ ان کے والد کیپٹن عباس علی ایمرجنسی کے دوران 1975-77 میں 15 ماہ تک بلندشہر، بریلی اور نینی سینٹرل جیل میں ڈی آئی آر اور میسا کے تحت بند رہے تھے۔
ہفت روزہ دعوت نے دلّی فساد کے سلسلے میں ان سے خاص بات چیت کی۔ ایمرجنسی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ مزید بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی اسی طرح سے چارج شیٹ لگائی گئی تھی۔ جیسے ریل کی پٹریاں اکھاڑ رہے تھے۔ ٹیلیفون کا تار کاٹ رہے تھے۔ سب بے سر پیر کے الزامات تھے۔ سب سے بڑا مقدمہ جارج فرنانڈیس کا تھا۔ ان پرالزام تھا کہ وہ ریلوے لائنوں کو ڈائنامائٹ سے اڑا رہے تھے۔ خیر وہ ایمرجنسی پورے ملک کی سطح پر تھی۔ دلّی فساد تو دلّی کے ایک کونے میں تھا۔ لیکن اس فساد میں جن لوگوں نے کھل کر عوام کے درمیان زہر پھیلایا، پولیس تک کو دھمکی دی، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ حالانکہ زہر افشانی کا یہ کھیل دلّی الیکشن کے دوران ہی شروع ہوچکا تھا۔ اس وقت ان کے خلاف نہ الیکشن کمیشن نے کوئی کارروائی کی نہ اب پولیس نے کی اور نہ حکومت نے۔ ان کے اوپر مقدمے درج ہونے چاہیئے تھے اور انکی گرفتاری ہونی چاہیئے تھی، لیکن ہوا کچھ نہیں۔
غورطلب ہے کہ گذشتہ سال مشہور مورخ پروفیسر رومیلا تھاپر نے صاف طور پر کہا تھا میرے خیال سے ایمرجنسی کے وقت کے حالات آج کے مقابلے میں مائلڈ یعنی ’کم خطرناک‘ صورتحال تھی، کیونکہ آج جو لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے، وہ ایمرجنسی میں تھی۔ بقول ان کے ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ایمرجنسی کم وقت کے لیے رہی اور موجودہ صورتحال پچھلے کئی سالوں سے چل رہی ہے اور یہ صورتحال کب تک برقرار رہے گی ہم نہیں جانتے۔ پانچ چھ سال پہلے ایسی صورتحال نہیں تھی۔ بیتے سالوں میں خوف و ہراس اور دہشت کا ماحول بڑھا ہے۔ حکومت کا رویہ مزید آمرانہ ہوگیا ہے۔ اقلیتوں، دلت اور مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ ہو رہا ہے وہ تشویشناک ہے۔
دلّی فساد کو آپ کیسے دیکھ رہے ہیں؟ اس سوال پر قربان علی کہتے ہیں،دلّی فسادات ایک بڑی پلاننگ کے تحت ہوئے اور کئی دن تک چلے۔ حیرت کی بات ہے کہ امریکی صدر دارالحکومت دلّی میں موجود تھے اور یہ فسادات چل رہے تھے۔ وہ جتنے وقت دلّی میں رہے یہ فساد شباب پر تھا۔ ایسے میں یہ چیز سمجھ میں نہیں آئی کہ مرکزی حکومت کے پاس ساری ایجنسیاں ہوتی ہیں، کسی کو اس کو اس کی پلاننگ کی بھنک کیوں نہیں لگی۔ سب کے سب فیل کیوں ہوگئے؟ اس وقت فساد کا ہونا یہ اپنے آپ میں سوال ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ابھی تک ان فسادات کی جانچ کے لیے کوئی کمیشن یا کمیٹی حکومت کی طرف سے اعلیٰ سطح پر نہیں بنائی گئی ہے۔ اب دلّی کا مسئلہ یہ ہے کہ دلّی پولیس مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے تو یہ کام مرکزی حکومت کو کرنا تھا۔ لیکن مرکزی حکومت کو گذشتہ 6 سالوں سے دیکھ رہے ہیں، ان سے اس کام کی امید نہیں کی جا سکتی۔
تو پھرآگے کیا کرنا چاہیئے؟ اس سوال پر قربان علی کہتے ہیں،اس معاملے میں سول سوسائٹی کی طرف سے جو ہونا چاہیئے تھا، وہ بھی بہت زیادہ نہیں ہوا۔ حالانکہ کئی لوگوں نے انفرادی طور اور کئی تنظیموں نے فیکٹ فائڈنگ ٹیمیں بنائیں اور پبلک ہیئرنگ بھی کی، لیکن اس کے بعد کورونا کا سلسلہ شروع ہوا تو ملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہوگیا، ایسے میں زیادہ کام اس سلسلے میں نہیں ہوپایا۔ اس لیے ابھی بھی ضروری ہے کہ ایک کمیشن اس کی جانچ پڑتال کے لیے ہو، چاہے وہ سرکاری سطح پر ہو یا غیر سرکاری سطح پر، اس کا ایک اعتبار ہو اور اس میں یہ نکل کر آنا چاہیئے کہ فسادات کیوں ہوئے؟ اس کے پیچھےکون لوگ تھے؟ کہا یہ جارہا ہے کہ یوپی اور ہریانہ اور دیگر صوبوں سے ٹریکٹر و ٹرالی میں بیٹھ کر ہتھیار کے ساتھ لوگ آئے، اس کی صداقت ابھی معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ اور چونکہ ماحول اس طرح کا تھا کہ میڈیا نے بھی اس کو ٹھیک ڈھنگ سے رپورٹ نہیں کیا، جتنا اسے کرنا چاہیئے اور زیادہ تر وہی کیا جو اسے پولیس نے بتایا۔
آپ نے چارج شیٹ کو دیکھا ہے۔ کیا چیز آپکو بڑی عجیب لگی؟ اس پر قربان علی کہتے ہیں کہ چارج شیٹ میں کئی چیزیں مضحکہ خیزمعلوم ہورہی ہیں۔ سب سے بڑا مذاق اگر کچھ ہوسکتا ہے تو اس میں ہرش مندر کا نام ہونا۔ ہرش مندر نہ صرف ملک کا بلکہ پوری دنیا میں سول رائٹس کا ایک بڑا نام ہے، جسے احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ اس آدمی کو جو کہ آئی اے ایس افسر رہا ہے اس کو آپ نے ملزم بنایا ہے، اس سے بڑا مذاق کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک اور مذاق یہ ہے کہ ایک مسجد جلانے کے معاملے میں تبلیغی جماعت کے آدمی کو نامزد کیا گیا ہے۔ ایک مسلمان وہ بھی تبلیغی جماعت کا آدمی مسجد کیوں جلائے گا؟ یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ ایسے میں پولیس کی چارج شیٹ پر تو یقین بالکل بھی نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت سے تو انصاف کی امید کی جاسکتی ہے اور اس ملک کے انصاف پسند لوگوں کو کیا کرنا چاہیئے؟ اس پر وہ کہتے ہیں کہ جس طرح کا ماحول اس وقت ملک و سماج میں بنا ہوا ہے، جوماحول جوڈیشری و میڈیا میں ہے، مجھے نہیں لگتا کہ انصاف مل پائے گا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہنا چاہونگاکہ جولوگ اس ملک سے محبت کرتے ہیں، جوآئین، رول آف لا، سیکولرازم اور جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ لٹمس ٹیسٹ ہے۔ انہیں آگے آنا ہوگا۔ کچھ قربانیاں بھی دینی پڑینگی۔ اور اس ملک کا جوآئین ہے،70 سال پہلے بہت مشکل سے بنایا گیا تھا۔ انگریزی حکومت کے خاتمے کے بعد اس میں جو یقین نہیں رکھتے ہیں، وہ آئین کے خلاف اس وقت بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ اسلیے جو لوگ آئین میں یقین رکھتے ہیں، ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آگے آئیں اور اس آئین کو بچائیں۔ ہمارے پرکھوں نے بڑی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی تھی اس کے بعد یہ دستاویز تیار کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی اس سے بہتر دستاویز ہو نہیں سکتی لیکن اس کو بچانے لےلیے ہم سب کو ایک ساتھ لڑائی لڑنی پڑے گی۔
آپ کے والد کیپٹن عباس علی کون تھے؟
ہمارے قارئین کو ان کے تعلق سے کچھ بتائیے گا۔کیپٹن عباس علی کی پیدائش3 جنوری1920 کو قلندر گڑھی، کھرجہ، ضلع بلندشہر میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کھرجہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حاصل کی۔ بچپن سے ہی وہ انقلابی نظریات سے متاثر رہے اور پہلے نوجوان بھارت سبھا اور پھر اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے ممبر بنے۔
1939 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد آپ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی اور 1943 میں جاپانیوں کے ذریعہ ملایا میں جنگی قیدی بنائے گئے۔ اسی دوران آپ جنرل موہن سنگھ کے ذریعہ تشکیل دیئے گئے آزاد ہند فوج میں شامل ہوگئے اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کی سربراہی میں ملک کی آزادی کےلیے لڑائی لڑی۔ 1945 میں جاپان کی شکست کے بعد انہیں برطانوی فوج کے ذریعہ قیدی بنا لیا گیا۔ 1946 میں انہیں ملتان کے قلعے میں رکھا گیا، کورٹ مارسل کیا گیا اور موت کی سزا سنائی گئی، لیکن ملک آزاد ہونے کی وجہ سے رہا کردیے گئے۔آزادی کے بعد انہوں نے 1948 میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی سربراہی میں سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور 1966 میں متحدہ سوشلسٹ پارٹی اور 1973 میں سوشلسٹ پارٹی، اترپردیش کے وزیر مملکت منتخب ہوئے۔1967 میں اترپردیش میں پہلی جوائنٹ ودھائک دل اور پھر پہلی غیر کانگریسی حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ ایمرجنسی کے دوران 1975-77 میں 15 ماہ تک بلندشہر، بریلی اور نینی سینٹرل جیل میں ڈی آئی آر اور میسا کے تحت بند رہیں تھے۔1977 میں جنتا پارٹی کے قیام کے بعد اس کے پہلے سربراہ مملکت بنائے گئے اور 1978 میں 6 سال کےلیے قانون ساز کونسل کےلیے منتخب ہوئے۔آزاد ہندوستان میں مختلف عوامی تحریکوں میں سول نافرمانی کرتے ہوئے 50 سے زیادہ مرتبہ جیل کا سفر کیا۔ 2009 میں راجکمل پرکاشن نے ان کی سوانح عمری ’’نا رہوں کسی کا دست نگار‘‘ شائع کی۔ 94 سال کی عمر تک علی گڑھ، بلندشہر اوردلّی میں عوامی تحریکوں میں شرکت کر اپنی مضبوط آواز سے نوجوان نسل کو متاثر کرنے کا کام کرتے رہے۔ 11 اکتوبر 2014 کو 94 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
***
چارج شیٹ میں کئی چیزیں مضحکہ خیزمعلوم ہورہی ہیں۔ سب سے بڑا مذاق اگر کچھ ہوسکتا ہے تو اس میں ہرش مندر کا نام ہونا۔ ہرش مندر نہ صرف ملک کا بلکہ پوری دنیا میں سول رائٹس کا ایک بڑا نام ہے، جسے احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ اس آدمی کو جو کہ آئی اے ایس افسر رہا ہے اس کو آپ نے ملزم بنایا ہے، اس سے بڑا مذاق کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک اور مذاق یہ ہے کہ ایک مسجد جلانے کے معاملے میں تبلیغی جماعت کے آدمی کو نامزد کیا گیا ہے۔ ایک مسلمان وہ بھی تبلیغی جماعت کا آدمی مسجد کیوں جلائے گا؟ یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ ایسے میں پولیس کی چارج شیٹ پر تو یقین بالکل بھی نہیں کیا جا سکتا۔