دلی تشدد کیس :تین جہدکاروں کو ضمانت ’’رمنا اثر‘‘ کا ثبوت ہے
اگر اداروں کے سربراہ اپنے سیاسی آقاوں کے بجائے آئین سے اپنا عہد نبھائیں تو انصاف فروغ پائے گا
جولیو ربیرو
سب سے اوپر والا شخص تمام تر فرق پیدا کر سکتا ہے۔ مراتب کے حامل پولیس جیسے وردی والے ادارہ کے بارے میں تو یہ بات مسلمہ ہے لیکن اس اصول کا اطلاق انسانی کوششوں کے تمام شعبوں پر ہوتا ہے۔ نظام انصاف میں اس اصول کے اطلاق کا عبوری ثبوت پہلے دہلی ہائیکورٹ، الٰہ آباد ہائیکورٹ اور ممبئی ہائیکورٹ کی اورنگ آباد بنچ پر دستیاب تھا لیکن جب سے چیف جسٹس آف انڈیا کی حیثیت سے اپریل میں جسٹس این وی رمنا کی ترقی ہوئی ہے کبوتروں میں واضح طور پر ایک ہلچل سی مچی ہے۔ اس کی سب سے تازہ مثال جمعرات (17جون) کو تین نوجوان جہد کاروں کی ایک سال تک غیر منصفانہ قید وبند کے بعد ضمانت پر رہائی ہے۔ ان رہائی پانے والوں میں دو جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی دو خواتین اور جامعہ ملیہ کا ایک طالب علم شامل ہے۔ آزادی کی اس غیر ضروری اور جارحانہ محرومی کا مداوا کرنے کون جارہا ہے، اس تعلق سے کوئی بھی قیاس لگا سکتا ہے لیکن دلی پولیس کی جبری کارروائی اور غلط وفاداری کے بارے میں ہائیکورٹ نے جو کچھ کہا ہے وہ اس مضمون کا اصل موضوع ہے۔
اپنی بات کو مدلل کرتے ہوئے جسٹس سدھارتھ مریدول اور انوپ بمبھانی کی ڈیویژن بنچ نے جو کچھ کہا ہے وہ یوں ہے۔ ’’پرامن احتجاج کرنا حق ہے، یہ کوئی دہشت گردانہ اقدام نہیں ہے۔ یہ ہر پولیس عہدیدار اپنی ٹریننگ کے دوران سیکھتا ہے۔ دلی پولیس کس طرح دستور کی رو سے شہریوں کو دیے گئے حقوق سے اچانک بے خبر ہو سکتی ہے؟‘‘۔
اصل اشتعال انگیزی کرنے والے نظر انداز
ایک سال قبل میں نے نوجوان طالب علموں کی گرفتاری کی دلی پولیس سربراہ کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے شخصی طور پر انہیں مخاطب کرتے ہوئے ایک مکتوب روانہ کیا تھا۔ ان نوجوانوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف متعارف کردہ امتیاز پر مبنی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ میں نے شمال مشرقی دلی میں گزشتہ سال فسادات پر اکسانے والے حقیقی اشرار پر گرفت نہ کرنے کے ان کے ارادے پر بھی تنقید کی تھی۔ حالانکہ اشتعال دلانے والے لوگ اپنے حامیوں کو احتجاجیوں کے قتل پر تک اکساتے ہوئے ٹیلی ویژن پر دیکھے گئے تھے۔
پولیس کمشنر نے تو اپنے سیاسی آقاوں کی ایما پر یا ان سے قربت پانے کی چاہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے تین قائدین کو چھوڑ دیا تھا جن میں سے ایک مملکتی وزیر ہے لیکن ان کے بجائے تین بے قصور نوجوان طلبہ بشمول بعض مسلم خواتین کو گرفتار کرلیا جو شاہین باغ کے پڑوس میں ایک پرامن دھرنے پر بیٹھی تھیں۔ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے کئی دن تک عوامی شاہراہ پر قبضہ کیا جس کے سبب عوام کو آمد ورفت میں زحمت ہوئی لیکن اس کا حل یہ نہیں تھا کہ انسداد غیر قانونی سرگرمیوں (یو اے پی اے) جیسے سخت قانون کا استعمال کیا جائے جس میں ضمانت پر رہائی ممنوع ہے۔ اس کے بجائے وہ خاتون پولیس کی مدد سے دھرنے کے مقام کو خالی کرواسکتے تھے۔
ججس نے مزید کہا ’’ہمارے ملک کی بنیادیں طالب علموں کے ہلانے سے متزلزل ہونے سے کہیں زیادہ مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہیں‘‘۔ پولیس کمشنر کو اس منطق کا علم تھا جب انہوں نے یو اے پی اے کے تحت نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا لیکن واضح طور پر انہوں نے دستور پر لیے جانے والے اپنے حلف کی پاسداری کرنے کی بجائے حکمرانوں سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کو پسند کیا۔ مملکتی وزیر فینانس انوراگ ٹھاکر نے یہ کہتے ہوئے بھیڑ کی قیادت کی تھی کہ ’’گولی مارو غداروں کو‘‘۔ اس وقت جب میں کمشنر ایس این سریواستو سے برسر پیکار ہوا تھا تب میرے کئی سابق ساتھیوں نے برسر عام ان کے اقدامات کا دفاع کیا۔ کچھ رحم کھاتے ہوئے دلی ہائیکورٹ کے ججس نے اس سے کچھ مختلف کیا۔ انصاف کسی نظریہ کی پیروی نہیں کرتا‘ یہ مذہب، ذات پات، طبقاتی اور معاشی یا معاشرتی مقام سے بالاتر ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ نظریہ سے بالکل بیگانہ ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ حالیہ واحد فیصلہ نہیں ہے جس نے انصاف کے متلاشیوں کو متحرک کیا ہو۔ لکشدیپ کی فلمساز عائشہ سلطانہ کو کیرالا ہائیکورٹ کی جانب سے پیشگی ضمانت دینے کا حکم بھی اس کی ایک اور تازہ مثال ہے۔ عائشہ پر غداری کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ لکشدیپ کی اس نوجوان خاتون کو ان جزائر کے 60 ہزار رہائشیوں کی آزادی پر حملہ نے مشتعل کردیا۔ ایک ایسی آزادی جس کا لطف جزیرے کے لوگ صدیوں سے اٹھاتے آئے ہیں اور اس علاقے کو سیاحتی مقام میں تبدیل کرنے کے لیے اب ان پر ایک ایڈمنسٹریٹر کو خاص طور پر چنا گیا ہے۔ اپنی تیز وتند تنقید کے دوران عائشہ سلطانہ نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر نے پر امن لوگوں پرحیاتی اسلحہ (بائیو ویپن) فائر کیا ہے۔ بس یہی وہ ریمارک تھا جس نے غداری کے الزام کو دعوت دی۔
ایڈمنسٹریٹر کی طرف سے مسلط فیصلوں کی توجیہ ’’بائیو ہتھیاروں‘‘ کے طور پر کرنے کا سخت نوٹ لیتے ہوئے انہوں نے لکشدیپ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی لیڈر کو اس نوجوان خاتون کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر مجبور کیا۔ اس پر جس رفتار سے عدالت حرکت میں آئی ہے میں اس کی تشریح ’’رمنا کا اثر‘‘ کے طور پر کرنا چاہوں گا۔
آتش مزاج جبلت
دلی کے تین جہدکاروں کو ضمانت منظور کرنے کے ہائی کورٹ کے معقول حکم پر دلی پولیس کے غیر حساس رد عمل نے پچھلے کچھ سالوں میں دہلی پولیس کی کارروائیوں میں نظر آنے والی ایک آتش مزاج جبلت کو اجاگر کر دیا ہے۔ دہلی پولیس نے فی الواقع اپنے طریقہ کار سے ہٹ کر ان خاص وجوہات پر تین نوجوان جہدکاروں کی رہائی میں ٹال مٹول کیا کہ انہیں ملزمین کے پتے اور آدھار کارڈ اور ان کی ضمانتوں کی تصدیق کے لیے تین دن کی ضرورت ہے۔
’’ضمانت نہ کہ جیل‘‘ اس اصطلاح کا اعلان سب سے پہلے مشہور جج، جسٹس وی آر کرشنا ایئر نے کیا جو میرے سینئر آئی پی ساتھی، تمل ناڈو کیڈر کے وی لکشمی نارائن کے چھوٹے بھائی تھے جنہوں نے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے جوائنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے امتیازی خدمات انجام دیں۔عدالتی نظام کے مشاہدین پر یہ بات عیاں ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران گرفتاری اور مقدمے کی سماعت کے طریقہ کار کو ہی عملاً سزا میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں حالاں کہ وہ خوب واقف ہوتے ہیں کہ ان مقدمات کی کوئی ٹانگیں نہیں ہوتیں جن پر وہ ٹک سکیں۔ تکلیف دہ ثابت ہونے والے جہدکاروں کو ان جرائم کے لیے جن کا انہوں نے ارتکاب نہیں کیا تھا اور نہ ہی حقیقت میں ان کے ارتکاب کا کوئی ارادہ رکھتے تھے، برسہا برس تک انہیں قید میں رکھنا ایک انتہائی شیطانی حرکت ہے۔ ان یادوں کو پھر سے تازہ کرتے ہوئے جو خوش قسمتی سے مجھے کئی سال قبل ایک نامور منصف کے ساتھ گزرنے والے لمحات سے وابستہ ہیں، میں ان کے بڑے بھائی کے لیے حد درجہ عقیدت میں محو ہو جاتا ہے جن کی دیانت داری وایمانداری کا وہ اپنی گفتگو میں پر زور انداز سے ذکر کیا کرتا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ اگر لکشمی نارائن اب دہلی کے پولیس کمشنر ہوتے تو دہلی میں ہونے والے تشدد کے اصل مجرم اتنی آسانی سے چھوٹ نہیں جاتے اور ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ جہد کاروں کے گروپ کے ذریعہ بدلا نہیں دیا جاتا۔
(بشکریہ: اسکرال اِن 19جون2021)
(جولیو ربیرو بطور پولیس افسر متعدد اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور وہ رومانیہ میں ہندوستان کے سفیر بھی رہے ہیں)
***
عدالتی نظام کے مشاہدین پر یہ بات عیاں ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران گرفتاری اور مقدمے کی سماعت کے طریقہ کار کو ہی عملاً سزا میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں حالاں کہ وہ خوب واقف ہوتے ہیں کہ ان مقدمات کی کوئی ٹانگیں نہیں ہوتیں جن پر وہ ٹک سکیں۔ تکلیف دہ ثابت ہونے والے جہدکاروں کو ان جرائم کے لیے جن کا انہوں نے ارتکاب نہیں کیا تھا اور نہ ہی حقیقت میں ان کے ارتکاب کا کوئی ارادہ رکھتے تھے، برسہا برس تک انہیں قید میں رکھنا ایک انتہائی شیطانی حرکت ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021