دلی تشدد ایک منصوبہ بند سازش کا نتیجہ
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل جناب اے رحمان کا ہفت روزہ دعوت کو انٹرویو
عرفان وحید
–
دلی کے حالیہ فسادات کے تناظر میں عرفان وحید نے ہفت روزہ دعوت کے لیے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور معروف صاحب اسلوب کالم نگار جناب اے رحمان سے پولیس کی نا اہلی، موجودہ صورت حال اور مختلف قانونی پہلووں کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی۔ جناب اے رحمان درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں اور ان دنوں شہریت ترمیمی قانون پر ایک نہایت علمی کتاب مرتب کر رہے ہیں، جس میں وہ اس سیاہ قانون کی غیر آئینی حیثیت کو واضح کریں گے۔ موصوف حالیہ دلی تشدد کے معاملے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس اہم گفتگو کے چند اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
سوال: دلی میں حالیہ فسادات کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں۔
جواب: ایک بات تو پوری طرح ثابت ہوچکی ہے کہ یہ فساد نہیں بلکہ ایک حملہ تھا۔ جب آپ لفظ ’فساد’ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دو ایسے فریق ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں، جو ایک دوسرے سے بغض رکھتے ہیں اور دونوں لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ابتدا کسی ایک فریق کی جانب سے ہوتی ہے اور پھر فساد ایک جھگڑے کی صورت میں پھوٹ پڑتا ہے۔ یہاں صورتِ حال مختلف ہے۔ حملے کے خدشے سے قطعی انجان (unsuspecting) مسلمانوں پر دلی کے مصطفی آباد اور نند نگری کے درمیانی علاقے میں اس طرح حملہ ہوا کہ لوگ شام کے وقت اپنے کاموں سے فارغ ہوکر گھروں کو جا رہے تھے، ان کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہےاور اچانک راستے میں ان پر حملہ کردیا گیا۔ یہیں سے تشدد کی ابتدا ہوئی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی پرنٹ میڈیا میں وسیع کوریج کے ساتھ پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ بیشتر حملہ آور دلی سے باہر کے لوگ تھے۔ اگرچہ بعض لوگ مقامی بھی تھے، جو بہت ہی نچلی سطح کے جرائم پیشہ لوگ تھے، تاہم وہ بعد میں شامل ہوئے۔
سوال: اس حملے میں ریاست اور پولیس کی نااہلی بھی سامنے آئی ہے۔
یہ بات طے ہے کہ ابتدائی حملہ آور باہر سے آنے والے لوگ تھے، وہ پوری طرح مسلح تھے، ان کے پاس دھاردار ہتھیار اور آتشیں اسلحے تھے۔ اس اسلحے کے بارے میں بھی خاصی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ این ڈی ٹی وی کے رویش کمار نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے کہ ان لوگوں کے پاس آتشیں اسلحہ کہاں سے آیا، بندوقیں کہاں سے آئیں۔ ان تمام چیزوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اسٹیٹ اسپانسرڈ حملہ تھا۔ اس کا ایک بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ تین دن تک قتل و غارت گری ہوتی رہی، مسجدیں، دوکانیں، مسلمانوں کے گھر چن چن کر نذر آتش کیے جاتے رہے، ان کے کاروباری مراکز کو آگ لگائی گئی، لیکن پولیس نے کچھ نہیں کیا۔
پولیس کی اتنی بڑی بے عملی صرف حکومت ہی کے اشارے پر ہوسکتی ہے کہ وہ پولیس کنٹرول روم سے مانگی ہوئی مدد کے جواب میں بھی نہ آئیں، وہ موقعے پر موجود رہیں ان کی آنکھوں کے سامنے قتل و غارت گری ہوتی رہے اور وہ کچھ نہ کریں یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت یا حکام بالا نے انھیں اس کی اجازت دے رکھی ہو یا انھیں بے عمل رہنے کی تاکید کر رکھی ہو۔
سوال: ایسے معاملات میں پولیس کے متعلقہ رولز کیا کہتے ہیں؟
اس میں رولز کا سوال نہیں ہے بلکہ قانون کا سوال ہے۔ قانونی طور پر دو طرح کے جرائم ہوتے ہیں۔ ایک ناقابلِ دست اندازی پولیس (non-cognizable) اور دوسرا قابل دست اندازیِ پولیس (cognizable)۔ قابل دست اندازیِ پولیس جرم وہ ہوتا ہے جس میں پولیس کو مجرم کو موقعے پر گرفتار کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ پولیس کی موجودگی میں قابلِ دست اندازی پولیس جرم کا ارتکاب کیا جاسکے، مثلاً کوئی شخص دوسرے کا سر پھاڑدے جو قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے۔ پولیس کا اولین فرض انسداد جرم ہے کہ جرم کو ہونے سے روکیں۔ اگر ان کے سامنے ہو رہا ہے تو جس حد تک روک سکتے ہیں روکیں، اور اگر ہوچکا ہو تو جس شخص نے اس کا ارتکاب کیا ہے اسے پکڑیں اور قانون کے حوالے کردیں، یعنی اس پر فرد جرم عائد ہو، مقدمہ چلے اور عدالت اپنا کام کرے۔
سوال: پولیس کے اپنے فرض سے غفلت برتنے کی کیا وجہ رہی ہوگی؟ کیا اس بات کا امکان موجود ہے کہ راست حکام بالا نے انھیں کارروائی سے روکا ہو؟
اگر کہیں پر بھی پولیس اپنا بنیادی فرض ادا نہیں کر رہی تو اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ حکومت کا اس سلسلے میں جو کردار ہے وہ اسی بات سے ثابت ہوجاتا ہے کہ کسی بھی علاقے میں جہاں دنگے ہوئے، مسلمانوں کے ساتھ تشدد ہوا، وہاں کہیں پر بھی پولیس نے ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جو یہ سب کچھ مسلمانوں کے خلاف کر رہے تھے یا باہر سے کرنے آئے تھے۔ حکومت کے ذریعے اعانت جرم کا ثبوت یہ بھی ہے کہ دلی جو راجدھانی ہے، یہاں لا اینڈ آرڈر کے نقطہ نظر سے بہت زیادہ سختی برتی جاتی ہے، درجنوں انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں جن کے مخبروں کا کام ہی یہ ہے کہ وہ مجرموں اور سیاسی لوگوں کی ایسی نقل و حرکت پر نظر رکھیں جن سے کسی قسم کے جھگڑے، فساد یا جرم کے ارتکاب کا امکان پایا جاتا ہو۔ اگر آپ اس بات کو تسلیم کرلیں کہ باہر سے مسلح لوگ آئے تھے، تو آپ کو دو میں سے ایک پوزیشن تسلیم کرنی پڑے گی۔ پہلی یہ کہ ان خفیہ ایجنسیوں کو خبر نہیں ہوئی جن کا کام ہی ان حرکتوں پر نظر رکھنا ہے۔ اسے انٹیلی جنس کی ناکامی کہتے ہیں، جو کسی بھی حکومت کے لیے بڑی شرمناک بات ہے۔ دوسری: اگر آپ کہتے ہیں کہ خفیہ ایجنسیوں کے علم میں یہ بات پہلے سے تھی تو اس کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حکومت کی طرف سے اس بات کی ہدایات تھیں کہ کوئی کارروائی نہ کی جائے۔
سوال: اس تشدد میں بعض لوگوں کے کاغذات تلف ہوگئے ہیں؟ کچھ لوگوں کے مکانات اور املاک پر قبضہ کرلیا گیا؟ ایسے بھی واقعات سامنے آرہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اعلان شدہ معاوضے کے حصول کی شرائط پوری کرنے کے لیے پولیس کی ایف آئی آر کی نقل کی ضرورت ہے۔ لیکن پولیس متاثرین کی ایف آئی آر درج نہیں کر رہی ہے۔
پولیس کی کسی بھی زیادتی یا غفلت کے خلاف آپ صرف عدالت میں جاسکتے ہیں۔ حکومت اپنی پولیس کے خلاف ایکشن نہیں لیتی ہے۔ اگر کسی قابلِ دست اندازی پولیس جرم میں پولیس کارروائی نہ کرے تو ضابطہ فوج داری کی دفعہ 156 (3) کے تحت عدالت میں درخواست دے سکتے ہیں اور عدالت پولیس کو حکم دیتی ہے کہ شکایت درج کرے۔ حالانکہ یہ عمل طولانی ہے، لیکن اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں۔جہاں تک کاغذات کے تلف ہونے کا سوال ہے تو بعض چیزیں ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر ملکیت کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے وکیلوں کی کوئی ٹیم مضبوط طریقے سے کام کرے۔ میرا ایسا کرنے کا ارادہ ہے، اگر اللہ کی مدد اور توفیق شامل حال رہے۔
بعض کاغذات مثلاً بجلی، گیس، کرایے کی رسید وغیرہ اس سلسلے میں کام آسکتے ہیں۔ یا ایسے کاغذات جن کی نقل دوبارہ مل سکے مثلاً گھر کی رجسٹری وغیرہ۔ انھیں حاصل کرکے پولیس اور عدالت سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن علاقوں میں پرتشدد حملہ ہوا وہ زیادہ تر کچی کالونیاں (unauthorized colonies) ہیں۔ حملہ آور جانتے تھے کہ یہاں بیشتر جائیدادیں جنرل پاور آف اٹارنی پر ہیں۔ اور اگر وہ رجسٹر شدہ بھی ہوں تب بھی ان کا نکلوانا مشکل ہوتا ہے۔ خیر، رجسٹرڈ پاور آف اٹارنی تو پھر بھی مل جائے گی، لیکن جو تصدیق شدہ پاور آف اٹارنیاں ہوتی ہیں ان کی نقلیں کہاں سے ملیں گی؟ ان کا کہیں بھی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ تو اس حوالے سے کرائے کی رسیدوں یا بجلی، پانی کے بلوں سے ملکیت ثابت کرنی پڑے گی۔
اس کے علاوہ ثانوی حیثیت کے شواہد مثلاً گواہوں کے بیانات، پڑوسیوں کے بیانات، یا تھانے یا کسی دیگر سرکاری دفتر میں اندراج کی بنیاد پر، یا آدھار کارڈ کی بنیاد پر، جو بیشتر لوگوں کے پاس ہوتا ہے، ملکیت ثابت کی جاسکتی ہے۔ اگر پولیس مدد نہ کرے تو پھر عدالت میں جانا پڑے گا۔
سوال: دلی پولیس نے تشدد فرو ہونے کے بعد ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور ان کے خلاف سیکڑوںایف آئی آر درج کی ہیں۔ اس پر حکومت ان کی خوب پیٹھ تھپتھپا رہی ہے۔ اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
یہاں ایک دوسرا پہلو سامنے آتا ہے۔ جب پولیس نے کارروائی کرنا شروع کی تو انھوں نے چھ گھنٹے کے اندر سیکڑوں ایف آئی آر درج کرکے ایک ہزار سے زیادہ گرفتاریاں کرلیں۔ اس سلسلے میں قانون کیا کہتا ہے؟ قانون یہ کہتا ہے—اور اس پر سپریم کورٹ کے نظائر بھی موجود ہیں—کہ پولیس کو جب کسی جرم کی اطلاع ملے تو ابتدائی تفتیش عمل میں لائے۔ اگر اس ابتدائی تفتیش میں ملزم کے خلاف کم از کم سرسری طور پر شواہد مل جائیں یا تفتیش کے نتیجے میں پولیس وثوق سے یہ نتیجہ نکال لے کہ اسی شخص نے جرم کا ارتکاب کیا ہے تب وہ اسے گرفتار کرسکتی ہے۔ ایسے شواہد کو ثبوت قابلِ گرفتاریِ ملزم (arrestable evidence) کہتے ہیں۔
عدالت عظمی نے یہ ضابطہ دیا ہے کہ کسی بھی مقدمے کے درج ہوتے ہی ضروری نہیں کہ پولیس کے پاس گرفتار کرنے کا اختیار آگیا یا وہ گرفتار کر بھی لے، بلکہ پولیس اسی صورت میں گرفتار کرسکتی ہے جب شکایت سے متعلق تفتیش کرنے کے بعد پولیس کے پاس اس شخص کے خلاف تھوڑے بہت ثبوت (circumstantial evidences) ایسے ہوجائیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہو کہ اسی شخص نے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ دلی تشدد کے معاملے میں اتنی ساری ایف آئی آر درج کرلینا، اور فوری طور پر ان ایف آئی آر کے بعد ایک ہزار سے زیادہ گرفتاریاں کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ میرے یہ بھی علم میں ہے کہ بیشتر گرفتاریوں میں، بلکہ انکت شرما کی ایف آئی آر کے علاوہ کوئی ایف آر آئی نامزد نہیں ہے۔ اب تک 56 سے زیادہ لاشیں برآمد ہوچکی ہیں اور ان 56 معاملات میں سوائے انکت شرما، جس میں شکایت کنندہ نے طاہر حسین کا نام لیا ہے، اسی لیے طاہر کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ یہ بحث الگ ہے کہ پولیس نے کس بنیاد پر طاہر کو گرفتار کیا۔ دیگر کسی بھی معاملے میں آیف آئی آر آئی نامزد نہیں کی گئی ہے۔
سوال: آپ فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں ایک پیٹرن کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ پیٹرن کیا ہے؟
آزادی کے بعد جتنے فسادات آج تک ہوئے ہیں ان سب کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجیے۔ میں نے تفصیل سے ہر فساد کے بعد کی انکوائری کمیشنوں کی رپورٹیں پڑھیں ہیں، ان کی سفارشات پڑھی ہیں جن پر حکومتیں کبھی عمل نہیں کرتیں۔ اس کے بعد جو مقدمات چلے ہیں، ان کی کارروائی کو بنظرِغائر دیکھا ہے۔ کسی قصور وار کو سزا نہیں ملی۔ اگر وہ گرفتار بھی ہوئے تو بعد میں چھوٹ گئے۔ عموماً ان لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اور عدالت میں ان کے خلاف جرم ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تو یہ پیٹرن ہے۔ آر ایس ایس والوں کا ایجنڈا ہوتا ہے کہ پہلے مسلمانوں کو فسادات میں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچاو، انھیں قتل کرو، ان کے کاروبار کو نقصان پہنچاو۔ اس کے بعد فسادات فرو ہونے کے بعد ان لوگوں کو دس پندرہ سال کے لیے مقدمات میں الجھادو۔ یہ جو غیر نامزد ایف آئی آر درج کی جاتی ہیں ان کا پولیس اس طریقے سے فائدہ اٹھاتی ہے کہ جسے چاہیں اسے معاملوں سے نتھی کرکے مقدموں میں الجھادے۔
عام آدمی پارٹی سے ایک مسلم رکن اسمبلی طاہر حسین کے معاملے میں ہر حرکت کو میڈیا میں بہت پراجکٹ کیا گیا۔ لیکن باقی 55 مقتول، خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان، کیا وہ اتنے غیر اہم تھے کہ ان کے بارے میں کچھ نہ بتائیں؟ یہ بھی اسی پیٹرن بلکہ سازش کا حصہ ہے کہ جتنے مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ان میں سے کسی کا نام سامنے نہیں لایا گیا۔ کوئی فہرست ایسی نہیں جاری کی گئی جس میں پولیس بتائے کہ اب ہم نے ایکشن شروع کیا ہے اور فلاں فلاں لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ یہ بالکل غیر قانونی ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ جب پولیس کسی کو گرفتار کرے تو اسے گرفتاری کی وجہ بتائی جائے، اسے معاملے کی تفصیل بتائی جائے، اور اسے ایک فون کرنے کی اجازت دی جائے۔ ان گرفتاریوں کے سلسلے میں ان میں سے کسی بھی ہدایت پر عمل نہیں کیا گیا۔
سوال: تو ان حالات میں انھیں قانونی مدد کیسے فراہم کی جائے؟
میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس پیٹرن کو توڑا جائے کہ پہلے مسلمانوں کو ہر طریقے سے نقصان پہنچاو، پھر انھیں جھوٹے مقدموں میں پھانس دو۔ میں ان تمام ایف آئی آر کی نقلیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جو قتل اور اسلحہ ایکٹ کے تحت درج ہوئی ہیں۔ یہ بات میڈیا میں کھل کر سامنے آچکی ہے کہ دلی تشدد میں آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا۔ پولیس نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی بیان نہیں دیا کہ وہ اتشیں اسلحہ آیا کہاں سے تھا۔ اب اس میں کیا یہ جاسکتا ہے کہ اتنی بڑی غیر قانونی کارروائی جو پولیس نے کی ہے، وہ تمام مقدمات جن میں مسلمان گرفتار ہوئے، ان کی تفصیلات حاصل کی جائیں۔ دو دن پہلے برندا کرات نے ایک پٹیشن لگائی تھی کہ عدالت پولیس کو حکم دے کہ گرفتار شدگان کی فہرست دے۔ جبکہ یہ بتانا سپریم کرٹ کی ہدایات کی رو سے پولیس پر فرض ہے۔ تو یہاں جو کچھ ہو رہا ہے بالکل اندھیر نگری ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ڈھائی ہزار لوگ جنھیں گرفتار کیا گیا ہے، ان میں سے ننانوے فیصد مسلمان ہیں۔ جو کچھ ہوا وہ بہت افسوس ناک تھا۔ منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کے خلاف ہوا۔ لیکن اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑادینےکے مترادف ہے۔ کوئی کام قانون کے مطابق نہیں کیا جارہا ہے۔ جب تفصیلات ہمارے علم میں آئیں گی تو ہم دیکھیں کہ کون سی گرفتاری کن حالات میں کی گئی۔ آیا وہ حق بجانب تھی، اور سب سے بڑا سوال یہ کہ گرفتاریوں کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے رہ نما خطوط پر—جو ہر تھانے میں بورڈ پر آویزاں ہوتے ہیں—کسی ایک ہدایت پر بھی عمل نہیں ہوا۔ ورنہ کیا یہ ممکن تھا کہ ان لوگوں کی فہرست بھی سامنے نہ آتی جو گرفتار ہوئے؟
سوال: تو آپ کے نزدیک یہ بات طے ہے کہ اس پیٹرن پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں پر مقدمے چلیں گے؟
ہماری کوشش تو یہی ہوگی کہ یہ مقدمے چلنے نہ پائیں۔ ہم ان کی تفصیلات حاصل کرکے ہائی کورٹ میں جائیں گے۔ ہائی کورٹ کو اختیار ہوتا ہے کہ کسی بھی ایف آئی آر کو مسترد کردے۔ جب ذرا مضبوطی سے، متحد ہوکر یہ کام کیا جائے گا تو عدالت کو سننا پڑےگا۔ بنیادی کام اس پیٹرن کو توڑنا ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔
سوال: اس میں کتنا وقت لگے گا؟
دیکھیے یہ بات طے ہے کہ نناوے فیصد جھوٹے مقدمے مسلمانوں کے خلاف ہی بنیں گے۔ جس طریقے سے انھوں نے ایف آئی آر درج کی ہیں، اس سے یہی اشارہ ملتا ہے۔ چند گھنٹوں میں کسی نے کیا تفتیش کی ہوگی؟ ان تمام مقدمات میں جعلی ثبوت و شواہد بنائے جائیں گے اور اچھے وکیلوں کے لیے ان جعلی شواہد کو چیلنج کرنا بڑا آسان ہوتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے حتمی بات تبھی کہی جاسکتی ہے جب تمام مقدموں کی تفاصیل ہمارے پاس آجائیں گی۔
سوال: ملی تنظیموں کو اس سلسلے میں کن محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے؟
ریلیف کے کام کے علاوہ، ملی تنظیموں کو تفصیلات جمع کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔ کس کا کتنا نقصان ہوا، کس کی جان گئی، کس کے خلاف مقدمہ ہوا، کس چیز کا مقدمہ ہوا۔ ان تمام تفاصیل کی روشنی میں آگے کی حکمت عملی پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ ملی تنظیمیں حکومت پر دباو ڈالیں، وکیلوں کی ٹیمیں ترتیب دیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی فرد واحد کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے اجتماعی کوششیں درکار ہوں گی۔