دلی اقلیتی کمیشن کے صدر کی رہائش گاہ پر پولیس کے پہنچنے پر عوام برہم

تحریری حکم کے بغیر تفیش کے لیے طلبی۔امیرجماعت اسلامی ہند کا گھر پہنچ کر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان سے اظہار یکجہتی

دعوت نیوز نیٹ ورک

لاک ڈاؤن کے دوران بدھ کی شام ایک بار پھر دلی پولیس کا اقلیت مخالف چہرہ سامنے آیا۔ ’افطار‘ سے ٹھیک آدھا گھنٹہ قبل دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کی 40 رکنی ٹیم دلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے گھر پہنچی۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہ ڈاکٹر خان کو تحویل میں لینے کے لیے آئی تھی، لیکن اوکھلا کے موجودہ ایم ایل اے امانت اللہ خان اور سابق ایم ایل اے آصف محمد خان سمیت متعدد مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈاکٹر خان کی حمایت میں ان کے گھر کے باہر جمع ہو گئی، اس وجہ سے دلی پولیس اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکی اور اسے واپس لوٹنا پڑا۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے اہل خانہ کے مطابق، انہوں نے ڈاکٹر خان سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ چلیں کیونکہ ان کے خلاف درج کردہ مقدمے کے سلسلے میں پوچھ تاچھ کرنی ہے۔
دلی پولیس کے اسپیشل سیل کے ان پولیس افسران نے ڈاکٹر خان سے ڈیڑھ گھنٹے تک مختلف امور پر بات کی اور پیر کو ڈاکٹر خان کو اپنے دفتر میں پھر سے پوچھ تاچھ کے لیے بلایا ہے۔ حالانکہ اس کے لیے کوئی تحریری حکم نہیں دیا ہے محض زبانی طور پر کہا ہے۔
غور طلب ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان جامعہ نگر میں ابوالفضل انکلیو کے ڈی بلاک میں 35 سالوں سے مقیم ہیں۔ گزشتہ دنوں ٹویٹر پر اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے کویت کے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے پر شکریہ ادا کیا تھا۔ ان کی اس ٹویٹ کی وجہ سے ان پر تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے (بغاوت) اور 153 اے (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینا اور ہم آہنگی کو بگاڑنے کی نیت سے اقدام کرنا) کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔ یہ مقدمہ وسنت کنج تھانے میں Youth for Equality نامی تنظیم کے صدر کوشل کانت مشرا نے درج کرایا تھا جسے بعد میں دلی پولیس کے انسداد دہشت گردی دستہ کے اسپیشل سیل میں منتقل کر دیا گیا۔ کوشل کانت مشرا کے اس سنگٹھن کو بی جے پی اور آر ایس ایس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ۔ بی جے پی کے نوجوانوں کا یہ سنگٹھن AIIMS میں ریزرویشن مخالف تحریک چلانے کے لیے بنایا گیا تھا۔
اس پورے معاملے میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی وکیل ورندا گروور نے بتایا، ’قانون کے مطابق پولیس ڈاکٹر خان کو پوچھ تاچھ کے لیے تھانہ چلنے پر مجبور نہیں کر سکتی، کیونکہ ان کی عمر 65 سال سے زیادہ ہے۔ انہوں نے مزید بتایا ’’ڈاکٹر خان کے وکیل کی حیثیت سے میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ قانون کے تحت آپ انہیں تھانہ چلنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ یہ سی آر پی سی کی دفعہ 160 کی خلاف ورزی ہوگی اور میرے مؤکل کے حقوق کے خلاف غیر قانونی پولیس کارروائی کے مترادف ہوگی۔‘‘
گروور کے مطابق، پولیس نے ڈاکٹر خان کو کوئی قانونی نوٹس جاری نہیں کیا ہے، جب کہ اس کے لیے بار بار کہا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ گروور مانتی ہیں کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام کے خلاف ملک سے غداری کا یہ مقدمہ عدالت میں قائم نہیں ہو پائے گا اور پولیس کو منھ کی کھانی ہوگی۔
اس سے قبل ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے بھی دہلی پولیس کےسائبر سیل (دوارکا) کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ وہ 72 سال کی عمر والے ایک بزرگ شہری ہیں اور کوویڈ-19 کے مد نظر اس وقت نافذ لاک ڈاؤن کے دوران پولیس تھانے میں حاضری دینا ان کے لیے جوکھم بھرا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دن کے وقت اپنے گھر پر کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لیے موجود ہیں۔
انہوں نے اپنے خط میں مزید کہا ہے ’’میں ایک سرکاری ملازم اور ایک قانونی ادارہ، دہلی اقلیتی کمیشن کا چیئرمین ہوں۔ میری عمر 72 سال ہے اور میں دل کی بیماری اور بڑھاپے میں ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہوں، جس کی وجہ سے مجھے کوویڈ۔19 انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہے۔‘‘
پولیس کے ذریعے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو پریشان کیے جانے اور ڈرائے جانے کی اس کارروائی کی ہر طرف سے مذمت ہو رہی ہے۔ اس موقع پر اوکھلا کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان بھی موجود تھے۔ انہوں نے دلی پولیس کی اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی قیمت پر دلی پولیس کو غیر قانونی کارروائی کرنے نہیں دیں گے۔ اوکھلا کے سابق رکن اسمبلی آصف محمد خان بھی اس موقع پر موجود تھے انہوں نے بھی پولیس کی اس کارروائی کی سخت مخالفت کی۔ علاقے میں اس معاملے پر مقامی عوام میں بھی شدید غصہ پایا جاتا ہے۔پولیس کی اس کارروائی کے فوراً بعد جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی اور نائب امیر جماعت سلیم انجینئر نے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی رہائش گاہ پہنچ کر ان سے ملاقات کی اور صاف لفظوں میں کہا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔
نائب امیر جماعت سلیم انجینئر نے کہا کہ یہ ظفرالاسلام خان پر نہیں، پوری قوم پر حملہ ہے۔انہوں نے کہا یہ سب کچھ حکومت ہند کے وزرات داخلہ کے اشارے پر ہو رہا ہے کیونکہ دہلی پولیس ان کے تحت آتی ہے، جس کا وہ استعمال کر رہی ہے۔ اور شاید وزیر داخلہ ملک کے تمام مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو کوئی بھی حکومت کے خلاف بولے گا یا ان کی کمیوں کی طرف اشارہ کرے گا یا ان کی غلطیوں پر آواز اٹھائے گا، اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور اسے ہر طرح سے ہراساں وپریشان کیا جائے گا۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے نیشنل سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا ہے کہ مجھے حیرت ہے کہ یہی دہلی پولیس پرویش ورما کے خلاف کارروائی نہیں کرتی، لیکن اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کو گرفتار کرنے ان کے گھر پہنچ جاتی ہے۔ یہ دہلی پولیس کا ’سیلیکٹو اپروچ ‘ ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے قومی صدر نوید حامد نے بھی دلی پولیس کی اس کارروائی کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ، دلی پولیس نے ایک بار پھر اپنے متعصب چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ افطار سے قبل ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے گھر پر پولیس کے چھاپے کی میں شدید مذمت کرتا ہوں۔
ایس آئی او، دلی کے صدر ابوالاعلیٰ سبحانی نے کہا کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو دھمکانے کی دلی پولیس کی کوشش اشتعال انگیز ہے۔ دراصل پولیس بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ان کے گھر پہنچی گئی اور انہیں تفتیش کے لیے نظر بند کرنے اور ان کا ذاتی سامان ضبط کرنے کی کوشش کی۔ ایس آئی او پولیس کے اس کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور ہم اس مطالبے کو دہراتے ہیں کہ ان کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کو ختم کیا جائے۔ ابو الاعلیٰ سبحانی نے کہا، دلی پولیس کو مسلم کمیونٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو نشانہ بناکر کی جانے والی کارروائی روکنی ہوگی۔ دہلی یونیورسٹی کے فیکلٹی ڈاکٹر جسیم الدین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں ایک سنجیدہ اور صاف ستھری شبیہ کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنے قرطاس وقلم کا استعمال ہمیشہ ملک وقوم کی خدمت کے لیے کیا ہے اس لیے ان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے خلاف نہیں بلکہ ان کے خلاف کارروائی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ سراسر انصاف کا خون ہے۔ اس ملک کا عدالتی نظام بھروسہ مند رہا ہے یہی اس ملک کا امتیاز ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ یہاں کے عدالتی نظام کو سبوتاژ ہونے سے بچاتے ہوئے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے خلاف لگائی گئیں دفعات کو واپس لے اور انہیں بے جا طور پر خوف وہراس میں ڈالنے سے باز آئے۔اتر پردیش کانگریس اقلیتی سیل کے چیئرمین شہنواز عالم نے ایک بیان میں کہا کہ دلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف مقدمہ، ان کے ذریعہ دلی میں ہوئے فسادات میں پولیس کے مبینہ کردار کو اجاگر کرنے کے پاداش میں ہراسانی کی ایک سعی ہے۔
اس سے قبل ملک کی سرکردہ شخصیات نے بھی ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مبینہ کردار کشی کی سخت مذمت کی ہے۔ متعدد ملی دانشوروں، علماء اور اہم شخصیات نے ڈاکٹر خان کی حمایت میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلامی اسکالر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی پوری زندگی ملک وملت کی خدمت سے عبارت ہے، ان کے خلاف ملک دشمنی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرنا قطعی ناقابل فہم ہے۔ اس مشترکہ بیان پر دستخط کرنے والوں میں محمدادیب (سابق ممبر پارلیمنٹ)، مولانا انیس الرحمن قاسمی (سابق ناظم امارت شرعیہ بہار واڑیسہ)، پروفیسر اختر الواسع (صدر مولانا آزادیونیورسٹی، جودھپور)، ڈاکٹر قاسم رسول الیاس (صدر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا)، پروفیسر محسن عثمانی ندوی (صدر مولاناعلی میاں ویلفیئر بورڈ)، مفتی عطاالرحمن قاسمی (سابق رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)، معصوم مرادآبادی (سکریٹری آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس)، پروفیسر علی جاوید (سابق استاد شعبہ اردوہلی یونیورسٹی)، انیس درانی (کالم نگار)، نیلوفر سہروردی (کالم نگار)، زیڈ کے فیضان (ایڈووکیٹ سپریم کورٹ) ودیگر شامل ہیں۔ دستخط کنندگان نے اپنے بیان میں واضح لفظوں میں کہا کہ ہم حکومت اور متعلقہ اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے خلاف جاری ’منافرانہ‘ مہم پر لگام لگائے اور ایک قانون کے پابند شہری کی حیثیت سے ان کے شہری حقوق کا تحفظ کیا جائے اور ان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر منسوخ کی جائے۔ یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ ہندوستان ایک جمہوری اسٹیٹ ہے نہ کہ پولیس اسٹیٹ؟ اور جمہوریت میں اظہارِ رائے کی آزادی کو تو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔واضح رہے کہ 30 اپریل کو ہی ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کویت سے متعلق ’’ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے‘‘ کے بارے میں اپنے ٹویٹ پر وضاحتی بیان جاری کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر خان نے اپنے بیان میں کہا تھا ’’میں نے اپنے ملک کے خلاف کسی غیر ملکی حکومت یا تنظیم سے شکایت نہیں کی ہے اور نہ ہی میں مستقبل میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں اس ملک کا محب ہوں اور میں نے ہمیشہ بیرون ملک اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی میں ہمیشہ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح ہمارے ملک میں موجود مسائل پر آواز اٹھاتا رہا ہوں، لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ہم اور ہمارا سیاسی، آئینی اور عدالتی نظام ان سے نمٹنے کے قابل ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا تھا ’’میری معلومات کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں نے بیرونی طاقتوں سے کبھی بھی اپنے ملک کے خلاف شکایت نہیں کی۔ میں دوسرے ہندوستانی مسلمانوں کی طرح قانون کی حکم رانی، ہندوستانی آئین اور ہمارے ملک کے بہترین اداروں پر یقین رکھتا ہوں۔‘‘
واضح رہے کہ ان کی ٹویٹ سے قبل پچھلے دو ہفتوں کے دوران عرب دنیا کے متعدد افراد نے ٹویٹر پر ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم اور کورونا وائرس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششوں کی سخت مذمت کی ہے۔

قانون کےمطابق پولیس ڈاکٹر خان کو پوچھ تاچھ کے لئے تھانے جانے پر مجبور نہیں کرسکتی، کیونکہ انکی عمر 65 سال سے زیادہ ہے