دلی اجڑی، مگر انسانیت زندہ ہے

کم عمر بچوں نے جان پر کھیل کر کئی لوگوں کو گھر میں پناہ دی

سسکتی، بلکتی اور کراہتی ہوئی دلی زخم ،اتنے کہ مندمل ہو تو کیسے؟ کہنے کو تو حالات معمول پرہیں لیکن اُن گھروں کا کیا جن کے چراغ بجھ گئے ۔جن کاسہارالٹ گیا، جن کی ماوں نے اپنے لعل کھودیے، جلے ہوئے مکانوں، دکانوں اور عبادت گاہوں پر بے حرمتی اور تباہی کے سیاہ نشانات آج بھی موجود ہیں۔ سنسان سڑکوں اور گلیوں میں آمد و رفت بحال ہورہی ہے مگرگھر تولٹ گئے ،کاروبار تو تباہ ہوگئے جانیں تو چلی گئیں، بوڑھے تو بے سہارا ہوگئے، بچے تو یتیم ہوگئے بہنیں توبیوہ ہوگئیں ۔
یہ کتنے پھول ٹوٹ کر بکھر گئے یہ کیا ہوا
یہ کتنے پھول شاخچوں پہ مر گئے یہ کیا ہوا
بڑھی جو تیز روشنی چمک اٹھی روش روش
مگر لہو کے داغ بھی ابھر گئے یہ کیا ہوا
دلی اس وقت اجڑی جب نادر شاہ حملہ آور ہوا، دلی اس وقت بھی اجڑی جب 1857ء میں آزادی کے لیے لڑائی ہوئی، دلی اجڑتی رہی اوربستی رہی اور اس باربھی بس جائےگی لیکن ایک سیاہ تاریخ رقم ہوگئی، جس میں مذہب کی بنیادپرلوگ حیوانیت و بہیمیت پر اتر آئے، ظلم وستم کا ننگاناچ دیکھا گیا، انسانیت سوزعمل سامنے آئے۔ لیکن ذرا ٹہریے کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن کوسن کرروشنی کی کرن نظر آئےگی، انسانیت کی ہلکی سی جھلک دکھے گی اوردل کہےگاکہ ’’مایوس نہ ہو اے ہمتِ دل ہر شب کی سحر ہوجاتی ہے‘‘۔شمال مشرقی دہلی جب سلگ رہاتھا، آگ کی زدمیں کئی گھرآگئے تھے اور خاص طور پرتشدد کا زیادہ اثر شیووہار میں دیکھا جارہا تھا اس وقت دوبھائی بہنوںنےاپنی جان پرکھیل کر سینکڑوں اجنبیوں کو اپنے گھر میں پناہ دی، ان کے لیے کھانے پینے کا انتظام کیا جبکہ ان بچوں کےوالدین خود کہیں پھنسے ہوئے تھے، والدین تشدد کی وجہ سے گھر نہیں پہنچ پائے تھے، لیکن کیف اور ثنا نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام لوگوں کو تحفظ فراہم کیا، جس کی بنیاد پر خود ان کے والد فرقان ملک نےاپنی اولاد پر فخر کرتے ہوئےکہا ’’میرے بچوں نے مجھے فخر کا احساس دلایا ہے‘‘۔
کیف ملک کی عمر 15سال تو ثنا کی 20سال ہے لیکن کارنامہ ایسا کہ بڑےبڑوں کو بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا پڑے، دونوں بہادر بچے پھنسے ہوئے لوگوں کو دلاسا دے رہے تھے اور اللہ پر بھروسہ کرنے کی ترغیب بھی۔ آخرکار حالات معمول پر آئے، رفاہی تنظیمیں کھانے پینے کے سامان کے ساتھ شیووہار پہنچیں،ان لوگوں کو کھانا پینا ملنے لگا۔اس تشدد نے نہ جانے کتنوں کے بھروسے توڑے، نہ جانے کتنوں کے رشتے ٹوٹے اور آپسی بھائی چارہ نیست و نابود ہوا، اس فرقہ وارانہ فساد نے دلی پولیس کی نااہلی کو عیاں کردیا، مرکزی حکومت کی غیر ذمہ دارانہ رویے کو آشکار کیا اور دہلی حکومت کی مکاریوں سے پردہ فاش کیا تو دوسری طرف قومی یکجہتی کی مثال بھی دیکھنے کوملی، کہیں مندروں کی حفاظت مسلمان کرتے نظر آئے تو کہیں مسجدوں کی رکھوالی غیرمسلم کرتے دکھائی دیے، حالانکہ کئی مسجدوں کو نذر آتش کرنےمیں شرپسند افراد کامیاب بھی ہوئے۔
***