دلت-مسلم تصادم کے بعد 37 مسلمان گرفتار، وزیر اعلی آدتیہ ناتھ نے این ایس اے اور گینگسٹر ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا
نئی دہلی/جون پور (یوپی)، جون 12: اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے مشرقی ضلع جون پور کے سرائے خواجہ پولیس اسٹیشن کے تحت بھدیٹھی گاؤں میں مسلم اور دلت جھڑپوں میں ملوث ملزموں کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ اور گینگسٹر ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس معاملے میں اب تک 37 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جو کہ تمام مسلمان ہیں۔ اس معاملے میں 57 شناخت شدہ افراد اور 20-25 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ گرفتار افراد میں شمس الدین صدیقی اور اس کے دو بھائی بھی شامل ہیں، جو چنئی اور سنگاپور میں کاروبار کرتے ہیں۔ صدیقی سماج وادی پارٹی کے رہنما بھی ہیں اور ایک بار جون پور صدر اسمبلی سیٹ سے ناکام طور پر اسمبلی انتخابات بھی لڑ چکے ہیں۔
وہیں سرائے خواجہ پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) سنجیو مشرا کو لائنز پر بھیج دیا گیا ہے اور واقعے کی انکوائری ایک سینئر پولیس عہدیدار کو سونپ دی گئی ہے۔ وارانسی رینج پولیس کے عہدیداروں اور جون پور ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ اور دیگر عہدیداروں نے اس صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے 10 جون کو واقعے کے بعد گاؤں کا دورہ کیا۔ گاؤں میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی روک تھام کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔
دلت برادری کی شکایت پر درج کی گئی ایف آئی آر میں صرف مسلمانوں کا نام ملزم کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک دیہاتی نے انڈیا ٹومورو کو فون پر بتایا کہ مسلم خاندانوں کے زیادہ تر مرد ممبران پولیس کے ذریعے گرفتاری کے خوف سے گاؤں چھوڑ چکے ہیں۔ دیہاتی نے بتایا کہ کسی بھی دلت کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے، حالاں کہ اس جھڑپ میں متعدد مسلمان زخمی بھی ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ 9 جون کی شام دلت اور مسلم بچوں کے مابین ایک تصادم کا واقعہ اس وقت پیش آیا تھا، جب وہ گاؤں کے مضافات میں اپنی بکریاں اور بھینسیں چرا رہے تھے۔ فریقین کے بڑے افراد بھی فوری طور پر موقع پرپہنچ گئے لیکن انھوں نے بھی لڑائی کی، جس کے نتیجے میں دونوں اطراف کے کچھ افراد زخمی ہوگئے۔ پھر گاؤں کے پردھان (سربراہ) نے دونوں فریقوں کے مابین ایک سمجھوتہ کیا اور معاملہ وہیں پر ختم ہوگیا۔
تاہم رات کو آتشزدگی کا ایک واقعہ پیش آیا، جس میں دلتوں سے تعلق رکھنے والی 10 جھونپڑیاں جل گئیں اور ایک یا دو بکریاں بھی دم توڑ گئیں۔ جب کہ مسلمانوں نے اس آتشزدگی میں اپنی شمولیت سے انکار کیا، لیکن دلتوں نے دعوی کیا کہ یہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے یہ جرم کیا۔ اس کے بعد یہ معاملہ بھڑک اٹھا۔
ایک دلت کے ذریعہ درج پولیس شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ دلت لڑکوں پر ذات پات کی بنیاد پر تبصرے کرنے کے بعد دلت اور مسلم لڑکوں کے مابین لڑائی شروع ہوئی۔ پھر مسلم بچوں نے دلت لڑکوں کو پیٹا۔ ایف آئی آر میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ جب ایک دلت لڑکے کے کنبہ کے افراد ایک مسلمان لڑکے کے گھر شکایت درج کروانے گئے تو ان کے ساتھ بھی بدسلوکی کی گئی۔ ایف آئی آر کے مطابق 57 شناخت شدہ افراد ہتھیاروں سے لیس اور 20-25 نامعلوم مسلمانوں نے دلتوں پر حملہ کیا۔ ایف آئی آر کے مطابق دلت خواتین اور بچے ہمسایہ گاؤں میں پناہ کے لیے بھاگے اور مسلمانوں نے رات میں دلتوں کی 10 جھونپڑیاں جلا دیں۔ لیکن مسلمانوں نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
ملزموں پر فسادات اور قتل کی کوشش کے ساتھ ساتھ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ اور ایس سی/ایس ٹی (مظالم کی روک تھام) ایکٹ کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے انتظامیہ کو این ایس اے اور گینگسٹر ایکٹ کے تحت بھی ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
جب کہ مسلم دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ کچھ مقامی سیاسی رہنما اس حلقے میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اس واقعے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور اس میں انھی کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔