ڈاکٹر محمد سلمان مکرم
قرآن مجید ایک ظالم بستی کا حال سناتا ہے۔
ایک ایسی ظالم بستی جس کی طرف دو رسول بھیجے گئے لیکن ظالم قوم نے رسولوں کو جھٹلایا اور نہ صرف جھٹلایا بلکہ رسولوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے لگے ۔
ایسی ظالم قوم سے محبت اور اسکی خیرخواہی کیا ممکن ہے
ایسے شدید حالات میں جبکہ قوم رسولوں کی دشمن بنی ہوئی ہے قرآن مجید ایک مرد مومن کے کردار کو پیش کرتا ہے۔
یہ مرد مومن اپنی ظالم قوم کی خیرخواہی اور وقت کے رسولوں کی مدد کے لیے دور دراز مقام سے سفر کرکے پہنچتا ہے اور اپنے ایمان کا اعلان کرتا ہےاور رسولوں کی اتباع کی دعوت دیتا ہے ان کے ہدایت اور سیدھے راستے پر ہونے کو عقل کی روشنی میں پوری دلسوزی کے ساتھ بیان کرتا ہے ان کی بے غرضی اور بےلوثی کو اجاگر کرتا ہے۔ اپنے خالق و مالک کی طرف دعوت دیتا ہے اور آخرت کی پکڑ سے ان کو ڈراتا ہے جہاں کوئی سفارش کام نہ آئےگی۔ خیر خواہی ، محبت ،بے لوثی اور احسان کی کس عظیم بلندی پر یہ شخص کھڑا ہے بے شک یہ مکرمین میں سے ہے۔
اس مرد یاسین کی اللّہ تعالیٰ نے ایسی پذیرائی فرمائی کہ رسولوں کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا اور جنت کے انتہائی باعزت مقام کی اس کو خوشخبری سنائی ۔ مشکل ترین حالات میں بھی دعوت دین جاری رہے۔ دھمکیوں کو ہرگز خاطر میں نہ لایا جائے۔ قوم ظالمانہ روش بھی اختیار کرے تو محبت و خیرخواہی ہی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ دعوت دین کے کامیاب راستہ ہونے پر اللّہ تعالیٰ کی ضمانت۔
ان اسباق کی روشنی میں ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے۔
یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کیا دعوت دین مسلمانوں کے موجودہ مشکلات کا حل ہے؟
آج امت مسلمہ بہت پیچیدہ اور انتہائی سنگین حالات سے دوچار ہے۔ جہاں ایک طرف مسلمان اخلاقی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں وہیں دوسری طرف ظالم حکومت مسلمانوں کی کمزوریوں کو نشانہ بنارہی ہے ۔ مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا دینے پر تلی ہوئی ہے۔ حصول انصاف مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، ان حالات میں مسلمان کیا کریں؟
ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم موجودہ حالات کو بدلنے کا یارا نہیں رکھتے نہ ہمارے پاس سیاسی قوت ہے اور نہ ہی ہم معاشی طاقت رکھتے ہیں ۔
ہماری اصل قوت و طاقت اللّہ تعالیٰ کی نصرت اور اسکی مدد ہے۔ اگر اللّہ تعالیٰ ہماری مدد کرے تو کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ حالات چاہے جتنے بھی سنگین ہوں ہمارے حق میں بدل سکتے ہیں۔
لیکن یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ ہم اللّہ کی نصرت کے شرائط پر کھرے اتریں۔ اللّہ تعالیٰ کے احکام اور اپنی منصبی ذمہ داری یعنی دعوت دین کو ادا کریں ۔ اپنے انفرادی و اجتماعی کردار سے قولی و عملی دعوت کو اس طرح پیش کریں ملک عزیز میں دعوتی کلچر امت مسلمہ کی پہچان بن جائے ۔ دعوت دین پوری امت کا نصب العین بن جائے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ دین سے دوری ہے ۔ قوموں کا عروج و زوال اجتماعی اخلاق سے مشروط ہوتا ہے۔ اسلام ہی سے امت مسلمہ کو اخلاقی بلندی اور عروج نصیب ہوسکتا ہے۔
موجودہ حالات کا ایک پہلو یہ بھی ہے ہم چاہیں نہ چاہیں ہمارے مخالفین ہم سے صرف اسلام ہی کے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔ مخالفین کے تمام اعتراضات و سوالات اسلام ہی کو لے کر کیے جارہے ہیں جیسے اذان، پردہ، نماز، طلاق وغیرہ۔
یہ اسلامی تعلیمات کو مضبوط دلائل کے ساتھ اپنے موقف کو واضح کرنے دعوت دین کو دل پذیر و دل نشین انداز میں پیش کرنے اور امت کی عظمت کو بحال کرنے کا بیش بہا موقع ہے۔ اسلام ہی سے ہماری عزت ہے اور اسلام ہی سے ہمیں عظمت حاصل ہوسکتی ہے۔
اس اصولی بات کا بھی امت کو اچھی طرح ادراک کرنا چاہیے کہ مجرد قومی ترقی کا نصب العین اور دعوتی نصب العین کے زیر سایہ امت کی ترقی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ امت کےلیےحقیقی اور کامیابی کی ضمانت والا راستہ دوسرا راستہ ہے۔ دانشمندی کا تقاضا یہی ہونا چاہیے کہ تصدیق شدہ راستے پر چلا جائے چاہے راستہ لمبا اور دشوار ہی کیوں نہ محسوس ہوتا ہو بہرحال اطمینان کی بات یہ ہے کہ جلد یا بدیر منزل ضرور ملے گی۔ فرد بھی کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور ملت بھی سرخرو ہوگی۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
حصول انصاف کی اور تعلیمی، معاشی اور سیاسی پسماندگی کو دور کرنے کی منصوبہ بند اجتماعی کوششیں بھی ناگزیر ہیں۔
یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ حصول انصاف کی جد و جہد، معاشی و تعلیمی پسماندگی دور کرنے کی کوششوں اور دعوت دین کے نصب العین میں کیا تعلق ہو؟ ترجیحات کس طرح قائم کی جائیں؟
اس سلسلے میں ایک ہی اصولی، نتیجہ خیز اور کامیاب موقف ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ ہماری قومی ضروریات و مطالبات دعوتی نصب العین کے پابند ہوں۔
انفرادی معاملات ہوں، کاروبار و کریئر کا سوال ہو یا امت کی تحفظ و ترقی ہو، حصول انصاف کی جد وجہد ہو یا سیاسی موقف اختیار کرنا ہو، ملک عزیز میں ہمارا آئیڈیا آف انڈیا ہو یا ہمارا آئیڈیا آف سوشل جسٹس ہو ان تمام مختلف النوع جہات کو ہمارا دعوتی نصب العین جوڑتا ہو۔ ان تمام جہات میں ہماری سمت و پالیسی، پروگرامس و سرگرمیاں نہ صرف یہ کہ ہمارے دعوتی نصب العین کو متاثر کرنی والی نہ ہوں بلکہ ہمارے دعوتی نصب العین کو مضبوط کرنے والی ہوں۔
دوسری قوموں کی نقالی اور دنیاوی حرص جس طرح ہم سے پہلے کی امت مسلمہ بنی اسرائیل کو لے ڈوبی کہیں اسی طرح ہم کو بھی نہ لے ڈوبے!!!
اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
دعوتی مشن پر چلنے کا حوصلہ اور درکار عظیم الشان طاقت اللّہ تعالیٰ
سے تعلق، نماز اور صبر کی صلاحیت پیدا کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اللّہ سے مضبوط تعلق اور نماز سے توکل کی صفت قوموں میں پیدا ہوتی ہے ۔ حقیقی اور واضح عقیدہ آخرت سے صبر کی آبیاری ہوتی ہے۔
اہل کتاب امتوں کے بگاڑ کی ایک بڑی وجہ آخرت کے عقیدہ کا کمزور اور کرپٹ ہوجانا ہے۔ جب عقیدہ آخرت کو خلاف واقعہ بالکل آسان سمجھ لیا جاتا ہے تو ایسی قوموں میں کئی بیماریاں در آتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مسائل ان پر سوار ہوجاتے ہیں، دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا، دنیاوی لذات کی حرص، آرام طلبی، کم ہمتی اور بزدلی، اخلاقی گراوٹ، کرپشن، حق کو چھپانا، اور حق و باطل کو خلط ملط کرکے پیش کرنا، باطل کا خوف، بے غیرتی وغیرہ۔
دعوتی جدوجہد اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب پر صبر کے ساتھ جم جانے کا حوصلہ تعلق بالله اور حقیقی و مضبوط عقیدہ آخرت کے بغیر ممکن نہیںہے۔
اللّہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کی جد و جہد ہی امت مسلمہ کو نصرت خداوندی کا مستحق بناتی ہے۔
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَـنۡصُرُوا اللّٰهَ يَنۡصُرۡكُمۡ وَيُثَبِّتۡ اَقۡدَامَكُمۡ ۞
اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔ ( سورۃ محمد۔ آیت نمبر 7)
یہ ایک طویل ،صبر آزما اور جاں گسل جدوجہد ہے لیکن کامیابی کا یقینی راستہ ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کی دعوتی جدوجہد حالات سے نہ کبھی متاثر ہوئی اور نہ کہیں رکی یہاں تک کہ دین غالب ہوکر رہا اور یہی دین اسلام کی فطرت ہے اور یہی اللّہ کی مشیت ہے۔ اگر ہم اللّہ تعالیٰ کے عہد کو یاد رکھیں گے تو اللّہ تعالیٰ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا اور کون ہے اللّہ سے زیادہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا۔
***
***
مجرد قومی ترقی کا نصب العین اور دعوتی نصب العین کے زیر سایہ امت کی ترقی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ امت کےلیےحقیقی اور کامیابی کی ضمانت والا راستہ دوسرا راستہ ہے۔ دانشمندی کا تقاضا یہی ہونا چاہیے کہ تصدیق شدہ راستے پر چلا جائے چاہے راستہ لمبا اور دشوار ہی کیوں نہ محسوس ہوتا ہو بہرحال اطمینان کی بات یہ ہے کہ جلد یا بدیر منزل ضرور ملے گی۔ فرد بھی کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور ملت بھی سرخرو ہوگی۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 جون تا 02 جولائی 2022