ایم شفیع میر،جموں وکشمیر
آپ نے اکثر سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ مختلف انداز میں دیکھی ہوگی کہ فلاں اسپتال میں ایمرجنسی صورتحال میں ایک مریض کو خون کی ضرورت ہے۔ کوئی رضاکار اپنے خون کا عطیہ دے کر مریض کی شمع زندگی کو روشن کرے۔ الله تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اِس کی بہت ساری خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک انسان دوسرے کا خیرخواہ ہو اور مشکل وقت میں اس کی مدد کرے ۔
اِس حقیقت سے کسی بھی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور کا انسان دنیا داری میں غرق ہے، ایک دوسرے کی فکر مندی اور ہمددردی اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ دنیاکی چکا چوند میں گم بنی نوع انسان کے جسم سے ایثار کی روح نکل چکی ہے ایسے میں اُمید کی کرن اُس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب نوجوانانِ جموں اپنے جذبہ ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، دل مچل اٹھتا ہے، سکون میسر ہوتا ہے اور یقین ہو جاتا ہے کہ انسانیت کو دوام بخشنے والے سپوت ابھی باقی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے نوجوانانِ جموں اِس کارِ عظیم کا حصہ بنے ہوئے۔ جب بھی کوئی مریض شہر جموں کے کسی اسپتال میں زیر علاج ہوتا ہے اور اُسے خون کی ضرورت پڑتی ہے تو جموں کے یہ قابلِ فخر نوجوان ذات پات، رنگ ونسل اور مذہبی تفریق کئے بغیر اسپتالوں میں جا کر ضرورتمندوں کو اپنا خون ’’عطیہ‘‘ کرتے ہیں اور حسبِ توفیق مالی امداد بھی کرتے ہیں۔ قابلِ فخر بات ہے کہ یہ عظیم کام اورجذبہ ایثار بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ مضمون کے ذریعہ اِن عظیم ہستیوں کی قصیدہ گوئی مقصود نہیں بلکہ عظیم ہستیوں کے خدمت خلق کے جذبوں سے ’’نسلِ نو‘‘ کو آگاہ کرنا مقصود ہے وگرنہ آنے والی نسل اپنے ماضی سے بے خبر ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ جب ’’حال‘‘ کو ’’ماضی‘‘ سے متعلق آگاہی ہوگی تب ہی آنے والی نسلوں میں ان جیسی خدمت کا جذبہ منتقل ہو گا۔
’’دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘ کے مصداق خدمتِ خلق کے اِس ’’سایہ دار‘‘ شجر کو جنہوں نے اپنا خون جگر دیا اُن میں ہلال احمد بیگ کا نام سر فہرست ہے جس نے باقی نوجوانوں کے اندر اِس احساس کی شمع روشن کی۔ خدمتِ خلق کرنے والے نوجوانانِ جموں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اِن سے جاننے کی کوشش کی گئی کہ وہ کس مقصد سے یہ سب کر رہے ہیں تو سبھی نوجوانوں کا کہنا تھا کہ اِس عظیم کام کو انجام دینے کا مقصد اللہ کی رضا مندی حاصل کرنا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک راہ ہموار کرنا ہے جس پر وہ چل کر انسانیت کی خدمت بغیر کسی غرض و مفادات کے کر سکیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہ کس کی رہنمائی میں آپ یہ عظیم کام انجام دے رہے ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ پہلے پہل چند ہم خیال نوجوانوں نے اِس کارِ خیر کا بیڑا اٹھایا اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے اِس خیال کے ساتھ مزید نوجوانوں نے اتفاق کیا اور وہ جڑتے گئے اور آج اللہ کے فضل و کرم سے نوجوانان ِ جموں کی اک بڑی تعداد اِس کارِ خیر کا حصہ بنی ہوئے ہیں اور آہستہ آہستہ اِس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ ہلال احمد بیگ کے مطابق وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اور نوجوانوں کے خدمت خلق کے تئیں بے لوث جوش و جذبے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے چاہا کہ ہم باضابطہ طور پر قانونی دائرے کے اندر رہ کر یہ کام شروع کریں اِس لئے ہم نے ’’الحیات ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کا قیام عمل میں لایا جس کے ذریعے ہم سبھی نوجوان فلاحی کاموں میں مصروف عمل ہیں اور ان شاء اللہ ہم اِس کارِ خیر کو آگے بڑھانے کیلئے ہر وقت سرگرم رہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم صرف خون کا عطیہ نہیں کرتے بلکہ ہم مجبور، لاچار اور بے یار ومدد گار افراد کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں اور ہمارا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم انسانیت کی بنیاد پر انسانیت کی خدمت کریں بغیر کسی مذہب و ملت، رنگ و نسل اُن افراد کی مدد کی جائے جو واقعی مدد کے مستحق ہوں۔ دورانِ ملاقات نوجوانانِ جموں کا یہ کہنا تھا کہ دین اسلام نے بھی انسانیت کی خدمت پر زور دیا ہے۔ چنانچہ کلام الٰہی میں ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ’’ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی‘‘۔ اسی طرح نبی ﷺ کے بھی بہت سے فرمان اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ بس یہی وجہ ہے کہ ہم بھی انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کر وبیاں
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر ضرورت پڑنے پر ہم بھی انسانیت کے کام آئیں۔ لہٰذا سوشل میڈیا پر یا کہیں بھی ضرورت خون کی کسی پوسٹ یا کسی اسٹیٹس کو دیکھ کر اسکرول ڈاؤن یا آگے جانے سے پہلے یہ ضرور سوچیے گا کہ آپ کا 450 یا 500 ملی لیٹر خون کسی کے معصوم پھول کی یا کسی زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا بچے کی ماں کی یا کسی خون میں لت پت آپریشن تھیٹر کی میز پر پڑے زندگی کی آخری سانسیں لیتے کسی والد کی زندگی کے چراغ کو روشن کر سکتا ہے جس کا معصوم سا بچہ اس انتظار میں ہے کہ بابا میرے لئے کھلونا لینے گئے ہیں۔ میں نے اپنے حصے کی شمع جلائی ہے آپ اپنے حصے کی شمع جلائیں۔ اِس پیغام کو سمجھیں اور اِس کام میں حصہ لینے کیلئے خود کو آمادہ کریں۔ یہی انسانیت کا درس ہے اور یہی عمل انسانیت کو زندگی بخشتاہے۔ کسی کا سہارا بنیں، خوشیاں بانٹیں، انسانیت زندہ رہے گی تو ہم انسان کہلانے کے قابل ہو جائیں گے۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
[email protected]
***
سوشل میڈیا پر یا کہیں بھی ضرورت خون کی کسی پوسٹ یا کسی اسٹیٹس کو دیکھ کر سکرول ڈاؤن یا آگے جانے سے پہلے یہ ضرور سوچیے گا کہ آپ کا 450 یا 500 ملی لیٹر خون کسی کے معصوم پھول کی یا کسی زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا بچے کی ماں کی یا کسی خون میں لت پت آپریشن تھیٹر کی میز پر پڑے زندگی کی آخری سانسیں لیتے کسی والد کی زندگی کے چراغ کو روشن کرسکتا ہے جس کا معصوم سا بچہ اس انتظار میں ہے کہ بابا میرے لئے کھلونا لینے گئے ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021