عبداللہ عبادہ ،پٹنہ، بہار
تاریخ شاہد ہے کہ کامیابی و کامرانی دین کی ہو یا دنیا کی انہیں لوگوں کو نصیب ہوئی جنہوں نے وقت کی قدر و قیمت پہچان کر اسے صحیح مصرف میں استعمال کیا۔ وقت اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کی ہوئی ایک عظیم، بیش بہا اور بہت ہی بڑی نعمت ہے۔ وقت کا صحیح استعمال کرکے انسان فرش سے عرش تک، زوال سے عروج تک کا سفر طے کرسکتا ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے اور اس کی ناقدری کرکے انتہائی ذلت و پستی، ناکامی ونامرادی کی گھاٹی میں جا گرتا ہے۔ وقت کی اہمیت پر بہت کچھ لکھا گیا مگر افسوس کہ ہم ابھی تک غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اللہ پاک نے قران کریم میں مختلف انداز میں، مختلف مقامات پر، مختلف پیرایوں میں وقت کی قدر و منزلت کو سمجھایا ہے اور اس کی ناقدری کرنے اور لہو و لعب اور بے کار کی باتوں و کاموں میں مشغول رہنے والے لوگوں کی زجر و توبیخ فرمائی ہے اور بہت ہی سخت سرزنش کی ہے نیز، اس پر وقت اور زمانے کی قسمیں کھائی ہیں۔ اسی طرح حضرت نبی کریم ﷺ نے بھی وقت کی ناقدری کرنے والوں کو متنبہ کیا ہے۔ فرمایا ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن سے اکثر لوگ غافل ہیں، ایک صحت و تندرستی دوسری خالی وقت‘‘ (بخاری) علامہ یوسف القرضاوی اپنی کتاب الوقت فی حیاۃ المسلم میں لکھتے ہیں کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان اپنے اوقات میں اتنے ہی حریص تھے جتنے ہم مال و دولت اور سیم و زر کے حریص و لالچی ہیں، اسی وجہ سے ان کے لئے علمِ نافع، عملِ صالح، جہاد فی سبیل اللہ اور فتح مبین کا حصول ممکن ہوا اور ہم ان تمام نعمتوں سے یکسر محروم ہیں۔ اخوان المسلمون کے بانی و مبانی، سرخیل، مجاہد فی سبیل اللہ حسن البناء شہید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وقت ہی زندگی ہے۔ اور حقیقت بھی بھی یہی ہے کہ انسان کی زندگی ان اوقات سے عبارت ہے جو وہ مہد سے لحد تک گزارتا ہے۔ علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ علامہ ابن تیمیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ آپ اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع ہونے نہیں دیتے تھے۔ فاتح اعظم سکندر نے اپنی موت کے وقت یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اگر مجھے زندگی کے چند منٹ اور مل جائیں تو میں پوری سلطنت قربان کرنے کو تیار ہوں۔ مگر امراء، وزراء اور سپہ سالار بادشاہ کی اس آرزو کے آگے دم بخود ساکت و صامت کھڑے ہیں۔
دن میں 24 ہفتہ میں 168 مہینے میں 744 اور سال میں 8760 گھنٹے ہوتے ہیں اور یہ نمبر کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے۔ حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے اوپر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم وقت کی قدر کرتے ہوئے سب سے پہلے خود اپنی دینی و دنیوی، روحانی وجسمانی، علمی وعملی، مالی و معاشی، اخلاقی و معاشرتی حالات کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھر پورکوشش کریں، پھر اہل خانہ، اہل محلہ، اور پھر پوری امت مسلمہ کی فکر کریں۔ جہاں تک ہو سکے ان کی مدد ونصرت کریں، اس دور میں پوری دنیا میں جو بے حیائی و بے شرمی، بے غیرتی و بے مروتی، ظلم و تشدد، غربت وافلاس، تنگدستی و زبوں حالی اور بے دینی ولادینی کا بازار گرم ہے وہ الامان و الحفیظ ہے۔ ترقی کے نام پر تنزلی، آزادی کے نام پر غلامی، عزت کے نام پر ذلت، تجارت کے نام پر جوئے اور سٹے بازی، امن و شانتی کے نام پر فتنہ و فساد کا جو دور دورہ ہے وہ کسی بھی صاحب دل، صاحب نظر، سلیم الطبع انسان سے مخفی نہیں مگر ان سب کے باوجود ہمیں اس کی فکر نہیں ہے۔ انسان تیزو تند ہوا کے جھونکے میں الٹتے پلٹتے پتوں کی طرح اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ دور نئی نئی ٹیکنالوجی، طرح طرح کے جدید ترین آلات، انٹرنیٹ ،موبائل، ٹیلی ویژن، لیپ ٹاپ اور ان پر آنے والے مختلف قسم کے پروگراموں کا ہے، جس میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہے۔ اثمھما اکبر من نفعھما۔ ان جدید آلات اور ٹیکنالوجی نے انسان کے اندر سے انسانیت کھرچ کھرچ کر نکال دی ہے۔ انسانوں کا ایک بڑا طبقہ فطری عادات و اطوار کو چھوڑ کر غیر فطری کلچر کا دلداہ بنا ہوا ہے اور عارضی خوشی کے لئے ابد الآباد خوشی کو برباد کر رہا ہے۔ انسان کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سب کچھ چار دن کی چاندی ہے پھر اندھیری رات ہے۔ اس لئے ہم اپنے وقت کا صحیح استعمال کر کے اپنے رب کے حضور حاضر ہونے والے بنیں۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 فروری تا 6 مارچ 2021