عابد حسین راتھر
انسانی دماغ ایک ایسا عضو ہے جو لگاتار سوچتا رہتا ہے اور جس میں ہر وقت خیالات آتے رہتے ہیں اور یہ خیالات بہت تیزی سے بدلتے رہتے ہیں۔ کچھ خیالات ایسے ہوتے ہیں جو آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دماغ میں اپنی مستقل جگہ بنا لیتے ہیں اور انہی خیالات کی بنا پر انسان حالات کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور جائزہ لے کر اپنے فیصلے لیتا ہے جس کو ہم ادراک کہتے ہے جو کہ ایک بہت ہی حساس عمل ہے۔ یہ خیالات لا شعوری طور پر یا بلا ارادہ دماغ میں اپنے لیے ایک راستہ ہموار کرتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کچھ لوگ ایک سبز گھاس والی کھیت میں ایک ہی راہ پر کچھ دنوں تک چلتے ہیں تو وہاں ایک راستہ بن جاتا ہے اور بعد والے لوگ نیا راستہ بنانے کے بجائے وہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہمارا دماغ بھی بالکل اسی سبز گھاس والے کھیت کے راستے کی طرح ہے۔ ہمارے دماغ میں بھی تجربات اور مشاہدات کی بنا پر خیالات کی راہیں ہموار ہوتی ہیں جن کو بدلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اُس کے بعد کسی نئے مشاہدے یا تجربے کو یا کسی نئے خیال کو ہمارے دماغ میں داخل ہونے کے لیے نیا راستہ بنانا پڑتا ہے۔ لیکن ساتھ میں ہی اس کو پرانے خیالوں کی راہوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھار ہمیں کوئی سوچ نئی ہونے کے باوجود بھی نئی نہیں لگتی۔ جب ہمارے ذہن میں پرانے خیالات اپنی جگہ پختہ بنا لیتے ہیں تو کسی نئی بات یا کسی نئی سوچ کو اپنانا بہت مشکل کام بن جاتا ہے۔
جب ہم کسی چیز کے بارے میں کبھی جانچ پڑتال کرتے ہیں تو ہم ایک قسم کی ذہنی قید میں رہ کر اس کے بارے میں اپنی رائےقائم کرتے ہیں۔ ہمارا ذہن پہلے سے ہی قائم شدہ تصور کے حساب سے اس چیز کے بارے میں اپنی رائے اختیار کرتا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق ہم اپنی %90 جسمانی اور ذہنی توانائی صرف زندہ رہنے پر صرف کرتے ہیں۔ زندگی کا بیشتر وقت ہم صرف کھانے پینے میں مصروف رہتے ہیں اور نئے خیالات، نئی سوچ اور نئی تخلیق کو اپنے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتے۔ یہ ایک غور کرنے والی بات ہے کہ ہمارے ذہن میں خیالات کا وجود کیسے ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن کے سوچنے کی قوت کیسے بڑھتی رہتی ہے۔ جب ایک انسان کی پیدائش ہوتی ہے تو بہت وقت تک اس کو دوسرے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی زندگی دوسرے لوگوں پر منحصر ہوتی ہے۔ پیدائش کے بعد ہمارا تعلق دوسرے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے جو ہمارے قریب ہوتے ہیں کیونکہ سماج کے بغیر ایک انسان کا زندہ رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے۔ اس عالمِ انحصار میں اور دوسرے انسانوں کی موجودگی میں درج ذیل عناصر کی مدد سے ہمارے ذہن کے نظریاتی خیالات وجود میں آتے ہیں اور ہمارے دماغ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بڑھتی رہتی ہے۔
تجربات:
جب بھی ہم کسی کام کا تجربہ حاصل کرتے ہیں تو اس کے نتائج ہمارے ذہن میں ایک سوچ پیدا کرتے ہیں اور ہمارے دماغ میں ایک مقام بنالیتے ہیں۔ یہ نتائج ہمارے دماغ پر کچھ ایسی چھاپ چھوڑتے ہیں کہ جب بھی ہم دوسری بار ایسا کام کرتے ہیں تو ہمیں پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہیں کہ کچھ اس طرح کے نتائج سامنے آئیں گے۔ مثال کے طور پر اگر گاڑی چلاتے وقت ہم کسی پولیس ناکے سے گزریں گے اور وہاں ہماری پوچھ تاچھ ہوگی یا کسی وجہ سے کوئی جرمانہ ہوگا تو اگلی دفعہ جب بھی ہم ایسے راستے سے جا رہے ہوں گے تو ہمیں ایک تشویش سی رہتی ہیں کہ آگے چل کے شاید ایسا ہونے والا ہے۔ کیونکہ جو تجربہ ہم نے پہلے حاصل کیا ہوتا ہے اس کی چھاپ ہمارے ذہن پر پڑی ہوتی ہیں۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زندگی میں جو بھی واقعات ہمارے ساتھ رونما ہوتے ہیں ان واقعات کے نتائج سے ہمارے ذہن میں ہر وقت ایک نئی سوچ پیدا ہوتی ہے جو ہمارے دماغ میں اپنی ایک خاص جگہ قائم کرتی ہے۔ خاص کر بچپن کے واقعات ہمارے ذہن پر اپنی ایک گہری چھاپ ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو انسان بچپن میں جتنے ہی خوش گوار اور اچھے ماحول میں پرورش پاتا ہے آگے چل کر اس کی سوچ اور اس کا ذہن اتنا ہی اچھا ہوتا ہے اور جس انسان کا بچپن برے ماحول میں گزرتا ہے اسکی سوچ اتنی ہی بری ہوتی ہے اور وہی انسان زندگی میں برے کام انجام دیتا ہے۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اچھے کاموں اور اچھے ماحول کے نتائج سے ہماری سوچ اچھی بنتی ہے اور برے کاموں اور برے ماحول کے نتائج سے ہماری سوچ بری بنتی ہے۔
مشاہدات:
مشاہدات سے انسان کو حالات و واقعات کا علم حاصل ہوتا ہے۔ عقلمند انسان ہمیشہ اپنے آس پاس کے حالات اور ہونے والے واقعات پر غور وفکر کر کے ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ایک انسان اپنے حال پر دھیان دینے کے بجائے ماضی کے خیالات میں محو رہتا ہے یا مستقبل کی فکر میں رہتا ہے تو نتیجتاً وہ پریشان رہتا ہے۔ ماضی کے خیالوں میں گم رہنے سے انسان پچھتاوے کا شکار ہوتا ہے۔ ہاں البتہ ماضی کے
تجربات پر غور کر کے انسان ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ سکتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو ماضی کے خیالات اور مستقبل کی فکر سے آزاد کر کے اپنے دماغ کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔ ماضی پر پچھتاوے اور مستقبل کے خوف کے بجائےہم حال میں ہونے والے حالات و واقعات پر غور وفکر کرنے کی طاقت سے اپنے ذہن کی سوچ کو ایک اعلٰی مقام تک لے جا سکتے ہیں۔ کسی مفکر نے بہت ہی خوبصورت الفاظ میں کہا ہے کہ ہم اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اور اپنے حال پر دھیان دے کر اپنے مستقبل کو بہت ہی خوبصورت، روشن اور تابناک بنا سکتے ہیں۔
مطالعہ:
ہماری سوچ کی تعمیر میں مطالعہ کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ انسان کے خیالات اس کے مطالعہ کے مطابق ہوتے ہیں۔ چاہے انسان اچھی کتابوں کا مطالعہ کرے یا بری کتابوں کا، دونوں کا اثر اس کے دل و دماغ پر پڑتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ جرائم کی کتابوں کا زیادہ مطالعہ کرتے ہے وہ انہی قسم کے جرائم میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ مطالعہ کرنے سے ہمارے ذہن کے سوچنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ مطالعہ کرنے سے جتنی زیادہ معلومات ہمیں حاصل ہوتی ہیں اتنے ہی زیادہ نئے خیالات ہمارے ذہن میں جنم لیتے ہے۔ ہمارے گرد ونواح میں اکثر کچھ ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو ہماری سوچ اور شخصیت پر اپنا اثر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ اپنی آنکھیں اور اپنے کان کھلے رکھیں اور دوسروں کو ہماری سوچ اور شخصیت پر اثر ڈالنے کا موقع دینے کے بجائے اپنی عقل اور اپنے شعور کی بنیاد پر خود اپنے سوچ اور خیالات کی تخلیق کریں۔ ہمیں ایسے خیالات اور ایسی سوچ سے ہمیشہ دور رہنا چاہیے جن کی بنیاد شک یا گمراہی پر ہو۔ ایک سماج صرف اچھی سوچ اور اچھے خیالات رکھنے والے انسانوں کی بدولت ہی ترقی کر سکتا ہے اور اسی میں کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
(مضمون نگار ڈگری کالج کولگام میں لیکچرار ہیں۔)
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021