محمد عزیزالدین خالد،حیدرآباد
دنیا میں ہر روز خود کشی کے بے شمار واقعات ہوتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ معمولی معمولی باتوں پر خود کشی کر لیتے ہیں۔ کوئی فرمائش پوری نہ ہونے پر، کوئی امتحان میں ناکامی پر، کوئی گھریلو جھگڑوں سے تنگ آ کر، کوئی قرض ادا نہ کر پانے پر، کوئی بیروزگاری سے تنگ آ کر کوئی ظلم و زیادتی کو برداشت نہ کر کے تو کوئی بیماری سے بیزار ہو کر۔ بعض تو خود کشی کرنے سے پہلے اپنے چھوٹے معصوم بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات سے لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ چنانچہ سال نَو کے ابتداء ہی میں کتہ گوڑم (تلنگانہ) میں ایک شخص نے ایک سیاسی لیڈر کے بیٹے کی ہراسانی سے تنگ آ کر اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ خود سوزی کی، جبکہ نظام آباد کے متوطن ایک میاں بیوی نے سودی قرض کے بوجھ تلے دب کر اپنے دو بیٹوں کے ساتھ وجئے واڑہ (آندھرا پردیش) میں دریائے کرشنا میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ اس کے علاوہ اسی دن مزید خود کشیوں کی خبریں پڑھنے کو ملیں اور متواتر مل رہی ہیں۔ سال گزشتہ بھی کئی اجتماعی خود کشیوں کے واقعات پیش آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں خود کشی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ کم عمر و نو خیز بچے تک موبائل فونوں پر گیم ہار کر خود کشی کر رہے ہیں۔ آدمی دولت کمانے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا لیکن اسے کیا کہیے کہ دولتمند اور عالمی شہرت یافتہ لوگ بھی خود کشی کرنے میں مفلسوں اور گم ناموں سے پیچھے نہیں ہیں۔ چنانچہ انڈین سینما کے مشہور و معروف ہیرو سشانت سنگھ راجپوت نے بھی خود کشی کر لی جو بہت مشہور ہوئی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مشہور اور عالمی شخصیتوں نے خود کشی کے ذریعے اپنی جانیں گنوائیں۔ خود کشی کرنے والوں کے پاس وجوہات جو بھی ہوں معقول وجہ کوئی نہیں ہوتی۔ خود کشی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان پر فوری قابو پانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہیے اور عوام میں بھی زندگی کے متعلق شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ زندگی اصل میں ہے کیا اور موت کیا ہے؟
آدمی خود کشی پر اس وقت آمادہ ہوتا ہے جب وہ شدید غصے اور مایوسی کے عالم میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی بے عقلی سے یہ سمجھتا ہے کہ اب میرا جینا بے کار ہے لہٰذا وہ بے دریغ موت کی وادی میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ اس انتہائی اقدام سے پہلے تھوڑا سا رک کر ٹھنڈے دماغ سے سوچے تو اسے اندازہ ہو گا کہ اس کا جینا اب پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ مثلاً ایک آدمی جب راستہ چلتے ہوئے کسی گڑھے میں گر جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ خود اس میں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اگر کامیابی نہ ملے تو مدد کے لیے آوازیں دیتا ہے تب کوئی نہ کوئی اس کی مدد کو پہنچ جاتا ہے اگر کوئی مدد کرنے والا نہ ملے تو وہ دوبارہ کوشش کرتا ہے اور پہلے سے زیادہ زور لگاتا ہے لیکن مایوس ہو کر اپنے آپ کو ہلاک نہیں کر لیتا۔ لیکن یہی آدمی جب کچھ مسائل میں گھر جاتا ہے تو ہمت ہار بیٹھتا ہے اور موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ ہے نا حیرت کی بات!
انسانوں کے خالق و پروردگار نے انسان کو پیدا کر کے اسے دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا ہے، کوئی ہلاکت کے گڑھے میں نہیں پھینکا ہے۔ انسان پر اچھے برے حالات اس کی آزمائش کے لیے آتے ہیں اسے تباہ و برباد کرنے کے لیے نہیں۔ امتحان میں کامیابی کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ یہ انسانوں کے رب کی مہربانی ہے کہ اس نے پیغمبروں کو بھیج کر انسان کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ پیغمبروں نے انسانوں کا تعلق ان کے معبودِ حقیقی سے جوڑا، ان کو بتایا کہ تمہارا خالق و مالک، پروردگار اور معبود بس وہی ایک ہے۔ اسی کی تم کو بندگی کرنی ہے، اسی کے احکام کو بجا لانا ہے، اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنا ہے اور ہر قسم کے حالات میں اسی پر بھروسہ کرنا ہے۔ دنیا کی زندگی بہت مختصر اور عارضی ہے، یہ تمہیں اس لیے دی گئی ہے تاکہ معلوم ہو کہ تم میں کون ہے جو بے دیکھے اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارتا ہے۔ اپنی مدت ختم کر کے تمہیں واپس بلا لیا جائے گا پھر تمہیں بتا دیا جائے گا کہ تم دنیا میں کیا کرتے رہے۔ اگر تم نے اللہ پر اور اس کی بھیجی ہوئی ہدایت پر ایمان لا کر نیک عمل کیے ہوں گے تو تمہیں ابدی قیام گاہوں میں داخل کیا جائے گا جہاں کوئی غم ہو گا نہ افسوس بلکہ ہر طرح کا عیش و آرام میسر ہو گا جو کبھی ختم نہ ہو گا۔ اور اگر ایمان سے محروم رہے، ہدایت سے منہ موڑا اور غلط کاریوں میں پڑے رہے تو پھر تمہیں ایسے گھر میں داخل کیا جائے گا جس میں تم ہمیشہ تکلیف میں رہو گے اور جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔
جب انسان کے دل میں یہ یقین پہاڑ کی طرح جم جائے گا تو وہ خود کشی کا خیال بھی اپنے دل میں نہیں لائے گا بلکہ صبر اور ثبات سے حالات کا مقابلہ کرتا رہے گا اور جو کچھ بھی اسے میسر ہے اس پر اپنے رب کا شکر ادا کرتا رہے گا۔ انسان چاہے جتنی بھی خستہ حالی میں ہو بہرحال اس کے پاس ایسی بہت سی نعمتیں ضرور ہوں گی جن پر اگر وہ غور کرے تو اپنے رب کا شکر ادا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن اگر وہ ان سب کو نظر انداز کر کے صرف وہی چاہے جو اسے پسند ہو یا جس کے لیے اس نے محنت کی ہو اور وہ اسے نہ ملی ہو یا اسے کہیں سے گہرا صدمہ پہنچا ہو تو وہ مایوس ہونے لگتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے، اس کیفیت سے نکلنے کا کوئی راستہ اس کو سجھائی نہیں دیتا اور وہ اس راستے پر چل پڑتا ہے جو بالآخر ہلاکت کے گڑھے میں پہنچا دیتا ہے۔
انسان کو جسمانی وجود خدا نے بخشا ہے، اس میں جان خدا نے ڈالی ہے، اس کے اعضاء کو حکم خدا نے دے رکھا ہے۔ اس طرح انسان پورا کا پورا خدا کی ملکیت قرار پاتا ہے نہ کہ خود اپنے آپ کی ملکیت؟ جب وہ اپنے بدن کے ایک بال کا بھی مالک نہیں ہے تو پورے بدن کا مالک کیسے ہوا، کُجا کہ دوسروں کا؟ اسے تو یہ بدن اس لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کی پاک و حلال غذا کے ذریعہ پرورش کرے، اس کے اعضاء و جوارح سے خدا کے احکام کو بجا لانے میں مدد لے، دماغ سے اچھی اور مثبت باتیں سوچے، برے اور مایوس کن خیالات سے دل کو پاک رکھے اور نیک اور صالح اجتماعیت سے وابستہ رہے، تبھی وہ امتحان میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو شخص امتحان گاہ سے امتحان دیے بغیر نکل جائے اسے ناکام قرار دینے کی ضرورت نہیں رہتی وہ آپ سے آپ ناکام ہے۔
***
***
انسان کو جسمانی وجود خدا نے بخشا ہے، اس میں جان خدا نے ڈالی ہے، اس کے اعضاء کو حکم خدا نے دے رکھا ہے۔ اس طرح انسان پورا کا پورا خدا کی ملکیت قرار پاتا ہے نہ کہ خود اپنے آپ کی ملکیت؟ جب وہ اپنے بدن کے ایک بال کا بھی مالک نہیں ہے تو پورے بدن کا مالک کیسے ہوا، کُجا کہ دوسروں کا؟ اسے تو یہ بدن اس لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کی پاک و حلال غذا کے ذریعہ پرورش کرے، اس کے اعضاء و جوارح سے خدا کے احکام کو بجا لانے میں مدد لے، دماغ سے اچھی اور مثبت باتیں سوچے، برے اور مایوس کن خیالات سے دل کو پاک رکھے اور نیک اور صالح اجتماعیت سے وابستہ رہے، تبھی وہ امتحان میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو شخص امتحان گاہ سے امتحان دیے بغیر نکل جائے اسے ناکام قرار دینے کی ضرورت نہیں رہتی وہ آپ سے آپ ناکام ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 16 جنوری تا 22 جنوری 2022