خواتین کی معاشرتی صورتحال:اصلاح کیسے؟
رشتوں کے پاس ولحاظ اور اخلاقی رویوں سے گھر وں کو مثالی بنائیے
بشری ناہید، اورنگ آباد،مہاراشٹر
خواتین کے دائرہ کار سے متعلق متوازن فکر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ دین ودنیا سے بے نیاز ہوکر نہ گھر میں قید کردی جائے اور نہ گھر ومتعلقین کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو کر صرف سماج سیوا میں لگی رہے۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ رنگا رنگی تہذیب میں رچا بسا ملک ہے اور مختلف تہذیبوں کے اثرات کو مسلمانوں نے بہت کھلے دل سے قبول کرلیا ہے۔ ملک عزیز میں ملت کا ایک بڑا حصہ غیر اسلامی کلچر میں رچ بس گیا ہے۔ جس کی وجہ سے نئی نسل اس کلچر کو بھی اسلامی تہذیب کا حصہ سمجھنے لگی ہے۔ خواتین کے حقوق وفرائض اسلامی شریعت کی روشنی میں کیا ہیں اس سے مسلمانوں کو واقف کروانے کی ضرورت ہے۔
خواتین کی مثبت صورتحال
آج کے معاشرے میں خواتین کو بھی مردوں کے طرح ایک انسانی وجود کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے۔ کچھ جگہوں پر ان کی عزت وعصمت اور ان کے تحفظ کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ ٹرینوں میں ان کے لیے علیحدہ بوگی کا اہتمام ہیں۔ اسٹیشنوں، ہاسپٹلوں ودیگر پبلک مقامات پر خواتین کے لیے علیحدہ لیٹرین کا نظم ہوتا ہے۔ ملزم و مجرم خواتین کے لیے صرف لیڈیز پولیس ہی مخصوص ہے۔ اس طرح اور بھی کئی مقامات ہیں جو خواتین کے لیے خواتین مخصوص ہیں۔ ریاستی حکومت کے تحت یہ طئے ہے کہ لڑکیوں کی اسکول بس میں ہیلپر خاتون ہی رہے گی۔ عورتوں کے حقوق اور ان کے مقام کو لے کر ایک بیداری سماج میں نظر آنے لگی ہے۔ خواتین کی مختلف تنظیمیں ہیں جو ملک بھر میں ریاستی ومقامی سطح پر کام کرتی ہیں۔ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ مقیم ہیں۔ ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہے۔ مسلم خواتین پردہ کا اہتمام کرتے ہوئے گھر سے باہر جاسکتی ہیں۔ اس کے لیے اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ برقع پوش خواتین کا برادرانِ وطن احترام کرتے ہیں۔ عورتوں کی سیکوریٹی کے لیے ان کے حق میں قوانین بنائے گئے ہیں۔ اگر کسی مدد کی ضرورت ہو تو ٹال فری نمبر بھی ہے جہاں پولیس ان کے تحفظ کے لیے پہنچ جاتی ہے۔ مسلم عورتوں کے فیصلوں کے لیے مسلم پرسنل لاء، امارتِ شرعیہ، دار القضاۃ کونسلنگ سنٹر موجود ہیں، جہاں ان کے مسائل اور گھریلو تنازعات کو حل کیا جاتا ہے۔ غرض خواتین کی سماجی پوزیشن میں بہ نسبت ماضی کے واضح تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔
منفی صورتحال
٭ خواتین کے حقوق و تحفظ کا خیال رکھنے اور ان کے حق میں مختلف قوانین بنانے کے باوجود یہ ایک کڑوی سچائی ہے کہ زمانۂ جاہلیت کی طرح خواتین آج بھی مظلومیت کا شکار ہیں۔ دختر کشی، جنسی استحصال، زنا بالجبر، چھیڑ چھاڑ جہیز و ہنڈہ، گھر اور باہر کی دہری ذمہ داری، سسرالی رشتہ داروں کی زیادتیاں، مائیکے کی جانب سے وراثت سے محروم کیا جانا وغیرہ معمول کی باتیں ہیں اس کے علاوہ خود آج کی عورتیں دورِجدید کی نئی نئی قباحتوں جیسے ہوموسیکس، لیوان ریلیشن شپ، سروگیٹ مدر، ویلنٹائن کلچر، سنگل لیونگ کلچر وغیرہ کا شکار ہورہی ہیں۔
٭عورتوں کے حق میں جو قوانین بنائے گئے ہیں، ان پر بھی پوری طرح سے عمل نہیں ہوتا ہے بلکہ بیشتر اوقات خواتین ان کا استعمال مردوں کے خلاف ان پر ظلم ڈھانے کے لیے کرتی ہیں، مثلاً 498A کا استحصال۔ مسلم گھرانے ہی نہیں، بلکہ بعض دیندار لوگوں کے یہاں بھی بیوی، بہو، ساس، جیسے سسرالی رشتوں کے معاملہ میں بے اعتدالی اور باہمی حقوق وفرائض میں توازن نظر نہیں آتا۔ کسی رشتہ کے ساتھ بے جا رعایت اور کسی رشتہ کی حق تلفی ہو جاتی ہے۔ مثلاً کہیں ہندوستانی بہو بناکر، ساس سسر، دیور جیٹھ کی خدمت میں لگا دیا جاتا ہے تو کہیں ساس سسر کی خدمت بہو پر فرض نہیں کہہ کر کچھ ایسی چھوٹ دی جاتی ہے کہ بہو اخلاقی فرض سے بھی آزاد ہو جاتی ہے۔ بعض لڑکیاں یہ کہہ کر ذمہ داری سے دامن چھڑا لیتی ہیں کہ والدین کی ذمہ داری بیٹے پر ہے، بہو پر نہیں۔
٭ کنواری لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم یا پھر اچھے رشتہ کے انتظار میں خواہ مخواہ بٹھا کر رکھنے کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے: جب نماز کا وقت ہوجائے، جب جنازہ آجائے اور جب لڑکی کے لیے کفو مل جائے (یعنی مناسب رشتہ آ جائے) ۔‘‘
٭ مسلم خواتین پردہ کر رہی ہیں، لیکن بالعموم اس پردے میں بھی بے پردگی کے کئی سامان ہوتے ہیں۔ بعض خواتین ایسے ایسے برقعے استعمال کرتیں ہیں کہ جن کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ اپنے آپ کو چھپانے کے لیے پہنا گیا ہے۔ گویا آج کا برقع پردہ کے نام پر مذاق بن گیا ہے۔
٭ انٹرنیٹ کے فائدے سے زیادہ اس کے غلط استعمال کی طرف خواتین ولڑکیوں کا رجحان۔
٭ ملک کی تقریبا سبھی ریاستوں سے مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں سے معاشقہ اور ان کے ساتھ گھروں سے بھاگ جانا ’شادیاں کرنا جیسے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں ۔
اسلامی نقطہ نظر
خواتین کے مختلف مسائل کا باریکی سے جائزہ لے کر اس کی وجوہات کو جاننا اور ان کا حل پیش کرنا چاہیے۔ اسلامی شریعت کے تحت اگر مسلمان عمل کرنے لگیں تو بہت ساری معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ جیسے لڑکا لڑکی میں امتیازی سلوک نہ کرنا، تعلیم ودینی شعور سے آراستہ کرنا، جب بالغ ہوجائے اور ان کے لیے مناسب کفو مل جائے تو ان کا نکاح کرنا، بچپن سے نماز کی تاکید کرنا، اخلاق وکردار کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا، عورتوں کا پردہ اور مردوں کا غضِ بصر کا اہتمام کرنا، بیوہ اور مطلقہ کے نکاح کے لیے کوشش کرنا، غیر اسلامی رنگ ڈھنگ، فضول رسم ورواج، مشترکہ خاندانی نظام، ڈے کلچرز سے اجتناب برتنا، بے جا اصرا ف اور جھوٹی شان نہ دکھانا اور ڈگری کالج کے کو ایجویشن سسٹم کو ختم کرنا، غرض زندگی کے ہر معاملے میں اسلامی حدود کا پاس ولحاظ رکھنے کی کوشش کرنا۔ ارشاد ِربانی ہے: ’’مومنو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہارے دشمن ہیں، سو ان سے بچتے رہو، اگر تم عفو وکرم، درگزر اور چشم پوشی سے کام لو تو یقین رکھو کہ خدا بہت ہی زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘
ملت کے ہر گھر انے کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر کو ’’مثالی اسلامی خاندان‘‘ کے طور پر پیش کرے۔ تحریکی ودینی حلقوں کی ذمہ داری تو اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ عام مسلمان انہیں دیکھ کر اثر قبول کرتے ہیں۔
خواتین کے مختلف مسائل کا باریکی سے جائزہ لے کر اس کی وجوہات کو جاننا اور ان کا حل پیش کرنا چاہیے۔ اسلامی شریعت کے تحت اگر مسلمان عمل کرنے لگیں تو بہت ساری معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔