خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے بلا رکاوٹ یکساں مواقع کی فراہمی لازم

مروجہ اختيارات و حقوق اور خواتین کی ترقی کے نظریات فریبی و سطحی فکر کی اپج

فہمیدہ قریشی

حجاب استحصالی سرمایہ دارانہ نظام سے حفاظت اور حقیقی ترقی کا ضامن
حجاب اور ظلم دو ایسے الفاظ ہیں جنہیں اکثر ایک ہی معنی میں لیا جاتا ہے۔ لیکن کیا واقعی دنیا اسے اسی نظریہ سے دیکھتی اور سمجھتی ہے تو اس کا جواب نفی میں ملے گا۔ یہ ایک بالکل مختلف خیال اور ایک مختلف نقطہ نظر ہے۔
جدید سرمایہ دارانہ تصور کے مطابق خواتین کو بااختیار بنانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خواتین بازار حسن اور دلکشی کا سبب بن جائیں۔ جب بھی مغربی دنیا خواتیں کو بااختیار بنانے کے فوائد گنواتی ہے تو مان لیا جائے کہ وہ فقط سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ کاری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
اس اصطلاح کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب مغربی تہذیب میں عورتیں پدرانہ نظام کی غلام ہوا کرتی تھیں اور اس قبیح نظام کے ذریعے وہ ہر قسم کی برائیوں کا شکار تھیں۔
اور اس سرمایہ دارانہ نظام میں بس پیسوں کی قدر تھی۔ وہ ہر وقت اسی دھن میں رہتے تھے کہ کیسے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ لہذا انہوں نے اپنی کمائی میں بڑھوتری کے لیے عورتوں کو سب سے مفید شیے سمجھا اور مال جنس کے طور پر استعمال کیا۔ کیونکہ وہ بخوبی واقف تھے کہ آمدنی کے ذریعہ کے طور پر خواتین سرمایہ دارانہ نظام میں براہ راست قدم نہیں رکھیں گی۔
اسی لیے عورتوں کو بااختیار بنانے کی اصطلاح وجود میں آئی اور اس بھاری بھرکم اصطلاح کے قواعد و ضوابط کے باوجود خواتین اس کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے لگیں حالانکہ وہ اس کی وجہ سے اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دی گئیں۔
یہ اصطلاح اس وقت کارگر ثابت ہوتی ہے جب خواتین لا شعوری طور پر گھروں سے باہر نکلنے لگتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام میں سرایت کرجاتی ہیں یہاں تک کہ وہ برہنہ ہو جاتی ہیں اور قعر مذلت میں جا گر جاتی ہیں اور نا معلوم طریقے سے سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ اس طور پر بنتی جاتی ہیں کہ وہ محض پیسے چھاپنے کی مشین بن جاتی ہیں۔
حالانکہ خواتین کو با اختیار بنانے کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ وہ اس کی اصطلاح خود وضع کریں کہ وہ معاشرے میں جس طرح بھی ترقی کرنا چاہیں انہیں روک ٹوک نہ ہو۔ اگر وہ گھر کی چہار دیواری میں رہ کر دینا کے مسائل حل کرتی ہیں تو اس پر سوال نہیں اٹھنا چاہیے، اگر وہ با حجاب سیاست داں بننا چاہتی ہوں تو اس پر انگلی نہ اٹھے، اور اگر وہ اقتصادی و‌ معاشی میدان میں فیصلہ سازی کی صلاحیت رکھتی ہوں تو اس کا بھی حق انہیں حاصل ہو۔ مجموعی طور پر خواتین کو بااختیار بنانے کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ بلا روک ٹوک انہیں مواقع تک رسائی حاصل ہو۔ با اختیار ہونے کا تعلق تو عزت نفس سے ہوتا ہے۔ لہذا انہیں تعلیمی بیداری، خواندگی اور تربیت کے ذریعے اپنی حیثیت کو بلند کرنے اور اپنے دفاع سے متعلق تربیت بھی دی جانی چاہیے۔
مغرب اور حجاب
خواتین کو بااختیار بنانے کی مذکورہ بالا تعریف سامنے رکھی جائے تو اس سے یہ بات نکل کر آتی ہے کہ مغرب نے یہ باور کر لیا ہے کہ حجاب دراصل تعلیم، بااختیار بننے اور سماجی شراکت داری سے روکتا ہے بلکہ حجاب مسلم خواتین کی نشوونما کو متاثر کرتا ہے اور انہیں ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے روکتا ہے۔ مگر ماضی اور حال کچھ اور ہی بیان کرتے ہیں۔
ما قبل تاریخ کے دور میں انسان کپڑوں سے محروم تھا۔ مگر جیسے جیسے انسانوں نے ترقی کی انہوں نے اپنے جسموں کو ڈھکنا شروع کیا۔ اور اس طرح سے انسانوں نے کپڑوں کی ایجاد کی۔ اسی کو ہم ترقی کہتے ہیں۔ تو کیا ایسی صورت میں محض ایک کپڑے کا ٹکڑا عورت کے جسم کو ڈھکنے کے لیے کافی ہونا چاہیے؟ کیا ایسی صورت میں یہ اس پر ظلم نہیں ہے؟
خواتین کی شناخت اونچی ایڑیوں، لپ اسٹک، میک اپ، گلابی یا جامنی رنگوں سے نہیں بلکہ ان کی پہچان صلاحیت سے ہوتی ہے چاہے وہ پردے میں ہی کیوں نہ رہے۔ جبکہ اسلام خواتین کو اظہار رائے اور انتخابات کی آزادی دیتاہے۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب کے علم بردار یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں خواتین کو سرے سے نظر انداز کیا گیا ہے ۔بسا اوقات وہ اپنے حجاب کی وجہ سے ترس کھائی جاتی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔ ان لوگوں کو احساس بھی نہیں ہے اور نہ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ حقیقی معنوں میں مسلم خواتین باحجاب رہنے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ حجاب کبھی انہیں جبر و تشدد کا‌ احساس نہیں دلاتا بلکہ انہیں ترقی کے منازل طے کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔
سکھ پگڑی،یہودی کپہ (kippah)، عیسائی صلیب اور ہندو گھونگھٹ پہننے کے پابند ہیں۔ ٹھیک اسی طرح اپنے ایمان و ایقان کے اظہار کے طور پر مسلم خواتین باحجاب رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
واضح ہو کہ اسلام سے پہلے عرب اور دیگر تہذیبی معاشرے میں عورتوں کی حالت انتہائی تشویشناک اور پست تھی۔ انہوں نے اپنی عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا اور انہیں کوئی حق نہیں دیا۔ اس دور میں عورتوں کو بدترین سمجھا گیا۔ اسلام کی آمد کے بعد خواتین کی زندگی میں بہار آئی۔
اسلام نے عورت کا مقام اتنا بلند کیا کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو گھریلو، معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق دلوائے۔ اسلام نے عورتوں اور مردوں، دونوں کو ان کے لباس کوڈ عطا کیے۔ انہیں ایک الگ شناخت دی۔ اسلام میں کوئی ایسا قانون نہیں ہے جس میں عورتوں کو گھر کے یا دوسرے کسی خاص کاموں کے لیے مجبور کیا جائے۔ بلکہ اس کے برعکس ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جس میں باحجاب عورتوں نے زندگی کے ہر میدان میں حصہ لیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں جو علم کی بحر ذخار تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے بعد وہ علم و تحقیق کا مرکز بن گئیں۔ یہاں تک کہ سات صحابی فقہا میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی شریک حیات جو کہ اس دور میں عرب میں کامیاب خاتون تاجر تھیں۔
نصیبہ بنت کعب (ام عمارہ): اسلامی تاریخ کا ایک مشہور نام ہے جو جنگوں میں بہادری سے لڑا کرتی تھیں۔
الشفاء بنت عبداللہ (لیلہ): وہ طب کی مشق کرتی تھیں اور بہت زیادہ علم رکھتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں انہیں مارکیٹ کنٹرولر کے طور پر بھی تعینات کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ 20ویں صدی کی خواتین کی ڈھیر ساری مثالیں موجود ہیں جنہوں نے قابل ذکر کردار ادا کیا ہے۔
زینب الغزالی: ایک ایسی سرگرم سماجی کارکن عالمہ جنہوں نے مسلمانوں کا ایک گروپ شروع کیا تھا۔ انہوں نے 1936 میں 18 سال کی عمر میں ویمن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ملک بھر میں جس کی ممبر شپ 30 لاکھ تھی۔
مریم جمیلہ: ایک رجعت پسند مسلمان جو ایک عظیم مصنفہ تھیں اور 30 سے زیادہ کتابیں لکھ چکی ہیں۔ انہوں نے ایک سرگرم مسلم دانشور کے طور پر ایک اہم کردار ادا کیا۔
ابتہاج محمد: ایک امریکی سیبر فینسر (sabre fencer) اور ریاستہائے متحدہ کی باڑ لگانے والی ٹیم کی رکن۔ یہ وہ پہلی امریکی مسلم خاتون ہے جس نے حجاب کے ساتھ اولمپک گیمس میں حصہ لیا اور تمغہ جیتا تھا۔
اکثر مسلم خواتین نے دکھایا ہے کہ حجاب کسی بھی طرح ان کی ترقی میں رکاوٹ یا روڑا نہیں رہا ہے۔
موجودہ دور کے حالات
افسوس کی بات ہے کہ آج کے دور میں حجاب پہننے والی مسلم خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔بہت سی مسلم خواتین کو اپنے کام کی جگہوں پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں صرف اس وجہ سے نوکریوں سے محروم کر دیا جاتا ہے کہ وہ باحجاب ہیں اور اپنی پسند کے مذہب کی پیروی کر رہی ہیں۔ اور اس پر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مسلم خاتون طلباء کو ان کے تعلیم کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ کرناٹک میں مسلم خاتون طلباء کے ساتھ جو ہوا وہ انتہائی تشویشناک ناک ہے۔ وہاں کلاس رومز میں طالبات کو صرف اس وجہ سے رسائی حاصل نہیں ہو سکی کیونکہ وہ با حجاب تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترقی کی راہ میں حجاب مانع نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کی سطحی فکر ہے جو انہیں آگے بڑھنے سے روک رہی ہے۔
( مضمون نگارگرلز اسلامک آرگنائزیشن،( جی آئی او) حلقہ گجرات کی صدر ہیں)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 فروری تا 19فروری 2022