ڈاکٹر سلیم خان
8 مارچ کو عالمی سطح پر منعقدہ یوم خواتین کی مناسبت سے بہت ساری تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سال اس دن کے لیے ایک خاص عنوان ’’ Chose to Challenge‘‘ دیا گیا تھا ۔ اس بار ملک بھر میں شاید ہی کوئی ایسا پروگرام ہو جس میں احمد آباد کی عائشہ کا ذکر نہ ہو۔ عائشہ کی دردناک خودکشی نے خواتین پر مظالم کے خلاف بحث و مباحثہ کو ایک نیا عنوان عطا کر دیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا دائرہ کار جہیز تک محدود کرکے رکھ دیا گیا حالانکہ وہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عائشہ نے خودکشی کر کے ان تمام تنکوں کو بھی غرقاب کر دیا ہے جن کے سہارے خواتین پر ہونے والے مظالم کے خاتمے کا خواب دیکھا جا رہا تھا۔ ایک بات یہ کہی جاتی تھی کہ ہندوستانی معاشرے میں جہالت بہت ہے اور مسلمان اس معاملے میں دیگر اقوام سے دو قدم آگے ہیں۔ اس لیے اگر تعلیم کی روشنی آئے گی تو مظالم کا گھٹا ٹوپ اندھیرا اپنے آپ چھٹ جائے گا۔ عائشہ کا شوہر عارف پڑھا لکھا ہونے کے باوجود اپنی بیوی پر ظلم کرتا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسئلہ محض تعلیم سے حل نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اگر خواتین تعلیم یافتہ ہوجائیں تو کسی کی مجال ان پر ظلم کرنے کی نہیں ہوگی۔ عائشہ پڑھی لکھی تھی اس کے باوجود وہ ظلم کا شکار ہوئی۔ غربت و افلاس کو ازدواجی مظالم کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا تھا اور کبھی سچر کمیٹی کی رپورٹ تو کبھی رنگناتھ کمیشن کی رپورٹ کا حوالہ دے کر یہ سمجھایا جاتا کہ سارے مسائل کی جڑ معاشی پسماندگی ہے۔ یہ اگر دور ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا لیکن عارف کا خاندان خوشحال ہے۔ وہ اور اس کے والد برسرِ روزگار ہیں اور ان کو کرایہ سے بھی آمدنی ہوتی تھی۔ اس سے پتہ چلا کہ اس خودکشی کی اصل وجہ غریبی و مسکینی نہیں ہے۔ یہ بات بھی کہی جاتی تھی کہ اگر خواتین خود کفیل ہوں تو کسی کا ظلم نہیں سہیں گی۔ عائشہ کی بابت یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ کو آپریٹیو بینک میں ملازم تھی اس طرح یہ بت بھی ٹوٹ گیا۔
دہلی میں نربھیا کی عصمت دری کے بعد بھی خواتین پر ہونے والے مظالم ذرائع ابلاغ پر چھا گئے تھے۔ اس وقت دو باتیں بہت زور دے کر کہی گئی تھیں۔ ایک تو یہ کہ ملک کے قوانین اس معاملے میں ناقص ہیں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جسٹس ورما کی سربراہی میں ایک سہ نفری کمیشن تشکیل دیا گیا اور اس کی سفارشات کو شرف قبولیت بھی ملا لیکن مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا یعنی اس مرض پر آئینی اصلاحات کافی و شافی نہیں ہیں۔ ایک خیال یہ تھا کہ اقتدار میں براجمان لوگ کمزور ہیں ان کی جگہ اگر قوم کی باگ ڈور لائق و فائق لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دی جائے تو خواتین پر مظالم کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ یہ دلیل خاصی مضبوط تھی عوام نے اس مقصد کے حصول کی خاطر صوبہ دہلی کے تخت سے شیلا دکشت کو ہٹا کر اروند کیجریوال کو فائز کر دیا۔ اس کے بعد گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا ’بہت ہوا ناری پر اتیاچار، اب کی بار مودی سرکار‘۔ عوام نے یہ بھی کر کے دیکھ لیا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا۔ گجرات میں جہاں عائشہ کا سانحہ رونما ہوا وہاں تو ایک چوتھائی صدی سےکمل کھلا ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سیاسی الٹ پھیر اس وائرس پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ نئی سرکار کے ساتھ نیا نعرہ آیا ’بیٹی بچاو ، بیٹی پڑھاو‘ لیکن یہ نعرہ ایک عائشہ جیسی پڑھی لکھی بیٹی کو بچانے میں ناکام رہا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ محض خوشنما نعروں سے اس عفریت کو نہیں بھگایا جاسکتا۔ وزیر اعظم مودی نے سوچا کہ مسلمانوں کے لیے بھی کچھ کیا جائے تو انہیں خواتین کی بدحالی یاد آگئی اور پتہ چلا کہ سارے مظالم کی جڑ تین طلاق کا نظام ہے۔ انہوں نے یکمشت تین طلاق پر پابندی لگا دی اور اس کا ارتکاب کرنے والے کو تین سال کی سزا مقرر کر دی۔ عائشہ طلاق شدہ نہیں تھی اس کا شوہر عارف فی الحال جیل میں بیٹھا سو چ رہا ہوگا کہ اگر یکمشت تین طلاق دے کر بھی الگ ہو جاتا تو زیادہ سے زیادہ تین سال جیل میں گزار نے کے بعد چھٹی مل جاتی۔ اس کے بعد نہ تو عائشہ خودکشی کرتی اور نہ اس پر قتل کا مقدمہ بنتا۔ عائشہ کی وصیت، ویڈیو اور فون کال کو سننے کے بعد پولیس اپنی فردِ جرم تیار کرے گی اور اس پر کون کون سے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ بعید نہیں کہ گجرات فساد میں مسلمانوں کے قتل عام پر فخر کرنے والے بابو بجرنگی اور مایا کوڈنانی کو رہا کردینے والی عدالت عارف کو پھانسی کے تختے پر چڑھا کر اپنا نام روشن کرلے لیکن کیا اس کے بعد بھی ملک بھر کی خواتین پر ہونے والے مظالم ختم ہو جائیں گے؟ اس سوال کا مثبت جواب ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
احمد آباد کی پولس اب راجستھان کی اس خاتون کو تلاش کر رہی ہے جس کے عشق میں گرفتار ہو کر عارف عائشہ پر ظلم کیا کرتا تھا۔ عائشہ کے والد لیاقت علی خان سے رقم اینٹھ کر اس پر لٹاتا تھا۔ یہ الزام اگر سچ نکل جائے اور وہ عورت غیر مسلم نکل آئے تو اسے ابلہ ناری قرار دے کر مظلوم بنا دیا جائے گا اور عارف پر شادی کے بغیر اس کا استحصال کرنے کا الزام لگ جائے گا۔ عائشہ کے سامنے وہ اس سے ویڈیو کال کیا کرتا تھا اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس معاملے میں بغیر شادی کے ہی گجرات سرکار عارف پر لو جہاد کا مقدمہ ٹھونک دے کیونکہ مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ ویسے اس بیچاری کو کیا پتہ کہ جو رقم اس پر لٹائی جاتی تھی وہ کہاں سے آتی تھی؟ بہر حال اس طرح عائشہ کی موت میں عارف کے علاوہ ایک عورت بھی حصہ دار ہوگئی۔ اس کو مقدمہ میں الجھانے کے لیے نیا کمیشن تشکیل دے کر نئے قوانین وضع کرنے ہوں گے اس لیے کہ موجودہ دستور کے لکھنے والوں نے ایسی صورتحال کے بارے میں نہ سوچا تھا اور نہ قوانین بنائے تھے۔ خیر یہ تو وقت وقت کی بات ہے۔ ملک ترقی کر رہا ہے اور مسائل بھی ارتقاء پذیر ہیں۔
خواتین کے حوالے سے اس ہفتہ رونما ہونے والے سانحات پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے شوہر کی جانب سے مظالم کا شکار ہوتی ہے اور نہ اس کی واحد وجہ جہیز ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں بھی کئی خاوند اپنی بیویوں پر جہیز کی خاطر ظلم ڈھاتے ہیں اور نوبت خودکشی تک پہنچ جاتی ہے جیسا کہ عائشہ کے ساتھ ہوا۔ ممبئی میں یوم خواتین کے موقع پر اردو کارواں کی جانب سے ایک تقریب میں شریک رکن اسمبلی یامنی جادھو نے مرد و خواتین کے درمیان مساوات پر گفتگو کرتے ہوئے ایک نیا زاویہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ مردوں کے مظالم کے علی الرغم خواتین خود دوسری عورتوں کا استحصال کرتی ہیں۔ اس لیے مردوں کے خلاف شکایت کرنے سے قبل عورتوں کو ایک دوسرے کی دشمنی ترک کرنی ہوگی۔ اس بات کو اگر عائشہ، عارف اور اس کی نا معلوم معشوقہ کی جانب لے جائیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ عائشہ کو اپنے شوہر سے کہنا چاہیے تھا کہ عشق کرنے کے بجائے عزت سے شادی کر کے اسے گھر لے آئے اور اس پر اپنی دولت لٹائے مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔
اس طرح کا ایک چونکا دینے والا سانحہ عارف کے صوبے راجستھان میں اسی ہفتہ سامنے آیا۔ بیکانیر میں ٹیکم چند نام کا ایک وکیل رہتا ہے۔ اچانک اس کی ۷۳ سالہ والدہ چندر کور کی لاش ملی تو وہ پولیس کے ذریعہ اپنی ماں کے قاتلوں کو سزا دلانے میں جٹ گیا۔ پولیس کو اس معاملے میں چندر کور کی بہو سنتوش کور پر شک ہو گیا۔ اس نے سنتوش اور اس کی ۱۵ سالہ بیٹی کے موبائل قبضے میں لے کر ان کا لوکیشن دیکھا تو پتہ چلا کہ قتل کے وقت وہ جائے واردات پر موجود تھی۔ پولیس نے سختی سے چھان بین کی تو سنتوش نے تسلیم کیا کہ یہ گھناونی حرکت اس نے اپنی بیٹی کی مدد سے انجام دی ہے۔ پولیس نے چندر کور کی بہو کو جیل اور پوتی کو چلڈرن ہوم میں بھیج دیا۔ ٹیکم چند کو جب یہ پتہ چلا تو وہ سر پکڑ کر بولا ’اب میں کیا کروں؟‘ سنتوش کور نے قتل کی وجہ یہ بتائی کہ اس کا شوہر والدہ کو زیادہ اہمیت دیتا تھا اور یہ انکشاف بھی کیا چونکہ چندر کور نے ٹیکم چند کے چھوٹے بھائی کشور سنگھ کو اپنے ۵۰ ہزار روپے دے دیے تو وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکی اور اس نے مسالہ پیسنے کے موسل سے اپنی ساس کو قتل کر دیا۔ یہ ظلم و جبر کی ایسی عجیب و غریب داستان ہے کہ جس میں مظلوم، ظالم اور اس کی مددگار سب کی سب خواتین یامنی جادھو کے بیان کی تصدیق کرتی ہیں۔ مودی کے گجرات میں تو خیر پولیس والے فی الحال عائشہ کے والد لیاقت علی خان کا بہت تعاون کر رہے ہیں لیکن اگر وہ پچھلے سال عارف کو گرفتاری کے بعد ضمانت سے محروم کر دیتے تو شاید یہ خودکشی کا سانحہ رونما نہیں ہوتا۔ یوگی کے اتر پردیش میں صورتحال مختلف ہے جہاں آئے دن خواتین کی عصمت دری کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں اور ان میں اکثر دلت سماج کی خواتین استحصال کا شکار ہوتی ہیں لیکن اب اس وباء سے نام نہاد اعلیٰ ذات کی خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہاتھرس سے جہاں پچھلے دنوں ایک مظلوم لڑکی کی لاش کو پولیس نے اس کے پسماندگان کی غیر موجودگی میں مٹی کا تیل چھڑک کر جلا دیا تھا، ایک اور چونکانے والا واقعہ سامنے آیا ہے۔ وہاں پر امریش شرما نامی برہمن کو دن دہاڑے ۷۰ مزدوروں اور بیوی و بیٹی کی موجودگی میں گورو شرما نے گولیوں سے بھون دیا۔ وہ اور اس کے سارے ساتھی برہمن تھے۔ ان میں سے ایک واسو شرما گرفتار بھی ہو چکا ہے۔
امریش شرما ایک بڑا زمیندار تھا۔ اس نے 100 بیگھا زمین پر آلو کی فصل اگا رکھی تھی۔ اس کے پاس 20 سال سے کام کرنے والے مزدور جگدیش کا کہنا ہے کہ وہ رحمدل انسان تھے۔ اسے اپنی بیٹی کی شادی کے وقت 25 ہزار کم پڑ گئے تو امریش نے بغیر مانگے 50 ہزار روپے دے دیے تھے۔ اس موت کے پیچھے چھیڑ چھاڑ کے علاوہ خواتین کی آپسی رنجش کا بھی دخل ہے۔ قتل کے دن قاتل و مقتول کی خواتین مندر میں ایک دوسرے سے ملیں تو کہا سنی ہو گئی اس پر گوروو کے گھر کی عورتیں مقتول کی بیٹی پارول سے بولیں کہ آج تمہارے باپ کی لاش گرے گی۔ پارول نے پولیس کو فون کر کے اپنے والد کی جان کو لاحق خطرے سے آگاہ کیا لیکن جواب ملا ہم نہیں آسکتے 112 پر فون کرو۔ پولیس تو نہیں آئی مگر امریش کبھی نہ آنے کے لیے چلے گئے۔ چشم دید مزدوروں کے مطابق قاتلوں نے اندھادھند گولیاں برساتے ہوئے کہا مقدمہ واپس نہیں لیا نا اب مر۔ امریش کا قصور یہ تھا کہ اس نے گورو کے خلاف اس کی بیٹی کو چھیڑنے کی شکایت پولس میں کردی تھی۔ اس طرح گویا اپنی بیٹی کے خلاف ہونے والے مظالم کی شکایت کرنا ایک باپ کے قتل کا سبب بن گیا۔ گورو کے سماجوادی اور بی جے پی دونوں سے تعلقات ہونے کے اشارے ہیں۔
ہاتھرس میں ایک طرف امریش شرما اپنی بیٹی کے لیے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور دوسری جانب اتر پردیش ہی کے شہر ہردوئی میں سرویش نامی ایک سفاک باپ اپنی ۱۸ سالہ بیٹی کا سرکاٹ کر پولس تھانے میں پہنچ جاتا ہے۔ پولیس کے مطابق اس کے چہرے سے کسی رنج و ملال کا اظہار نہیں ہوتا۔ وہ اپنی بیٹی کو عاشق کے ساتھ دیکھ کر اس سے ناراض ہو گیا تھا۔ دو دن انتظار کے بعد جب بیوی دوسرے بچوں کے ساتھ کھیت میں کام کرنے کے لیے گئی تو اس نے موقع دیکھ کر اپنی 17 سالہ بیٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی طرح کا ایک سانحہ پچھلے سال فیروز آباد میں رونما ہواتھا جہاں ایک ظالم باپ نے بجلی کا کرنٹ دے کر اپنی سوئی ہوئی بیٹی کو جگایا اور پھر کلہاڑی سے اس کا سر کاٹ کر ازخود پولیس اسٹیشن پہنچ کر اقرارِ جرم کرلیا۔ اس کو اگر قرار واقعی سزا دی گئی ہوتی تو شاید یہ دوسرا باپ اس طرح کی بزدلانہ جرأت نہیں کرتا لیکن اگر سماج اور انتظامیہ ایسے لوگوں کو سزا دینے میں سنجیدہ نہ ہوں تو ان مظالم کا سلسلہ کیونکر بند ہو سکتا ہے؟
اس طرح کا ایک دردناک واقعہ راجستھان کے دوسا میں بھی رونما ہوا۔ وہاں پنکی نامی لڑکی کو اس کے والد نے شادی کے ۱۷ دن بعد قتل کر دیا اس لیے کہ وہ روشن نام کے ایک نوجوان کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی اور اس کے ساتھ جئے پور چلی گئی تھی۔ پنکی کے باپ شنکر لال سینی نے پولیس میں اغواء کی شکایت کی تو پنکی اور روشن ہائی کورٹ میں حاضر ہو گئے۔ عدالت نے انہیں تحفظ فراہم کر دیا لیکن جب وہ دوسا میں اپنے روشن کے گھر آئی تو پنکی کی ماں چمیلی سمیت ۶ خواتین اور دو مرد اسے زبردستی اپنے گھر لے گئے۔ اس کے بعد پنکی کو سمجھانے بجھانے کے چکر میں شنکر سینی کو غصہ آگیا۔ اس نے گلا دبا کر اپنی بیٹی کو مار ڈالا اور پولیس تھانے میں جا کر کہہ دیا کہ وہ لاش کو اپنے قبضے میں لے کر آگے کی کارروائی کرے۔ اس قتل میں باپ کے علاوہ ماں کا بھی بلا واسطہ ہاتھ ہے اور عدالت کی ناکامی بھی ہے کہ اس کی یقین دہانی کے باوجود پنکی کی جان چلی گئی۔ اس طرح کے واقعات سے عدلیہ سبق لینے کے بجائے عجیب و غریب فیصلے کرتی ہے۔
مہاراشٹر کے ایک سرکاری ملازم موہت سبھاش چوہان کا معاملہ فی الحال عدالتِ عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ اس نے ۶ سال قبل ایک نابالغ کی آبروریزی کی اور اس کی بیوہ والدہ سے تحریری وعدہ کیا کہ بالغ ہوجانے پر بیاہ کرے گا لیکن پھر کسی اور سے شادی رچالی۔ اس کو اگر ابھی گرفتار کرلیا جائے تو وہ ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اس لیے پیشگی ضمانت کے لیے اس نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور وہاں سے ناکامی کے بعد عدالت عظمیٰ کے دروازے پر دستک دی۔ ایسے میں اس ظالم کو سزا دینے کے بجائے چیف جسٹس بوبڈے نے ایک عجیب و غریب پیشکش کر دی۔ انہوں نے کہا ’’اگر تم شادی کے لیے تیار ہو تو ہم تمہاری مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر نہیں کر سکتے تو تم کو اپنی ملازمت کھونی پڑے گی اور جیل جانا ہو گا۔ تم نے لڑکی کو جنسی تعلق کے لیے ورغلایا اور اس کی عصمت دری کی ہے۔‘‘ قاضی اعظم کے اس احمقانہ سوال پر چار ہزار سے زیادہ خواتین، طلبہ، وکلا، فلم سازوں اور ممتاز شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس تبصرے کے ذریعہ یہ پیغام دیاگیا ہے کہ ملک میں انصاف خواتین کا آئینی حق نہیں ہے۔ اس سے ریپ کرنے والوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ شادی ریپ کا لائسنس ہے اور اس کے ذریعے عصمت دری کے جرم کو قانونی شکل مل سکتی ہے۔یہ سب لوگ چیف جسٹس اے ایس بوبڈے سے اپنا تبصرہ واپس لینے اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خیر موجودہ نظام میں اس کا امکان نہیں ہے لیکن جب عدلیہ کا یہ رویہ ایسا ہوگا تو بھلا خواتین کو انصاف کیسے ملے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ کسی خیالی دنیا میں ہے اور اس کو زمینی حقائق کا علم نہیں ہے۔ اسی ہفتہ راجستھان کے ہنومان گڑھ میں پردیپ بشنوئی کو عصمت دری کے الزام میں دو سال بعد ضمانت ملی۔ اس کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا کہ سیدھا لڑکی کے پاس گیا جو شادی کے بعد اپنے شوہر سے ناچاقی کے سبب نانی کے گھر میں رہ رہی تھی۔ دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہونے کے بعد اس نے نانی کو رسی سے باندھا اور اس کے سامنے مٹی کا تیل ڈال کر نواسی کو زندہ جلا دیا۔ ۹۰ فیصد جلی ہوئی خاتون اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ ایسے میں بوبڈے صاحب کے سامنے اگر موہت اپنی ملازمت بچانے کے لیے اس لڑکی سے بیاہ رچا لے تو اس کو بشنوئی بننے سے کون روکے گا؟ کیا ان کا رشتہ ازدواج عائشہ اور عارف سے مختلف ہوگا؟ ان واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ ہم درندوں کے درمیان جی رہے ہیں اور انہیں میں سے کچھ عوام کو مورفین کے طور پر لو جہاد کا انجکشن دے رہے ہیں۔ اس مسئلہ کا حل علامتی طور پر یوم خواتین منانے سے نہیں نکلے گا۔ اس کے لیے خواتین کو ان حقوق واحترام سے نوازنا ہوگا جو دین اسلام نے ان کو دیے ہیں اور نبی کریم ﷺ نے جن پر عمل کر کے قیامت تک کے لیے نمونہ قائم کر دیا ہے۔
***
عائشہ کی موت میں عارف کے علاوہ ایک عورت بھی حصہ دار ہوگئی۔ اس کو مقدمہ میں الجھانے کے لیے نیا کمیشن تشکیل دے کر نئے قوانین وضع کرنے ہوں گے اس لیے کہ موجودہ دستور کے لکھنے والوں نے ایسی صورتحال کے بارے میں نہ سوچا تھا اور نہ قوانین بنائے تھے۔ خیر یہ تو وقت وقت کی بات ہے۔ ملک ترقی کر رہا ہے اور مسائل بھی ارتقاء پذیر ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا 20 مارچ 2021