خواتین ،دعوت و تبلیغ کا کام کیسے کریں؟

مولانا ابوسلیم محمد عبدالحئی ؒ

 

ایک کاشتکار جب بیج بونے کا ارادہ کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ زمین کی تیاری شروع کرتا ہے۔ زمین کی تیاری کے بغیر جو بیج بویا جاتا ہے وہ بے کار جاتا ہے اور کاشتکار کے حصے میں سوائے مایوسی اور محرومی کے کچھ نہیں آتا۔ دلوں میں نیکی کا بیج بونا، خدا کی اطاعت اور اس کے دین کی پیروی کے لیے لوگوں کو تیار کرنا کاشتکار کے کام سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ یوں تو بہت سے لوگ ہیں جو دوسروں کو اچھی باتیں بتاتے ہیں۔ لوگوں کو دین کے راستے پر لانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان میں ہی کم لوگ ایسے نکلیں گے جو اس کام کو سلیقے سے کرنا بھی جانتے ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہتے ہیں اور انہیں سیدھے راستے کی طرف بلاتے رہتے ہیں لیکن لوگ ایک کان سنتے ہیں اور دوسرے کان اڑادیتے ہیں، کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ الٹا اثر یہ ہوتا ہے کہ نیک باتیں بتانے والے خود ہی مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور ان پر ایک خاص قسم کی جھنجھلاہٹ سوار ہوجاتی ہے۔ یہ حال تو ان لوگوں کا ہوتا ہے جو صرف خدا کے لیے بغیر کسی لالچ کے اس کام کو کرنے کے لیے اٹھتے ہیں۔ رہ گئے وہ لوگ جنہوں نے وعظ و نصیحت کو اپنا پیشہ بنالیا ہے تو ان کے لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ لوگوں پر کیا اثر ہورہا ہے، انہیں تو اپنی مزدوری سے کام اس طرح دعوت و تبلیغ کا کام مدھم ہوتے ہوتے تقریباً مٹ سا گیا ہے اور اب تو یہ حال ہے کہ اگر عام لوگوں کو اس طرف توجہ دلائی جائے کہ ان پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ نیکی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں تو یہ بات انہیں عجیب سی معلوم ہوتی ہے، حالانکہ امت مسلمہ کا ہر فرد اپنی ڈیوٹی کے لحاظ سے اس کسان کی مانند ہے جسے دنیا میں نیکی کا بیج بونے اور برائیوں کو جھاڑ جھنکاڑ کو اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ چونکہ اللہ کے ان سپاہیوں نے اپنی ڈیوٹی سے منہ موڑ لیا ہے اسی لیے دنیا میں نیکیاں مٹ رہی ہیں اور برائیاں پھیل رہی ہیں، نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا جتنا اہم فریضہ ہے اتنا ہی یہ کام نازک بھی ہے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے کچھ ضروری آداب ہیں اگر ان کا خیال رکھے بغیر یہ کام یوں ہی شروع کردیا جائے تو نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔
ابتدائی تیاری
اس کام کے شروع کرنے سے پہلے کچھ ابتدائی تیاری کی ضرورت ہے۔
بالکل اسی طرح کی تیاری جیسی ایک کاشتکار بیج بونے سے پہلے زمین کو تیار کرتا ہے۔ گھریلو فضا میں اس کام کو شروع کرنے سے پہلے کی تیاری یہ ہے کہ گھر کے لوگوں سے آپ کے عام تعلقات اچھے ہوں۔ ہمارے گھروں کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اکثر ایک گھر کے رہنے بسنے والوں کے دل ایک دوسرے سےصاف نہیں ہوتے چھوٹی چھوٹی اور نہایت معمولی باتوں کی وجہ سے دلوں میں ایک قسم کا کھنچاو ہوتا ہے، کچھ غلط فہمیاں ہوتی ہیں، کچھ بدگمانیاں ہوتی ہیں، غرض یہ کہ خلوص اور محبت کے بدلے کچھ شکوے شکایات ہوتے ہیں۔ ایسی فضا میں جو بات بھی کہی جائے گی یا تو اس کا وہ اثر نہ ہوگا جو ہونا چاہیے یا پھر بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کی وجہ سے کچھ الٹا اثر ہونے لگے گا۔ یہ پہلو بہت ہی نازک ہے۔ اس کی طرف توجہ دیے بغیر کچھ کام کر لے جانا آسان نہیں۔
جب کسی کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی حد تک اپنے قریبی دائرے میں اللہ کے دین پر عمل کرانے اور نیکیوں پر ابھارنے کے لیے لوگوں کو متوجہ کرے تو اس کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ ان لوگوں سے اپنے تعلقات کو زیادہ سے زیادہ خوش گوار بنائے۔ اگر اس کے دل میں کسی کی طرف سے کوئی میل ہے تو اسے دور کرے ۔ اگر اسے اس کا اندازہ ہے کہ کسی اور کے دل میں اس کی طرف سے شکایت ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرے بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کی موجودگی میں اچھی سے اچھی بات بھی بے وزن ہوجاتی ہے۔ لہٰذا آپ کا سب سے پہلا کام یہی ہے کہ آپ اپنے قریبی ماحول میں اپنے تعلقات کو انتہائی خوش گوار بنانے کی کوشش کریں۔ آپس کی شکر رنجیاں دور کریں۔ اگر آپ کو کسی کا کوئی حق دینا ہے تو بلا تامل فوراً ادا کردیں اگر نہ ہوسکے تو اس سے معاف کرالیں۔ آپ نے کسی کا دل دکھایا ہے یا اس کو کوئی شکایت کا موقع دیا ہے تو اب اس سے معافی مانگ لیں اور آئندہ کے لیے اپنے رویے کو درست رکھنے کا اسے اطمینان دلائیں۔ پوری کوشش کیجیے کہ آپ زیادہ سے زیادہ ہر دلعزیز ہوسکیں۔ اس مقصد کے لیے دوسروں کی جائز خدمت سے جی نہ چرائیے۔ خوش خلقی کو اپنی عادت بنالیجیے۔ اگر خدا نہ کرے منہ بناکر یا تیوری پر بل ڈال کر بات کرنے کی عادت ہوتو ہنس مکھ رہنے کی کوشش کیجیے۔ دل کی ان بیماریوں کا پتہ چلائیے جن کی وجہ سے انسان کج خلق اور بد مزاج ہوجاتا ہے۔ کوئی دل جس میں اللہ کی یاد اس کی صفات کا تصور اور آخرت کی کامیابی کی امنگ موجود ہو۔ حسد، بغض، کینہ اور غصہ جیسی بیماریوں کا گھر نہیں بن سکتا۔ اندرون کو صاف کیجیے تو انشا اللہ بہر بھی چمک پیدا ہوجائے گی۔ صرف اوپری ملمع زیادہ دیر تک نہیں چلتا، بہت جلد قلعی کھل جاتی ہے۔
دوسروں کے دلوں میں جگہ پیدا کرنے کے لیے میٹھی زبان اور نرم گفتگو بہت کار گر ہوتی ہے۔ دوسروں کے بچوں کے ساتھ خاص طور پر محبت سے پیش آئیے، بچوں کے ساتھ شفقت ان کی ماؤں کے دلوں میں جگہ پیدا کرنے کے لیے بے حد مفید ثابت ہوگی۔ غرض یہ کہ یہ اور اسی طرح کی بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کی مدد سے آپ لوگوں کے دلوں کی زمین کو اس نیکی کا بیج بونے کے لیے تیار کرلیں گی جو آپ کو بونا ہے۔
صحیح موقع کی پہچان
زمین کی تیاری کے بعد دوسرا اہم کام مناسب موسم کی پہچان ہے، جو بیج غلط موسم میں بویا جائے گا وہ زمین کی تیاری کے باوجود کامیابی کے ساتھ پھل پھول نہ لاسکے گا۔ نیکی کا بیج بونے کے لیے بھی مناسب وقت اور مناسب موقع کی پہچان نہایت ضروری ہے جو بات کسی غلط موقع پر کہی جاتی ہے وہ چاہے کتنی ہی اچھی بات کیوں نہ ہو اکثر بے اثر ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے آپ کو موقع پہچاننے کی ضرورت ہے۔ آپ نے اندازہ کیا ہوگا کہ جب لوگ کسی مشغلے میں پوری پوری دل چسپی لے رہے ہوں اگر اس موقع پر کوئی ان کو اس کام کی برائیاں گنانے لگے تو وہ ہرگز اس بات پر کان نہ دھریں گے بلکہ اُلٹا ان کے اندر ضد کا مادہ ابھر آئے گا۔ ایک سمجھدار آدمی ایسے موقع پر اپنی بات کہہ کر بے کار نہ کرے گا بلکہ وہ اس وقت کا منتظر رہے گا کہ جب لوگ اس کی بات سننے کے لیے کچھ تو تیار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
’’جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیتوں پر نکتہ چینیاں کررہے ہیں تو اس وقت ان کے منہ نہ لگو یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں (اس وقت مناسب طریقے سے انہیں بات سمجھانے کی کوشش کرو)‘‘ (سورہ انعام آیت 68)
مناسب وقت کے انتخاب کے بعد دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ بات کس ڈھنگ سے کہی جائے۔ وہی بات اگر ڈھنگ سے کہی جائے تو اثر کرتی ہے لیکن اگر اسے بے ٹھنگے اور بھونڈے طریقے سے کہہ دیا جائے تو بجائے اچھا اثر ہونے کے الٹا غلط اثر ہوتا ہے۔ لوگوں تک بھلی بات پہنچانے کے لیے آپ کو انداز بھی بہت اچھا اختیار کرنا پڑے گا ورنہ ڈر ہے کہ نتیجہ الٹا ہی نکلے ۔ اس سلسلے میں چند مفید مشورے یہ ہیں:۔
(1) فرض کیجیے کہ آپ کے گھر میں کوئی ایسی خاتون ہیں جو خدا نخواستہ نماز کی پابند نہیں ہیں۔ آپ کے لیے یہ بات بہت تکلیف دہ ہے۔ آپ چاہتی ہیں کہ انہیں نماز کی تلقین کریں اور اس کے لیے آپ یہ طریقہ اختیار کریں کہ انہیں بات بات پر لعنت ملامت کریں۔ ان سے نفرت اور حقارت کا برتاو کریں۔ مثلاً اس قسم کے جملے۔ ’’ایسے نمازی کے ساتھ تو کھانے پینے کو بھی دل نہیں چاہتا، اتنی بڑی ہوگئیں نہ خدا کا خوف نہ بندوں کی شرم، انہیں نماز پڑھنا بھی مصیبت نظر آتی ہے، جو اللہ کی نافرماتی کرے اس سے تو اللہ نے بھی تعلقات توڑ لینے کا حکم دیا ہے‘‘۔
یہ اور اسی قسم کے بہت سے جملے ایسے ہوسکتے ہیں جن کو بول کر آپ تو یہ سمجھیں گی کہ آپ نیکی کا حکم کرنے کی ذمے داری پوری کررہی ہیں لیکن نتیجے کے اعتبار سے آپ کی کوشش بے کار جائیں گی۔ ایک ہی بات کہنے کے دو الگ الگ طریقے ہوسکتے ہیں۔ ایک نفرت کا طریقہ، دوسرا محبت اور شفقت کا طریقہ۔ ایک کسی کام کو مشکل اور مصیبت بناکر پیش کرنے کا طریقہ دوسرا آسانی اور سہولت کا طریقہ۔ آپ ہر بات کہنے کے لیے محبت، شفقت اور آسانی کا طریقہ پسند کریں۔ جو بات کہیں میٹھے اور نرم انداز میں کہیں۔ ہر برائی سے روکنے کے لیے اور ہر نیکی کا حکم کرنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
(2) لوگوں کے اندر کچھ برائیاں اس طرح جڑ پکڑ گئی ہیں کہ اب ان کی نظر میں وہ بھلائیاں ہوگئی ہیں۔ کچھ غلط باتوں کے ساتھ انہیں عقیدت ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر تعزیہ داری، مزاروں کے ساتھ جاہلانہ عقیدت کونڈے، بی بی کی صحنک، اصحاب کہف کا توشہ وغیرہ وغیرہ نہ جانے کتنی رسمیں ہیں جو انتہائی عقیدت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔ اب اگر اصلاح کے جوش میں آپ براہ راست ان چیزوں پر لعن طعن شروع کردیں گی تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلے گا کہ دوسری طرف سے ضد اور ہٹ دھرمی سے آپ کا مقابلہ شرو ع ہو جائے گا اور آپ کی اصل بات بالکل دب کر رہ جائے گی۔ ایسی کوئی بات کہنا جس سے آپ کے مخاطب کے دل پر پہلے ہی چوٹ پڑے مناسب نہیں۔
اس کا مطلب نہیں ہے کہ آپ غلط باتوں کی تائید کریں یا ان میں شرکت کریں بلکہ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ ان باتوں کو پہلے آنے ہی نہ دیجیے۔ صرف اتنی بات کہیے جس کے کہنے کے لیے آپ نے مخاطب کے دل میں گنجایش پیدا کرلی ہو۔ بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر ۔۱۰
جب وہ باتیں دل میں جم جائیں گی تو پھر ان سے آگے مزید باتیں کہنے کی گنجایش آپ سے آپ نکل آئے گی اور وقت آئے گا کہ آپ ایک ایک برائی پر کھل کر تنقید کرسکیں گی۔
(3) ہر شخص کا ایک مقام ہوتا ہے۔ آپ کے گھر میں بھی کچھ لوگ عمر اور رشتے کے لحاظ سے آپ سے بڑے ہوں گے۔ اگر بات کہنے میں آپ ان کے مرتبے اور رشتے کا لحاظ نہ رکھیں گی تو نتیجہ الٹا ہوگا اور یوں بھی یہ ایک اسلامی اخلاق ہے کہ کسی شخص کو اس کے مناسب اور جائز مرتبے سے گرانے اور اسے ہلکا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اپنی گفتگو اور بات کہنے کے ڈھنگ میں اس بات کا انتہائی دھیان رکھنا چاہیے۔
(4) ہر شخص کے سامنے اتنی بات کہنا چاہیے جتنی بات کو وہ سمجھ سکے اور بات کہنے کا انداز بھی ایسا ہونا چاہیے کہ سننے والا بات صاف طریقے سے سمجھ جائے کم پڑھی لکھی خواتین کے سامنے آگے اونچی اونچی باتیں کہنا شروع کردی جائیں تو ان کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ پھر یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اگر پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں کے سامنے بات اسی طریقے پر کہی جائے جس طریقے پر کم سمجھ اور ان پڑھ لوگوں سے کہی جاتی ہے تب بھی اثر نہ ہوگا۔ اس لیے آپ کے لیے بڑا ضروری ہے کہ آپ جس کسی سے بات کریں اس کی سمجھ اور عقل کے مطابق بات کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک کم سمجھ عورت آئی آپ نے اس سے پوچھا کہ خدا کہاں ہے؟ اس نے انگلی اوپر اٹھا دی۔ حضورؐنے اس کے لیے اتنا ہی کافی سمجھا۔ اس کے سامنے توحید اور ذات باری کے وجود کے سلسلے میں دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ اسی طرح آپ جس سے بات کریں اس کی عقل اور سمجھ کو سامنے رکھ کر بات کریں۔
(5) کچھ لوگوں کی عادت ہوتا ہے کہ وہ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر بات کہتے ہیں چاہے وہ سننے کے لیے تیار ہوں یا نہ ہوں۔ انہیں گھیر گھیر کر بات سنانا چاہتے ہیں۔ انہیں اپنی بات کہنے کی ہوس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ موقع بے موقع کہتے رہتے ہیں۔ یہ صورت بھی مناسب نہیں۔ بات چاہے تھوڑی کہی جائے مگر اس حال میں نہ کہی جائے کہ لوگ سننے سے بیزار ہوں۔ حضرت عبدالرحمن بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو وعظ کہا کرتے ھتے۔ ایک شخص نے ان سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ آپ روزآنہ وعظ کہا کریں۔ آپ نے فرمایا کہ میں اس لیے ایسا نہیں کرتا ہوں کہ کہیں تم بیزار نہ ہو جاؤ۔ میں بھی اسی طرح ناغہ کرکے تمہیں نصیحت کرتا ہوں جس طرح رسولؐ ناغہ کرکے ہمیں نصیحت فرمایا کرتے تھے تاکہ ہم بیزار نہ ہوجائیں۔
(6) اس سلسلے کا آخری او رضروری مشورہ یہ ہے کہ اگر بات کہنے اور سمجھانے میں کسی موقع پر بھی بحث اور مباحثہ کی کیفیت پیدا ہوجائے تو فوراً بات بند کردینا چاہیے۔ ایسے موقع پر اپنی بات منوالینے کی خواہش اکثر آپ کو شیطان کے پھندے میں پھنسادے گی اور پھر خیر کے بدلے شر پیدا ہوگا۔ (ماخوذ:دین کی حفاظت،مسلم خواتین کے کرنے کے کام)

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ چونکہ اللہ کے ان سپاہیوں نے اپنی ڈیوٹی سے منہ موڑ لیا ہے اسی لیے دنیا میں نیکیاں مٹ رہی ہیں اور برائیاں پھیل رہی ہیں، نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا جتنا اہم فریضہ ہے اتنا ہی یہ کام نازک بھی ہے۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے کچھ ضروری آداب ہیں اگر ان کا خیال رکھے بغیر یہ کام یوں ہی شروع کردیا جائے تو نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 اکتوبر تا 3 نومبر، 2020