خدا کی ذات پر کامل یقین سے ہی مسائل کا حل ممکن

مشکلات کا شکوہ نہ کریں ، حالات کو بدلنے کا عزم کریں

محمدطفیل ندوی ، ممبئی

زمانہ اس تیزی سے بدل رہا ہے کہ جس انقلاب کو پہلے ایک طویل مدت درکار ہوتی تھی اب وہ دیکھتے ہی دیکھتے رونما ہو جا تا ہے آج کے ماحول کا زیادہ نہیں پندرہ بیس سال پہلے سے موازنہ کرکے دیکھیےزندگی کے ہر شعبہ میں کا یا ہی پلٹی ہوئی نظر آئےگی لوگوں کے افکار و خیالات، سوچنے سمجھنے کے انداز،معمولات زندگی معاشرت، رہن سہن کے طریقے، باہمی تعلقات غرض زندگی کے ہر گوشے میں ایسا انقلاب برپا ہو گیا ہے کہ حیرت ہو تی ہے ۔ کاش یہ برق رفتاری کسی صحیح سمت میں ہوتی تو آج یقیناً ہماری قوم کے دن پھر چکے ہوتے لیکن شدید حسرت افسوس اس بات کا ہے کہ یہ ساری برق رفتاری الٹی سمت میں ہو رہی ہے کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہاہے۔
’’تیز رفتاری ہے مگر جانب منزل نہیں‘‘
دنیا میں بڑے بڑے انقلابات خاص خاص انسانوں کے وجود سے تعلق رکھتےہیں اس لیے انسانوں کی پیدائش کے ایام کو بھی دنیا عظمت کے ساتھ یاد رکھنا چاہتی ہے اس میں فاتحین کی بے پناہ تلواروں کی جھنکار ہے، حکیموں کی حکمتوں اور دانائیوں کے دفاتر بھی ہیں،فلسفیوں اور علماء کے علم و فلسفہ کے خزائن بھی ہیں،صناعوں کی ایجادیں اور سرفروشوں کی داستانیں بھی ہیں۔ اگر یہ بڑے بڑے صناع اور موجدین بڑائی رکھتے ہیں تو ان کے ایجادوں نے انسانوں کو کس قدر امن و سلامتی بخشی اور کہاں تک صراط سعادت پر چلایا ؟ پس دنیا اگر واقعی اپنی حقیقی نفع بخش تجارت کے لیے بے چین ہے تو اس کے لیے راحت و تسکین کا پیام صرف ایک ہی ہے، ایک ہی زندگی ہے اس کا دکھ بھی ایک ہی ہے اور اس لیے شفا کا نسخہ بھی ایک ہی ہے۔ اس کا پر وردگاربھی ایک ہی ہے اس کی ہدایت و رحمت کا آفتاب بھی ایک ہی ہے جس کے عالم تسخیرکے اندر دنیا اپنی تمام تاریکیوں کے لیے نو ر بشارت پاسکتی ہے اور اس کے لیے صرف وہی ایک ہے جس نے تمام عالم کی اجڑی ہوئی بستی کی دوبارہ رونق آبادی کا اعلان کیا اس نے اس رب العالمین کی طرف بلا یا جو تمام نظام ہستی کا پر درد گار ہے ۔ پھر مسلمان بہانہ بازی کر کےمغلوبیت کی سطح پر آنے کی کوشش کر تا ہے تویہ اسلام کی ابتدائی تاریخ پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہوگا اور اس بات کا اعلان ہو گا کہ وہ بیش قیمت خون جو بدرو حنین واحد میں بہا یا گیا وہ بے ضرورت بہایا گیا تھا ۔ اگر تمھیں حالات کا شکوہ ہے، خرابی ماحول کی شکایت ہے تو سرکار دوعالم ﷺجہالت و گمراہی کے جس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں تشریف لائے وہ کسی انسان پر پوشیدہ نہیں اس دور میں دین پر عمل پیراہونا آج سے ہزار گناہ زیادہ مشکل تھا آج اگر ہم نماز روزے کا اہتمام کرنا چاہے تو روئے زمین پر کوئی روکنے والا نہیں ہے لیکن اس دور میں خدائے واحد کا نام لینا بھی جرم عظیم تھا آج ہم اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اس کی بندگی کریں تو کوئی رکاوٹ نہیں۔ لیکن اس دور میں اللہ کا محبوب ترین پیغمبر اللہ کے گھرمیں سجدہ توحید بجالاتا تھا اس کی پشت پر نجاستوںکےانبار رکھ دیئے جاتے تھے اور محض پتھروں کی خدائی کا انکار کر نے کے جرم میں پوری دنیا اس کی جانی دشمن اور خون کی پیاسی ہو جاتی تھی اس پر وسائل معاش بند کر کے عرصہ زندگی تنگ کردیا جا تا تھا لیکن آپ اور آپ کے جانثار صحابہ نے اس دور میں بھی عمل کر کے دکھایا آج دنیا میں حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوجائیں اسلام پر عمل کر نے کی مشکلات ان مشکلات کا ہزارواں حصہ بھی نہیںہیں جو عہد رسالت وعہد صحابہ میں اس خدائی دین کے پرستاروں کو پیش آتی تھی ماحول کی جس خرابی سے آج ہم دوچار ہیں اس میں اسلام کی سب سے پہلی ہدایت یہ ہےکہ اللہ کےساتھ اپنے تعلق کو مستحکم کریں آج ہماری پریشانیوں اور بے چینیوں کی اصل جڑ یہ ہے کہ ہم نفس اور مادہ کے غلام ہو کر رہ گئے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم کو ڈرانے والے ڈرا رہے ہیں نکالنے والے نکالنے کی سازشیں کر رہے ہیں ۔ اور ہم حکومت سے اپیل کررہے ہیں انصاف کی بھیک مانگ رہےہیں۔ مساوات و سیکو لرزم کے نام پر دہائی دے رہے ہیں۔ اور ہر وہ کام کر نے پر آمادہ ہیںجو ایک مسلمان کے لیے ننگ وعار بلکہ ذلت و گمراہی کے مترادف ہے اگر ہم کو من حیث القوم زندہ رہنا ہے اور اپنا بلند منصب دنیا سے تسلیم کرانا ہے تو ہم کو ان حقیر وذلیل حرکتوں سے باز آنا ہو گا انصاف کی بھیک مانگنا رحم کی اپیل کرنا انسانیت کا واسطہ دینا اور ذلت کی اس حد تک پہونچ جانا جہاں ہم چوہےبلیوں کی طرح قتل کر دیئے جائیںاور کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل دیئے جائیں کسی خوددار اور با عزت قوم کا شیوہ ہر گز نہیں ہوسکتا ۔ چہ جائیکہ مسلمان قوم کا جو دنیا کی سب سے اعلیٰ وارفع قوم ہے اور جس کا اس دنیا میں خلافت کا وہ عظیم منصب ہے جس پر فرشتوں کو بھی رشک آتا ہے لیکن ہماری نگاہ ہر وقت مادی منافع اور نفسانی لذتوں کی سیرابی پر مر کوز رہتی ہے اور اللہ کی ذات و صفات پر جو اعتماد و یقین اور اس کی قدرت کا ملہ کا جو اس وقت ایک مسلمان کی سب سے بڑی دولت تھی اسے ہم کھو چکے ہیں۔حالانکہ ہمارے مسائل کا حل صرف خدا پر صحیح بھروسہ اور خود اعتمادی میں مضمر ہے ہم کو اگر زندہ رہناہے اور عزت کی زندگی گزارنا ہے توہم کو مسلمان قوم کا صحیح اور مکمل نمونہ بننا ہوگا ایمان اور غیرت کی دبی ہوئی چنگاری کو پھر سے شعلہ بنانا ہوگا کیونکہ ہمارا ایمان ایک ایسے دین پرہے جس میں تمام کا میابیوں کا مدار ایک قادر مطلق ذات ہے جس کی مشیت کے بغیر دنیا کا ایک ذرہ ادھر سے ادھر ہونہیں سکتا ۔ تو پھر آخر ہم خرابی حالات کاشکوہ شکایت کیوں کریں، ہم دوسروں سے مشکلات کا شکوہ کرنے کے بجائے اس ذات کی طرف کیوں نہ رجوع کریںجس کے ہاتھ میں ان سارے حالات کی باگ ڈور ہے۔
(مضمون نگارامام الہندفائونڈیشن ممبئی کے جنرل سکریٹری ہیں)