خبر و نظر
پرواز رحمانی
جب تنازع شروع ہوا
کرناٹک کے ایک سرکاری کالج میں جب طالبات کے حجاب کا تنازع پیدا ہوا تو باخبر لوگوں کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ برسر اقتدار گروہ کا یہ نیا ایپی سوڈہے جس کا مقصد مسلم خواتین کو ہدف بنانا ہے۔ ویسے مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کا کام پہلے ہی شروع ہوگیا تھا جب انہیں آن لائن بدنام کیا جارہا تھا، ان کی نیلامی کی جارہی تھی۔ یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ اڈپی کالج کا قصہ چھڑگیا۔ شرپسندوں کا یہ تیر بھی نشانے پر لگا اور مسلمانوں نے اپنی عادت کے مطابق احتجاج شروع کردیا۔ ایک جماعت کے ذمہ دار نے اس لڑکی کے لیے پانچ لاکھ روپے انعام کا اعلان کردیا جو شرپسندوں کے ایک ہجوم سے بچ کر نکل گئی تھی۔ شرپسندوں اور تخریب کاروں کے منصوبہ ساز تو یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان ان کے ہر عمل پر اپنا ردعمل ظاہر کریں تاکہ انہیں شر انگیزی کے مزید مواقع مل سکیں۔ اس سے انکار نہیں کہ ہر غلط کام پر اپنا موقف ملک کے سامنے رکھا جائے لیکن اس کے بعد نہایت ضبط و تحمل اور دور اندیشی کے ساتھ اس کے تدارک کی کوششیں کی جائیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا بھی غلط ہے۔ اس سے غلط پیغام جاتا ہے۔ تدبیر بھی ضروری ہے۔ لیکن یہ تدبیر حضورؐ کے طریقے کے مطابق ہو، مکی زندگی کا نقشہ ذہن میں رکھا جائے۔ مکے میں کفار اپنی تدبیروں پر عمل کرتے تھے اور آپؐاللہ کی رہنمائی میں اپنے طریقوں پر عمل تھے۔
بد طینیتوں کا طریقہ
ہر جگہ کے بدطینیتوں کا یہ خاص طریقہ ہے کہ وہ جس گروہ یا حلقے کو اپنا ہدف بناتے ہیں، اسے زیادہ سے زیادہ مشتعل کرتے ہیں، بلکہ مشتعل ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔ پھر جب اس کے نادان افراد کوئی قانونی یا غیر قانونی کارروائی کرتے ہیں تو اسے بنیاد بناکر یہ لوگ اسے مزید مطعون کرتے ہیں اور ان کے ہاتھ اپنی ہر کارروائی کا جواز آجاتا ہے۔ مسلمانان ہند بحیثیت مجموعی اس دائرے میں نہیں آتے۔ انہوں نے بڑی بڑی اشتعال انگیز کارروائیوں پر ضبط و تحمل کا ثبوت دیا ہے۔ حال ہی میں بابری مسجد کا فیصلہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں تھا لیکن مسلمانوں نے مثالی ضبط کا مظاہرہ کیا۔ تاہم بعض اوقات وہ شرارتیوں کے مقاصد کو سمجھے بغیر جذبات میں آجاتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا بھی اسے خوب ہوا دیتا ہے۔ اڈپی کے کالج کا مسئلہ اس قابل نہیں تھا کہ اسے دیکھتے ہی دیکھتے آل انڈیا لیول کا مسئلہ بنادیا جاتا۔ مقامی مسلمان معقول غیر مسلم برادران وطن اور کالج کے سنجیدہ اہلکاروں کی مدد سے اسے اڈپیتک محدود رکھتے مگر سادہ لوح مسلمان سوشل میڈیا کا شکار ہوگئے۔ سوشل میڈیا کا بڑا حصہ بظاہر مسلم طالبات کی ہمدردی میں یہ سب کررہا تھا مگر یہ ہمدردی نہیں، بد خواہی تھی، بد طینیتوں کے پٹارے میں تو سیکڑوں مسائل ہیں وہ بات بات پر اشتعال انگیزی کرسکتے ہیں۔
حالات کا شعور ضروری ہے
آزادی سے پہلے کے حالات کچھ اور تھے آزادی کے بعد کی صورتحال کچھ اور ہے جس کا رخ اسی وقت واضح ہوگیا تھا جب نام نہاد جمہوریت اور ون مین ون ووٹ کا تصور پیش کیا گیا کہ اب یہاں جو کچھ ہوگا اکثریت کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ اس اکثریت میں کروڑوں سے زیادہ کی وہ آبادیاں بھی شامل ہیں جنہیں سماج میں برابری کا درجہ حاصل نہیں۔ جنہیں انتہائی چالاکی مگر ذہانت کے ساتھ سماج کا اٹوٹ انگ بناکر رکھا گیا ہے اور اکثریت کی دھاک جمانے کے لیے ان آبادیوں ہی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ حالات بڑے نازک اور آزمائشی ہیں۔ مسلمانوں کو مکمل اسلامی فراست اور دور اندیشی کے ساتھ لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ جس حال میں ہے اورجیسا بھی ہے، ملت اسلامی ہند کا نمائندہ ادارہ ہے۔ نمائندگی کا حق ادا کرنے کا یہی موقع ہے۔ اس کے ارکان سر جوڑ کر بیٹھیں اور دیکھیں کہ صورت حال کیا ہے اور مستقبل میں کیا کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کیا رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ کی سیرت کیا کہتی ہے۔ درست ہے کہ ہمارے مسلکی جھگڑے آج بھی زندہ ہیں۔ لیکن انہیں بھی پرسنل لا بورڈ ہی سلجھا سکتا ہے۔ ان جماعتوں، اداروں اور افراد کواب بورڈ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے جو بوجوہ اس سے دور ہیں۔ عام مسلمانوں کے اندر مین اسٹریم میڈیا کی جارحیت اور سوشل میڈیا کی جذباتیت کو سمجھنے کا شعور پیدا کرنا بھی ضرری ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022