خبر و نظر

پرواز رحمانی

’’ہر چیز ہر کسی کے لیے‘‘
ایم کے اسٹالن سے تو آپ واقف ہی ہیں۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے کے قد آور لیڈر آنجہانی ایم کروناندھی کے بیٹے اور سیاسی جانشین ہیں۔ کروناندھی کے بعد پارٹی کا کاروبار انہوں نے ہی سنبھالا تھا۔ پھر انتخابات میں اے آئی ڈی ایم کے کے خلاف الیکشن جیت کر تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ بھی بن گئے۔ آج کل وزیر اعلیٰ وہی ہیں۔ اسی سال ۲۶ جنوری کو انہوں نے آل انڈیا فیڈریشن آف سوشل جسٹس کے نام سے ایک وسیع تر پلیٹ فارم قائم کیا ہے اور ملک کی سیاسی پارٹیوں اور سماجی گروپوں کو دعوت دی ہے کہ اس پلیٹ فارم میں شامل ہوں۔ اسٹالن نے تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں اور اہم غیر سیاسی شخصیات کے نام ایک تفصیلی مکتوب بھی لکھا ہے۔ ۳ فروری کے اخباروں کے مطابق اسٹالن نے اپنے مکتوب میں کہا ہے کہ آج ملک اتحاد اور اس کی یکجہتی کو مذہبی تعصب اور جبر و زبردستی سے زبردست خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اگر یہ صورت حال باقی رہی تو یہ ملک جلد ہی بکھر جائے گا لہٰذا تمام ذمہ دار شخصیات سے اپیل ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم میں شامل ہو کر صورتحال کے استیصال کے لیے کام کریں۔ اسٹالن نے تمام سیاسی پارٹیوں سے کہا کہ اس پلیٹ فارم کے لیے اپنے نمائندے نامزد کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس پلیٹ فارم کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے، صرف ان لوگوں کو مٹانا ہے جنہوں نے سیاست کا سہارا لے کر ملک کے اقتدار پر قبضہ جما رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل جسٹس کا سیدھا سادہ مفہوم ہے ’’ہر چیز ہر کسی کے لیے‘‘

ممتا آگے بڑھیں گی
ادھر ممتا بنرجی نے ایک پرزور خطاب میں کہا ہے ’’ملک اور سماج کی خاص دشمن بھارتیہ جنتا پارٹی ہے اور ہمارا مقصد اسی کو اقتدار سے برطرف کرنا ہے، اسی لیے ہم نے ترنمول کانگریس کو آل انڈیا وسعت دی ہے‘‘۔ اپنی پارٹی کی صدر منتخب کیے جانے کے بعد پارٹی ورکروں اور لیڈروں سے خطاب کرتے ہوئے ۲ فروری کو انہوں نے کہا کہ ہمارا اصل مقصد بھگوا پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہے۔ اسٹالن کا مکتوب ممتا کو بھی مل گیا ہوگا ہر چند کہ خطاب میں اس کا حوالہ نہیں ہے لیکن ممتا بنرجی کے خطاب کے نکات اسی پس منظر میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اصل دشمن بھگوا پارٹی ہے۔ لہٰذا ہم دیگر بی جے پی مخالف پارٹیوں اور عوام کی مدد سے بھگوا پارٹی کو اقتدار سے مٹانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یاد رہے کہ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس یو پی کے موجودہ الیکشن میں سماج وادی پارٹی کی حمایت کررہی ہے لیکن اعلان کیا ہے کہ 2024کے لوک سبھا انتخابات میں وہ اپنے امیدوار بی جے پی کے خلاف اتارے گی۔ ادھر بی جے پی (آر ایس ایس) کی پیدا کردہ ذہنیت کو پورے ملک میں پھیلانے کے لیے لگاتار کام کر رہی ہے۔ یو پی میں اس کے لوگ مسجدوں، قبرستانوں، مدرسوں، گاو کشی، آبادی میں اضافے اور شہروں سے نقل آبادی جیسے مسائل ابھار کر غیر مسلموں کو مسلمانوں کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ کرناٹک میں کالجوں کی لڑکیوں کے حجاب کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ ابتدا میں یہ مسئلہ اڈپی میں کالج کی مسلم طالبات کے حجاب سے اٹھا تھا، دیگر طالبات کو اس کے خلاف بھڑکایا گیا تھا۔ اب یہ دوسرے شہروں تک پھیل رہا ہے۔

یہی وہ ذہنیت ہے
غیر مسلم طالبات سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مسلم طالبات کے حجاب کے مقابلے پر گیروا اسکارف ڈال کر کالج جائیں۔ اب پتہ نہیں اس فرمان کو کتنی مقبولیت حاصل ہو گی، تاہم رد عمل یہ دیکھا جا رہا ہے کہ وہ مسلم طالبات بھی جو پہلے حجاب نہیں کرتی تھیں اب حجاب میں کالج جاتی ہیں۔ اسی دوران کرناٹک میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ بنگلورو کے ایک اسٹیشن پر پورٹروں (قلیوں) کا ریٹائرنگ روم ہے جہاں قلی حسب ضرورت کچھ دیر آرام کرتے ہیں۔ ان میں سبھی مذاہب اور خیالات کے قلی ہیں۔ مسلم قلی اوقات نماز میں نماز بھی ادا کر لیا کرتے ہیں۔ لیکن ایک بھگوا گروپ ہندو جن جاگرتی سمیتی نے شور مچایا کہ اس جگہ پر مسلم پورٹروں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ بعد میں ریلوے افسروں نے مداخلت کی، کمرہ کھلوایا، اس میں رنگ روغن بھی کروایا اور اسے سابقہ حالت میں بحال کر دیا۔ اب وہاں مسلم پورٹر حسب معمول نماز بھی پڑھ رہے ہیں۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس کی طرف ایم کے اسٹالن اور ممتا بنرجی نے اشارہ کیا ہے۔ اسی کی وجہ سے ملک کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ سوشل جسٹس پلیٹ فارم کے سلسلے میں اسٹالن کی اپیل کہاں تک پہنچے گی اور کتنی کامیاب ہو گی یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس میں شک نہیں کہ اسٹالن کا اقدام بروقت ہے، یہ ہر اچھے شہری کی ضرورت ہے۔ سیاسی پارٹیوں اور ذمہ دار شہریوں کو اس پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس ماحول سے سب سے زیادہ متاثر مسلم برادری ہی ہے اس لیے حالات کے تدارک کے لیے انہیں خاص طور سے کام کرنا ہو گا اور اسٹالن جیسے اقدامات اس میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 فروری تا 19فروری 2022