خبر و نظر

پرواز رحمانی

جب نئی لیڈر شپ کا شور بلند ہوا
2012-13 میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی میں نئے لیڈر کی صورت گَری ہونے لگی اور چاروں طرف شور برپا ہوا کہ نیا لیڈر گجرات سے ہے اور اس کے لائم لائٹ میں آنے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے 2001 میں یکطرفہ فسادات میں جو گجرات میں ٹرین کی آتشزدگی کے بعد کرائے گئے تھے، بہت اہم رول ادا کیا تھا۔ پارٹی میں کوئی اور لیڈر اس ‘معیار’ کا نہیں تھا۔ اٹل بہاری بیمار تھے اور کمزور ہو گئے تھے۔ اڈوانی بھی معمر ہو گئے تھے۔ ارون جیٹلی، سشما سوراج اور شیو راج چوہان کے نام بھی آرہے تھے لیکن بہت پیچھے تھے۔ زیادہ شور گجراتی لیڈر کا ہی تھا۔ چنانچہ پہلے اسے جنرل الیکشن کی مہم کا انچارج بنایا گیا۔ پھر جلد ہی وزارت عظمیٰ کے لیے نام پیش کردیا گیا۔ ’’اب کی بار مودی سرکار‘‘ کے نعرے بلند ہوے لگے۔ یہاں تک کہ پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے ایک بار ’’اب کی بار بھاجپا سرکار‘‘ کہہ دیا تو سب ان پر پِل پڑے۔ پھر سن 2014 میں عام انتخابات ہوئے۔ بی جے پی غیر معمولی اکثریت سے منتخب ہوئی۔ مگر بہت سوں کے نزدیک آج بھی وہ اکثریت مشکوک ہے۔ خیر، مودی کی حکومت بنی اور بڑے تام جھام سے بنی۔ مودی نے اپنے دوست پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو بھی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیا، تقریب میں عوام وخواص کے لیے دوسرا اٹریکشن وہی تھے، اور اس طرح نئی حکومت کا آغاز بظاہر خوش گوار طریقے سے ہوا۔ ویسے بھی اس حکومت کے سلسلے میں ایک پرانا خیال یہ تھا کہ بی جے پی اب حکومت میں فرقہ پرستی کا سہارا نہیں لے گی اور اپنی حکومت انصاف کے ساتھ چلائے گی۔

پھر کیا ہوا
انتخابی مہم کے دوران بھی پارٹی توازن قائم کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ مثلاً اس نے جب اپنی انتخابی منشور جاری کرنے کا پروگرام بنایا تو اعلان کیا کہ اس منشور کے ساتھ ہی مسلم برادری کی فلاح و بہبود کا ایک پروگرام بھی جاری کیا جائے گا لیکن عین وقت پر وہ منسوخ کر دیا گیا۔ جس کے بعد وہ خوش گمانی اور حسن ظن جو بی جے پی لیڈروں کے بعض بیانات اور اقدامات سے قائم کی جا رہی تھی، یکسر جاتی رہی۔ کچھ تبصرے بھی آئے کہ جس نظریاتی گروہ کی سرپرستی میں یہ حکومت بن رہی ہے، مذہبی اقلیتوں اور سماجی لحاظ سے دبے ہوئے طبقوں کو اس سے کسی بھلائی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ پھر جب حکومت بنی تو اس نے اول روز ہی سے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا۔ پہلا بڑا واقعہ دلی کے پاس یو پی میں محمد اخلاق کو گھیر کر مارڈالنے کا پیش آیا۔ اس کے بعد ایک مویشی کے نام پر بے گناہوں کو گھیر کر مارنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ شہریت کے قانون میں ظالمانہ تبدیلی کے خلاف شہریوں نے احتجاج کیا اور دلی کے شاہین باغ میں مسلم خواتین کے دھرنے سے حکومت کے لوگ پاگل ہو گئے۔ حکمراں پارٹی کے لیڈر مسلمانوں کو بے لگام گالیاں بکنے لگے۔ حکومت اور حکمراں پارٹی اس طوفان بد تمیزی میں بالعموم خاموش رہیں۔ وزیر اعظم نے دو بار بظاہر سخت بیان دیا، شرارتیوں کو دھمکیاں دبھی دیں لیکن کسی پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ شر انگیزی کرنے والے لوگ وزیر اعظم کی باتوں پر ہنستے تھے کہ وہ کس منہ سے انہیں نصیحت اور ڈانٹ ڈپٹ کر رہے ہیں، آخر وہ بھی تو ان طریقوں ہی سے آگے آئے ہیں۔

ایک نئی شرارت
اور اب یہ جو مسلم خواتین کی تذلیل کا سلسلہ شروع کیا گیا، یہ بھی دراصل اسی قدیم ایجنڈے کا حصہ ہے۔ شر پسندوں اور غلیظ سیاست دانوں کے نشانے پر مسلم خواتین اسی وقت آگئی تھیں جب انہوں نے شہریت کے قانون میں تبدیلی کے خلاف دلی میں آواز بلند کی تھی اور اوکھلا کے قریب واقع شاہین باغ میں بے مثال دھرنا دیا تھا۔ مسلم خواتین کی اس جرأت سے شر پسندوں کی نیند اڑگئی تھی اور انہوں نے مسلم خواتین کے خلاف اول فول بکنا شروع کر دیا تھا۔ کچھ مقامات پر ان بد کاروں نے دھرم سنسد کے نام سے پروگرام کر کے مسلمانوں اور مسلم خواتین کو خوب برا بھلا کہا، دھمکیاں دیں، مغلظات بکیں، ان میں کچھ نام نہاد دھارمک لوگ بھی تھے۔ اس کے علاوہ ’گڈہب‘ پر ’’بلی بائی ایپ‘‘ نام کے بیہودہ ایپ پر مسلم خواتین کو خاص طور سے ہدف بنایا۔ بے ہودگی کا یہ طریقہ کئی ماہ سے جاری ہے لیکن مرکزی حکومت یا کسی ریاستی سرکار نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ پہلی بار مہاراشٹرا کی پولیس حرکت میں آئی اور اس نے تین افراد کو گرفتار کیا۔ اس کے بعد مرکزی حکومت اس وقت حرکت میں آئی جب اسے پتہ چلا کہ اسی ایپ پر کچھ ہندو خواتین کی تصویریں بھی جاری کی گئیں۔ چنانچہ مرکزی وزیر مواصلات نے ٹویٹ کرکے اس کی اطلاع دی اور قصور واروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ۔ خبر ہے کہ دلی پولیس نے ایپ کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہاں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جب مسلم خواتین کے خلاف مہم چل رہی تھی تو اس وقت حکومت حرکت میں کیوں نہیں آئی۔ مہاراشٹرا کی حکومت اور اس کی پولیس قابل ستائش ہے کہ اس نے ذمہ دارانہ کارروائی کی۔ مسلم قائدین اور ذمہ دار شہریوں کو اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہیے۔ اس کی گہرائی تک پہنچنا بھی بہت ضروری ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  16 جنوری تا 22 جنوری 2022