خبر و نظر

پرواز رحمانی

سعودی عرب کے اقدامات کے بعد
سعودی عرب میں مبینہ منفی تبدیلیوں اور تبلیغی جماعت کے خلاف جمعے کے بیانات کے بعد خیال تھا کہ امت مسلمہ انہیں اپنے مسائل سمجھ کر ان پر غور کرے گی اور غیر ضروری و بے موقع باتوں کو چھیڑے بغیر ان کا کوئی حل نکالنے کی کوشش کرے گی مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ کوئی شک نہیں کہ ان خبروں سے پوری امت کو ذہنی تکلیف پہنچی ہے۔ امت کا بہت بڑا حصہ سکتے کے عالم میں ہے۔ بہت سے مسلمان اپنے اپنے طور پر بہت کچھ سوچ رہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی دیکھی جا رہی ہے کہ بعض لوگ اب بھی مسالک اور طریقوں کی الجھنوں میں الجھ رہے ہیں جو حلقے مملکت سعودیہ کے نمک خوار ہیں وہ اس حال میں بھی دبی زبان سے مملکت کا دفاع کر رہے ہیں یا خاموش ہیں اور وہ حضرات جو مسلک دیو بند اور تبلیغی جماعت کے مخالف ہیں وہ یک گونہ خوشی کا اظہار کر رہےہیں اور اس دعوے کے ساتھ ہم اول روز سے کہتے آ رہےہیں کہ تبلیغی جماعت غلط عقائد پر قائم ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اس پر بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں جو افراد تبلیغی جماعت سے اصولی اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی خاموش نہیں، اور کسی نہ کسی پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ برصغیر میں ہندوستان اور پاکستان میں یہ عمل عام ہے۔ پاکستان میں ویڈیوز پر ویڈیوز آرہے ہیں۔ ایک پوری ویڈیو میں ایک صاحب تبلیغی عقائد اور طریقوں سے بحث کرتے ہوئے بتار ہے تھے کہ جو کام سعودی حکومت نے آج کیا ہے جبکہ ہم اس پر عرصہ دراز سے توجہ دلا رہے ہیں۔

ایک جذباتی بحث
بعض حلقے سعودی حکمرانوں کے نئے اقدامات سے تو صرفِ نظر کر رہے ہیں ایک لیکن ان کے دفاع کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے ہیں۔ پاکستان میں تبلیغی جماعت کے کسی حمایتی نے یہ جذباتی بیان دے دیا تھا کہ ’’سعودی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور پابندی ہٹالی‘‘۔ اس پر ایک سلفی صاحب نے ایک پورے ویڈیو میں بحث کی ہے اور یہاں ’’گھٹنے ٹیکنے‘‘ کے الفاظ کو بے موقع ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہا ہے کہ اس میں گھٹنے ٹیکنے کی کیا بات ہے، سعودی حکومت نے کسی کو مقابلے کی دعوت نہیں دی تھی، اس نے جو درست سمجھا اپنے طور پر کیا لیکن انہوں نے نئے سعودی حکمرانوں کے انداز کار پر غور نہیں کیا۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ دوستی کرکے اور تبلیغی جماعت پر قدغن لگا کر پوری امت کو چیلنج کیا ہے۔ انداز ایسا ہے کہ ہم حکمراں ہیں، تیل کی دولت اور حرمین الشریفین ہمارے پاس ہیں ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ تبلیغی جماعت پر پابندی کی مخالفت امت کا بڑا حصہ کر رہا تھا اسی احتجاج کے نتیجے میں مملکت نے پابندی ہٹائی ہے، اگر ہٹانے کی بات صحیح ہے۔ پاکستان میں کچھ اور ویڈیوز میں بھی اس حلقے نے نے جواب الجواب کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے کچھ لوگوں نے مولانا سلمان ندوی کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔ بعض لوگوں کے نزدیک گویا یہ بعض افراد کا ذاتی معاملہ ہے لہٰذا ان کی ذاتوں ہدف بناکر بیان بازی کی جارہی ہے۔ البتہ ہمارے ملک میں لوگ بالعموم معقول باتیں کرتے ہیں۔

امت کا موقف ایک ہو
حیدرآباد دکن میں ایک سلفی عالم دین نے بڑی مفید باتیں کہی ہیں۔ ایک خطاب عام میں انہوں نے کہا ’’تبلیغی جماعت پر پابندی کا مسئلہ مسلمانوں کا مسلکی مسئلہ نہیں ہے جسے تنازعہ کا سبب بنا دیا گیا ’تبلیغی جماعت دینی جماعت ہے’ اچھا کام کر رہی ہے۔ مناسب ہو گا کہ مسلمانوں کی سب جماعتیں جمیعۃ اہلحدیث، جمیعۃ علما ہند، جماعت اسلامی ہند اجتماعی طور پر یہاں (ہند میں) سعودی نمائندوں سے ملاقات کرکے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھیں کہ تبلیغی جماعت کوئی غلط کام نہیں کر رہی ہے اس پر پابندی غلط ہے‘‘۔ یہی موقف سب مسلمانوں کا ہونا چاہیے۔ جہاں مسلکی اختلافی مسائل ہیں، ان پر معقولیت اور ٹھنڈے دماغ سے بات کریں، انہیں طول نہ دیں، سعودی مملکت کے حالیہ اقدامات نے پوری امت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس موقع پر ہر ملک کے مسلمانوں کا موقف یکساں ہونا چاہیے۔ گروہی اور مسلکی اختلافات کی متحمل یہ امت نہیں ہو سکتی۔ جو لوگ حالات سے فائدہ اٹھا کر ایک دوسرے پر لعن طعن کر رہے ہیں، وہ غلط کر رہے ہیں۔ رہا سعودی مملکت کی صورتحال کا معاملہ تو وہاں کے حکمراں اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہیں۔ ان پر حرمین الشریفین کی خدمت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ جس کا حساب اللہ کے سامنے انہیں دینا ہو گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  09 جنوری تا 15 جنوری 2022