خبر و نظر
پرواز رحمانی
وبا اور فسادات کے دوران
گزشتہ سال موسم سرما میں تین اہم واقعات تقریباً ایک ساتھ رونما ہوئے۔ 1-کورونا وائرس۔ 2- لاک ڈاون کا مختلف النوع سلسلہ۔ 3- دلی میں فسادات کی لہر۔ کورونا وائرس یا کووڈ-19 ایک عالمگیر وبا ہے۔ لاک ڈاون کا عمل دراصل اسی کا نتیجہ ہے جو انڈیا کے مختلف حصوں میں مختلف اوقات میں نافذ کیا جاتا ہے اور فسادات کا سبب یہ رہا کہ دلی میں بی جے پی کے شرپسند لیڈروں نے ان لوگوں کے خلاف مغلظات اور دھمکیوں کا بازار گرم کر رکھا تھا جو شہریت کے نئے قانون سی اے اے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ان لوگوں نے جنوبی دلی کی شاہین باغ کالونی میں غیر معینہ مدت کا دھرنا بھی دے رکھا تھا جس کا اہتمام خواتین نے کیا تھا۔ خواتین چوبیسوں گھنٹے وہیں رہتی تھیں۔ اس پروگرام کی شہرت پورے ملک میں پھیل رہی تھی۔ اس سے تحریک پا کر ملک کے کئی بڑے شہروں میں اپنی نوعیت کے پروگرام ہو رہے تھے، یہ سب دیکھ کر مرکزی حکومت اور بی جے پی کی ریاستی حکومتیں بد حواس ہو گئی تھیں اور حکمراں پارٹی کے دوسرے درجے کے لیڈر غنڈہ گردی پر اتر آئے تھے۔ ان دھرنوں میں زیادہ تعداد مسلم خواتین کی ہوا کرتی تھی، اس لیے کہ سی اے اے کا اصل ہدف مسلمان ہی تھے۔
دلی پولیس کی کارکردگی
تاہم مسلمانوں کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ خصوصاً حقوق انسانی اور حقوق شہری کے گروپ، دلت طبقات اور سکھوں کے کئی حلقے اس دھرنے کی حمایت اور سی اے اے کی مخالفت کر رہے تھے اور دوسرے کئی کئی گروپ دھرنے کی حمایت میں آجاتے۔ یہ سب حکمراں گروہ کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ لہٰذا اس نے دلی پولیس کو استعمال کیا۔ دلی میں حکومت اگر چہ عام آدمی پارٹی کی ہے لیکن دلی پولیس مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ اس نے فسادیوں کے نام پر عام اور غیر متعلق افراد کو پکڑنا شروع کر دیا۔ اصل فسادیوں کو صرف اسی صورت میں پکڑا جانا تھا جب وہ رنگے ہاتھ ہوں، بصورت دیگر مسلمانوں اور ان گروپوں کے افراد کو اندھا دھند پکڑا جارہا تھا جو فسادات اور سی اے اے کی مخالفت کے لیے کہیں جمع ہوتے تھے۔ ایسا ہی ایک گروپ پنجرہ توڑ نام کا تھا۔ گزشتہ سال اس کی دو خاتون ارکان اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم آصف اقبال تنہا کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ مقدمہ چلتا رہا۔ بالآخر 15جون کو دہلی ہائی کورٹ نے تینوں ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ حکم جاری کرتے ہوئے دو رکنی بنچ نے کہا ’’حق کے لیے احتجاجی مظاہرہ کرناد ہشت گردی ہرگز نہیں ہے۔ ہمیں حقوق کے مطالبات اور دہشت گردی کے واقعات کو سمجھنا ہو گا۔ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
کورٹ کے آرڈر کے بعد بھی پولیس ملزمین کی رہائی میں رکاوٹیں ڈالتی رہی۔ کبھی ویری فیکیشن کے نام پر وقت مانگا، بالآخر ضمانت رکوانے کے لیے سپریم کورٹ پہنچ گئی۔ لیکن سپریم کورٹ نے 18جون کو دلی پولیس کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت نہیں کرسکتی، مگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ضمانت صرف اسی مقدمے کے لیے تھا کسی اور کیس میں اس فیصلے کو مثال نہیں بنایا جاسکتا، شاید کورٹ کو اندیشہ تھا کہ فسادات کے سلسلے میں یو اے پی اے کے تحت ماخوذ بہت سے افراد ہائی کورٹ کے فیصلے کو نظیر بنا کر سپریم کورٹ میں لائن نہ لگا دیں۔ اگر ایسا ہوتا تو حکومت وقت کی مرضی کے خلاف ہوتا۔ حکومت کے لیے تو تین ملزمین (نتاشا، دیوانگنا اور آصف اقبال) کو ضمانت پر رہا کیا جانا ہی بہت بڑا دھکا ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ کا فیصلہ اس اعتبار سے تو اچھا ہے کہ اس نے ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت نہیں کی لیکن دوسرے گرفتار شدگان کے لیے دروازے بند کر دینا مایوس کن ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ اس پہلو سے بھی قابل ستائش ہے کہ اس میں پولیس کی سرزنش کی گنجائش نکلتی ہے۔ قصور واروں سے چشم پوشی کرکے بے قصوروں کو اندھا دھند گرفتار کرنا دلی پولیس پرانی عادت، اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہیے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021