خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

گیارہ دن کی جنگ میں
اس بار کی گیارہ دنوں کی فلسطین-اسرائیل جنگ کئی پہلووں سے یادگار ہو گی۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ فلسطین-اسرائیل جنگ نہیں بلکہ حماس بمقابلہ اسرائیل تصادم تھا۔ فلسطینی اسٹیٹ جسے فلسطین اتھاریٹی کہا جاتا ہے اسرائیل کے ساتھ کبھی لڑی ہے نہ لڑ سکتی ہے اس لیے کہ اس کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے اور امریکہ، اسرائیل کا سرپرست ہے۔ فلسطینی اتھاریٹی کا صدر ایک کٹھ پتلی صدر ہے جسے فلسطینیوں کی اکثریت تسلیم نہیں کرتی۔ فلسطین میں ایک با معنی قوت صرف حماس ہے جو اسرائیلی جارحیت سے عسکری مدافعت کے ساتھ دعوت دین اور خدمت خلق کے شعبوں میں بھی کام کرتی ہے۔ اگرچہ اس کا وجود صرف غزہ تک محدود ہے لیکن اس کی قدر پورے فلسطین میں کی جاتی ہے۔ یہ حماس ہی تھی جس نے اس بار اسرائیل سے لوہا لیا۔ آسان بات نہیں تھی لیکن حماس نے محض راکٹوں سے اس فوجی طاقت کا مقابلہ کیا۔ ہر چند کہ زیادہ جانی اور مالی نقصان حماس ہی کا ہوا، غزہ تقریباً تہس نہس ہو گیا جس کی باز آبادکاری میں دہائیاں لگیں گی لیکن حماس اور اس کے حامیوں کے جوش ایمانی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ غزہ میں جشن فتح منایا گیا۔ حماس کی اس کارکردگی سے انتفاضہ یاد آگیا اب ان لوگوں نے اینٹ پتھروں سے فوجیوں کا مقابلہ کیا تھا اور اسرائیل کو جھکنا پڑا تھا۔
خوش آئند اشارے
دوسری بات یہ ہے کہ جنگ بندی میں پہل اسرائیل کی جانب سے ہوئی یعنی حماس کے راکٹوں نے اسرائیل کو اس پر مجبور کر دیا۔ اسرائیل پر عالمی دباو بھی بڑھ رہا تھا۔ دباو اگرچہ دونوں پر تھا لیکن اسرائیلی جارحیت کی تاریخ کے پیش نظر سنجیدہ ممالک اسرائیل پر ہی زیادہ زور دے رہے تھے۔ تیسری بات یہ کہ یہ پہلا موقع ہے جب عالمی طاقتوں نے اسرائیل کی جارحیت کا نوٹس لیا۔ اسرائیل کی مذمت چاروں طرف سے ہوئی۔ کئی ملکوں نے اس کے خلاف قراردادیں منظور کیں۔ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل نے بھی مذمتی قرارداد کی تحریک پیش کی ہے۔ چوتھی بات یہ کہ حماس کی اس کامیابی سے خواہ وہ کسی درجہ کی اور کسی نوعیت کی ہو، دنیا کے مسلم عوام الناس کے حوصلے بڑھے ہیں اور فلسطین کے تعلق سے ان کے دلوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ اس جنگ سے اسرائیل نواز عرب حکمرانوں کو بھی یہ پیغام ملا ہے کہ محض اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کے لیے امت مسلمہ کو نظر انداز کر کے کھلے دشمنوں سے روابط بڑھانا ٹھیک نہیں۔ نوٹ کرنے والوں نے نوٹ کیا ہوگا کہ اس گیارہ روزہ جنگ کے دوران ہر عرب مالدار ملک نے بالکل خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ حماس کی حمایت میں تو یہ بول ہی نہیں سکتے تھے اس لیے کہ وہ حماس کے اسرائیل سے زیادہ دشمن ہیں جس طرح عرب دنیا میں اخوان المسلمون کے دشمن ہیں۔
یہ طویل المدت منصوبہ ہے
اب جنگ بندی کے بعد فلسطین کی حمایت میں ہمدردی کی زبانیں کھلی ہیں لیکن کوئی منصوبہ کہیں سے نہیں آیا۔ مسلم امہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ عرب دنیا نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی استواری کی جو تحریک کی ہے وہ جلد یا بدیر اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔ یہ بہت طویل المدت منصوبہ ہے جس کا مقصد عرب مدنی وسائل کو پوری طرح اسرائیل کے حوالے کرنا ہے۔ عرب دنیا میں اسرائیل کے خیر مقدم کی تیاریاں خاموشی کے ساتھ جاری ہیں۔ قلعہ خیبر کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ اس کے قریب کوئی نہیں جا سکتا۔ اس کے برعکس عمر بن عبدالعزیز کے دور خلافت کی کئی مساجد اور یادگار عمارتوں کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ عربوں کے یہود نواز حمایتی ہمارے برصغیر میں بھی پائے جاتے ہیں، ان کی زبان میں زبان ملا کر الاخوان اور حماس کو دہشت گرد کہتے ہیں۔ اس لیے ہم عام مسلمانوں کو اپنے گردو پیش سے بھی باخبر رہنا ہو گا۔ فلسطین کی حمایت کے سوال پر بہت سے مسلمانوں کو ایران سے کچھ تحفظات ہیں۔ یہ تحفظات انہیں کو مبارک ہوں۔ لیکن ترکی، ملائشیا، پاکستان اور قطر جیسے ممالک کی کوششوں کی حمایت تو کر سکتے ہیں۔ کسی دولت مند عرب ملک پر اعتبار کرنا خطرناک ثابت ہو گا۔ گزشتہ 30 تا 35 برسوں سے مسلم امہ پر چاروں سے جو آزمائش آئی ہے یہ عرب اسرائیل کھیل اسی کا حصہ ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 6 جون تا 12 جون 2021