خبر و نظر
پرواز رحمانی
ایمرجنسی اور آج
انگریزی روزنامہ ’ہندو‘ کے فروری کے شمارے میں مدراس کے دو قارئین این جی آر پرساد اور ڈی ناگا سپلا کا ایک مشترکہ مکتوب جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔ جسٹس چندرا چوڑ نے حال ہی میں ایک کتاب کے اجراء کے موقع پر کہا تھا،، ۴۵ سال قبل جب ایمرجنسی نافذ کی گئی تو شہری آزادی ختم کر دی گئی تھی اور مجھے بھی سرکاری زیادتیوں کا تجربہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے ایمرجنسی کے حق میں رائے دی تھی۔ اب یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مذہبی اقلیتوں کی حالت جنہیں دستور ہند نے بہت سی ضمانتیں دی ہوئی ہیں آج ایمرجنسی سے کچھ بھی مختلف ہے؟ بہت سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے اقلیتیں خوف و ہراس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، مثلاً شہریت کا ترمیمی قانون جو مسلمانوں کے خلاف ہے، بابری مسجد انہدام کیس کے ملزمان کی تھوک کے بھاو براءت، جموں وکشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ ۳۷۰ کی اندھا دھند تنسیخ اور اب دو مذاہب کے افراد کے مابین شادی پر پابندی لگانے والا سرکاری آرڈینینس جس کے تحت مسلم نوجوانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ یہ ایمرجنسی نہیں تو کیا ہے؟
نئی حکومت کے طور طریقے
گجرات کے وزیر اعلیٰ کو جب ملک کا وزیر اعظم بنایا گیا تو ان کی حکومت کے ابتدائی دنوں ہی سے ان کے طریق کار اور طرز عمل کی تنقیص ظاہر ہو گئی تھی۔ سب سے مضبوط اور مطمئن آواز خود پارٹی کے ایک قد آور لیڈر لال کرشن اڈوانی کی تھی۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ملک ایمر جنسی کی طرف جا رہا ہے‘‘ یہ وہی اڈوانی ہیں جن کی رتھ یاترا سے گجرات کے لیڈر کو اپنا گراونڈ بنانے میں بہت مدد ملی تھی۔ مدراس کے دو مراسلہ نگاروں نے آخر میں لکھا ہے کہ ’’دائیں بازو کی اکثریت رکھنے والا ملک جہاں آئینی حقوق گہن زدہ ہو گئے ہیں اور جہاں اقلیتیں اور سماج کے دیگر الگ تھلگ کر دیے جانے والے لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں اسے ایمر جنسی کی حالت والا ملک ہی کہا جائے گا‘‘۔ ایمرجنسی ۱۹۷۵ میں اندرا گاندھی کی حکومت نے لگائی تھی اور آئین و قانون اور شہری حقوق بالائے طاق رکھوائے گئے تھے۔ سنجے گاندھی بغیر کسی ذمہ داری کے عملی حکمراں بن بیٹھے تھے۔ اندرا گاندھی کے بعد اُنہی کی چلتی تھی۔ تقریباً روزانہ ایک آرڈیننس جاری ہوتا تھا۔ میڈیا حکومت کی مرضی اور اشاروں کا پابند تھا۔
ِہاں دستور وہی ہے
آج بغیر کسی اعلان یا ضابطے کے وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو حکمراں چاہتے ہیں یعنی جو ایمرجنسی ہی میں ہوسکتا ہے۔ ملک کو گیروے رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔ سرکاری کام پوجا پاٹ سے شروع ہوتے ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم جب کسی ملک یا اندرون ملک کسی شہر میں جاتے ہیں اگر وہاں کوئی مشہور مندر یا مورتی ہو تو پہلے وہاں حاضری دیتے ہیں جب کہ دستور میں کسی مذہب کی طرف حکومت کے جھکاو کی نفی کی گئی ہے۔ گویا ملکی دستور کو بدلے بغیر وہ سارے کام ہو رہے ہیں جو حکومت کے لوگ چاہتے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں بے حد کمزور ہیں یہ سب دیکھ رہی ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتیں۔ ویسے دستور بدلنے کی کوشش بھگوائیوں نے بہت کی اٹل بہاری باجپئی کے زمانے میں عوام سے باقاعدہ رائے بھی طلب کی گئی تھی لیکن بات نہیں بنی۔ اب عددی اکثریت کی وجہ سے حکومت کو اطمینان ہو گیا ہے کہ جب تبدیلی کے بغیر ہی کام ہو رہا ہے تو ٹھپا لگانے کی کیا ضرورت۔ موجودہ صورت میں کم از کم دنیا میں یہ شہرت تو ہے کہ ’’بھارت سب سے بڑا جمہوری اور سیکولر ملک ہے‘‘ مدراس کے مراسلہ نگاروں نے صرف اقلیتوں کی مثال پر اکتفا کیا ہے ورنہ اجتماعی زندگی کے دوسرے شعبوں میں تو حالت اس سے بھی بدتر ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021