پرواز رحمانی
شمالی ہند میں رام لیلاؤں کا شور یوں تو ہر سال سنائی دیتا ہے لیکن اس سال یہ کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتا ہے، اس لئے کہ رام لیلاؤں کی کمان حکمراں بی جے پی نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ دارالحکومت دہلی میں درجنوں رام لیلا کمیٹیاں ہیں ہر کمیٹی میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے ممبر شامل ہیں۔ دہلی اسٹیٹ کی بی جے پی ان سب کو آرگنائز کر رہی ہے۔ رام لیلاؤں میں یہ جوش اس لئے بھی پیدا ہوا ہے کیوں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے رام مندر کے حق میں فیصلہ آگیا ہے۔ اجودھیا میں رام مندر کے کام کی بنیاد بھی رکھی جا چکی ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم اور آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنی بھر پور نمائش بھی کی تھی جسے میڈیا کے ذریعے ساری دنیا میں پیش کیا گیا اور یوں دنیا کو یہ پیغام بھی دیدیا گیا کہ اب بھارت میں شری رام کے سیاسی پجاریوں کا تسلط قائم ہو چکا ہے۔ آئندہ رام لیلاؤں میں اس خیال کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔ اجودھیا میں بھومی پوجن کے موقع پر حکومت اور اپوزیشن کے کئی لیڈر کہہ چکے ہیں کہ یہ محض رام مندر کی نہیں بلکہ ایک نئے بھارت کی بنیاد ہے۔ گویا اب ہندتوا کے ہر عمل کو شری رام کے نام پر پیش کیا جائے گا۔
رام مندر کا شور
ہر سرکاری اور غیر سرکاری کام میں شری رام کو استعمال کرنے کا پروگرام آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے گزشتہ سال بنایا تھا۔ اس سے پہلے ان کا ذہن یہ تھا کہ حکومت کے منصوبوں میں تمام دیش واسیوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ یہ بات دیش واسیوں اور دنیا والوں تک پہنچانے کے لیے انہوں نے نئی دہلی کے وگیان بھون میں تین دن کا ایک بڑا پروگرام کیا تھا جس میں ملک کے ہر میدان کے سرکردہ افراد کے علاوہ غیر ملکی سفیروں اور کچھ مہمانوں کو بھی بلایا تھا۔ تین دن کے لگاتار بھاشن میں بھاگوت نے اپنا منصوبہ تفصیل کے ساتھ پیش کیا تھا۔ مسلم شہریوں کے بارے میں صاف صاف کہا کہ ان کی شمولیت کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا لہٰذا مسلمان ہر کام میں ہمارے ساتھ رہیں گے لیکن چند ہی روز بعد ان کے خیالات یکسر بدل گئے۔ اس دوران غالباً انہوں نے سوچا ہوگا کہ سب کو ساتھ لے کر ہمارا نصب العین حاصل نہیں ہو سکے گا اس لئے ہمیں اپنی لائن کی طرف واپسی کرنی ہوگی اور واپسی کی بہتر لائن رام جنم بھومی ہی ہو سکتی ہے جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے اب ہم اس لائن کو کیوں چھوڑیں؟ چنانچہ بھاگوت نے ایک بیان میں اچانک کہا کہ حکومت کو رام مندر کے لئے پارلیمنٹ میں بل پیش کر دینا چاہئے۔
سیاسی پیغامات
یہ اعلان رام مندر کی نئی تحریک کا سبب بن گیا۔ حکومت اور حکمراں پارٹی متحرک ہوگئیں۔ سپریم کورٹ کے لئے ضوابط طے کر لئے گئے اور سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کو مجرمانہ عمل بتانے کے باوجود بابری مسجد کی زمین کو اُنہی کے حوالے کر دی۔ چنانچہ اب کی بار کی رام لیلائیں اِسی شور کے درمیان منعقد ہوں گی۔ دہلی میں رام لیلا کا اتنا زور ہوگا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے بڑے بڑے لیڈر رام لیلا کا حصہ بنیں گے اور ان میں مختلف کردار ادا کریں گے۔ کورونا وائرس کی پابندیوں کے باوجود یہ پروگرام رات رات بھر چلیں گے۔ دہلی کے لال قلعے میں یہ پروگرام یومِ آزادی کے طور پر منایا جائے گا۔ گزشتہ سال رام لیلا کے پروگرام میں وزیر اعظم، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال شریک ہوئے تھے۔ بی جے پی کے زیر حکومت ریاستوں میں اس بار رام لیلاؤں میں نئے نئے سیاسی تماشے دیکھنے کو ملیں گے۔ پروگراموں میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کو بھی خاص طور سے مدعو کیا جائے گا۔ ان پروگراموں کے ذریعے بی جے پی لوگوں کو سیاسی پیغامات بھی دے گی اور بات بات پر شری رام اور ان کی تاریخ کے حوالے دیے جائیں گے۔
رام لیلاؤں میں یہ جوش اس لئے بھی پیدا ہوا ہے کیوں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے رام مندر کے حق میں فیصلہ آگیا ہے۔ اجودھیا میں رام مندر کے کام کی بنیاد بھی رکھی جا چکی ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم اور آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنی بھر پور نمائش بھی کی تھی جسے میڈیا کے ذریعے ساری دنیا میں پیش کیا گیا اور یوں دنیا کو یہ پیغام بھی دیدیا گیا کہ اب بھارت میں شری رام کے سیاسی پجاریوں کا تسلط قائم ہو چکا ہے۔ آئندہ رام لیلاؤں میں اس خیال کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔ اجودھیا میں بھومی پوجن کے موقع پر حکومت اور اپوزیشن کے کئی لیڈر کہہ چکے ہیں کہ یہ محض رام مندر کی نہیں بلکہ ایک نئے بھارت کی بنیاد ہے۔ گویا اب ہندتوا کے ہر عمل کو شری رام کے نام پر پیش کیا جائے گا۔