خبر و نظر

فساد کی کوئی وجہ نہیں تھی

پرواز رحمانی

 

اِس سال 6 فروری کو دہلی کے شمال مشرقی حصے میں خوں ریز فسادات ہوئے تھے۔ فسادات کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی۔ البتہ مرکزی حکومت نے قانون شہریت میں ترمیم کر کے ایک نیا قانون بنایا تھا جس کے خلاف بہت سے شہریوں میں غم و غصہ تھا اور پورے ملک میں اس کے خلاف احتجاجی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ اس لئے کہ اس میں غیر ملکی شہریوں کو ہندوستانی شہریت دے کر باقاعدہ یہاں بسانے کا اہتمام کیا گیا ہے بشرطیکہ وہ غیر مسلم ہوں۔ احتجاج میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب جنوبی دہلی کے شاہین باغ علاقے کی مسلم خواتین غیر معینہ مدت کے لیے دھرنے پر بیٹھ گئیں جس میں غیر مسلم خواتین بھی بڑی تعداد میں شریک ہو کر اس کی حمایت کرنے لگیں ۔اس سے مرکزی حکومت اور حکمراں پارٹی پریشان ہوگئیں۔ چنانچہ اس کے دوسرے درجے کے لیڈروں نے اشتعال انگیز بیانات دینے شروع کر دیے۔ اس کے رد عمل میں کچھ مسلمان اور کچھ دوسرے شہریوں نے بھی مزاحمتی بیانات دیے۔ دہلی پولیس نے انکوائری کے نام پر ان فسادات کی جو رپورٹ تیار کی ہے وہ قطعاً یک طرفہ اور جانبدارانہ ہے۔ اس کی چارج شیٹ کی خبروں سے بہت سے لوگ پریشان ہوگئے ہیں۔ اس لئے دہلی اقلیتی کمیشن نے سرکردہ افراد پر مشتمل اپنی ایک ٹیم کے ذریعے تحقیقات کروائی جو دہلی پولیس کے برعکس ہے ۔ ّدہلی پولیس مشکوک ہے
اس رپورٹ کے بعد ملک کے کچھ سربرآوردہ شہریوں نے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو ایک مکتوب کے ذریعے توجہ دلائی کہ ان فسادات کی انکوائری از سرِ نو کرائی جائے کیونکہ یہ رپورٹ دہلی پولیس کی رپورٹ سے بالکل مختلف ہے۔ادھر سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ بھی دہلی پولیس کی کارکردگی پر شکوک ظاہر کرچکی تھیں۔لیکن دہلی پولیس اپنے ایجنڈے کے مطابق تیاری کررہی تھی۔اس نے عدالت میں بحث کے لئے چھ وکلاء کا ایک پینل تشکیل دے کر دہلی لفٹننٹ گورنر کے پاس بھیجا ۔لفٹننٹ گورنر نے دہلی کے وزیر اعلیٰ کو حکم دیا کہ اس پینل کو اپنی منظوری دیں لیکن وزیر اعلیٰ کو یہ منظور نہ تھا۔ چنانچہ مسٹر کیجریوال نے ۲۸؍جولائی کو کابینہ کی میٹنگ بلا کر اپنے ساتھیوں سے صلاح و مشورہ کیا۔کابینہ نے دہلی پولیس کے پینل کو یکسر مسترد کردیا اور اپنے ہوم ڈپارٹمنٹ سے کہا کہ عدالت میں ان فسادات پر دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ بحث کے لیے ملک کے بہترین وکیلوں کی ایک ٹیم منتخب کرے۔یوں اب تازہ پوزیشن یہ ہے کہ عدالت میں دہلی حکومت کی جانب سے اس کی اپنی نامزد مجلس وکلاء ہوگی۔ دیگر فریقوں کے بارے میں ابھی نہیں معلوم کہ کون کون ہوں گے تاہم دہلی حکومت کے اِس اقدام سے کم سے کم یہ تو واضح ہوگیا کہ دہلی پولیس کو من مانی کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملے گا ۔
نازک مرحلہ آگیا
یہ مقدمات سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ دونوں میں چلیں گے ۔امید ہے کہ اس سلسلے میں مسلم پرسنل لا بورڈ ،مسلم مجلس مشاورت ،جمعیۃ علماء ہند ،جماعت اسلامی ہند اور دلچسپی رکھنے والے دیگر گروپ اور افراد بھی چوکس رہیں گے۔ معاملہ سی اے اے اور این آر سی کا بھی ہے جو حکومت سے براہِ راست تعلق رکھتا ہے۔دہلی کے فسادات میں بھی حکمراں پارٹی کے بعض چہرے صاف دکھائی دیتے ہیں، اس لئے حکومت اور حکمراں پارٹی کے لوگوں کی پوری کوشش رہے گی کہ پلڑا اسی کا بھاری رہے۔سرکاری اقلیتی اداروں کا حال تو پہلے بھی بہت اچھا نہیں تھا، اب اس میں مزید گراوٹ آگئی ہے۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں اپنی تین سالہ مدت پوری کرکے رخصت ہو رہے ہیں۔جاتے جاتے ایک تقریب میں انہوں نے کہدیا کہ اقلیتی کمیشن کے پاس اختیارات تو ہیں لیکن ان کا استعمال نہیں ہے۔ ملک کا نظام بھی کچھ ایسا ہے کہ نہیں چاہتا کہ ایسے ادارے کام کریں۔ بہر حال ہمیں اسی نظام میں کام کرنا ہے اور اس کی اصلاح کی اپنی سی کوشش بھی کرنی ہے۔ زیر گفتگو مقدمے کے دو پہلو ہیں اور دونوں ہی اہم ہیں۔ مقدمے کے نتیجے کے اثرات و عواقب بھی بہت دور رس ہوں گے۔اطمینان کی بات ہے کہ ملک کے عوام اور سول سوسائٹی میں انصاف پسند حق گو اور دور اندیش لوگ آج بھی موجود ہیں۔ لہٰذا امید ہے کہ انصاف پسندوں کا پلڑا بھاری رہے گا۔

یہ مقدمات سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ دونوں میں چلیں گے ۔امید ہے کہ اس سلسلے میں مسلم پرسنل لا بورڈ ،مسلم مجلس مشاورت ،جمعیۃ علماء ہند ،جماعت اسلامی ہند اور دلچسپی رکھنے والے دیگر گروپ اور افراد بھی چوکس رہیں گے۔ معاملہ سی اے اے اور این آر سی کا بھی ہے جو حکومت سے براہِ راست تعلق رکھتا ہے۔دہلی کے فسادات میں بھی حکمراں پارٹی کے بعض چہرے صاف دکھائی دیتے ہیں، اس لئے حکومت اور حکمراں پارٹی کے لوگوں کی پوری کوشش رہے گی کہ پلڑا اسی کا بھاری رہے۔سرکاری اقلیتی اداروں کا حال تو پہلے بھی بہت اچھا نہیں تھا، اب اس میں مزید گراوٹ آگئی ہے۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں اپنی تین سالہ مدت پوری کرکے رخصت ہو رہے ہیں۔جاتے جاتے ایک تقریب میں انہوں نے کہدیا کہ اقلیتی کمیشن کے پاس اختیارات تو ہیں لیکن ان کا استعمال نہیں ہے۔ ملک کا نظام بھی کچھ ایسا ہے کہ نہیں چاہتا کہ ایسے ادارے کام کریں۔ بہر حال ہمیں اسی نظام میں کام کرنا ہے اور اس کی اصلاح کی اپنی سی کوشش بھی کرنی ہے۔ زیر گفتگو مقدمے کے دو پہلو ہیں اور دونوں ہی اہم ہیں۔ مقدمے کے نتیجے کے اثرات و عواقب بھی بہت دور رس ہوں گے۔