پرواز رحمانی
سالِ رواں کے اوائل میں جہاں مرکزی حکومت اپنے دیرینہ ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے بیتاب تھی اور ایک ایک کر کے ہر حساس مسئلے کو اٹھا رہی تھی (اجودھیا میں رام مندر ،کشمیر کی دفعہ ۳۷۰، مسلم خواتین میں تین طلاق یعنی یکساں سول کوڈ اور بیرونی ملکوں کے غیر مسلم شہریوں کو ملک میں مستقلاً بسانے کا مسئلہ) وہیں ملک کے مسلمان بھی ان پیچیدہ مسائل اور حکومت کے اصل مقاصد سے بے خبر نہیں تھے۔ ہر مسئلے پر مسلم جماعتوں اور دانشوروں کے بیانات آرہے تھے۔اہم اور خوش آئند بات یہ رہی کہ مسلم خواتین بھی بیدار تھیں۔ ان کے گروپوں اور اجتماعات نے ملک کے مختلف شہروں میں جہاں یہ واضح کر دیا کہ طلاق ثلاثہ میں اصلاح کے نام پر شریعت میں مداخلت انہیں کسی طرح منظور نہیں ہے، وہیں انہوں نے سی اے اے اور این آر سی سے اپنا اختلاف بہت بڑے پیمانے پر ظاہر کر دیا۔ اس سلسلے میں دلی کی نو آباد بستی شاہین باغ کی خواتین نے ایک خاص پہل کی اور ایک مقام پر مستقل دھرنے پر بیٹھ گئیں۔ یہ دھرنا روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی حمایت میں ملک کے کچھ بڑے شہروں میں اِسی طرز پر مظاہرے ہوئے جن میں غیر مسلم بہنیں بھی بڑی تعداد میں شریک رہیں۔
دلی پولیس
ان مظاہروں میں عام خواتین کے گروپ اور این جی اوز بھی حصہ لے رہے تھے۔ مرکزی حکومت اس سے بد حواس ہوگئی۔ دلی پولیس چونکہ مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے اس لیے اس نے مظاہرین کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مظاہرے سے اسے بڑا موقع مل گیا۔ بی جے پی کے کچھ نوجوان لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات سے دلی کے شمال مشرقی حصے میں خوں ریز فسادات ہوئے۔لیکن پولیس کی گرفتاریاں یک طرفہ تھیں۔پولیس نے دلی ہائی کورٹ کو حلفیہ بیان میں بتایا کہ کسی سیاسی لیڈر نے کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس پر گرفت کی جاتی ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دلی پولیس کا طرز عمل اول روز سے ہی یک طرفہ رہا ہے۔ گرفتاریوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ان فسادات پر پولیس نے جو چارج شیٹ جاری کی ہے اس سے بھی اس کا ذہن واضح ہوتا ہے….اور عین اِسی صورت حال کے دوران دلی سمیت پورے ملک میں کورونا وائرس کی وبا پھیل گئی۔ حکومت چاروں ہاتھ پاؤں سے اس کے مقابلے میں لگ گئی، اس کے لیے پولیس کی خدمات بھی حاصل کی گئیں جس کی وجہ سے سوِل کاموں میں پولیس کی خدمات محدود ہوگئیں۔ شاہین باغ کی خواتین نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنا ایجی ٹیشن ملتوی کر دیا۔
عدالتی بحث کا رخ؟
اب دلی کے فسادات کا معاملہ سپریم کورٹ میں آنے والا ہے۔ یہاں یہ سوال آگیا ہے کہ کورٹ میں دلی پولیس کی نمائندگی کون کرے۔ یعنی دلی پولیس کو اپنے لیے اپنے طور پر وکیلوں کا انتخاب کرنا ہے۔ اس میں نزاکت یہ ہے کہ انتخاب کون کرے، دلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال یا مرکزی حکومت کے لیفٹننٹ گورنر؟ اس پر گاڑی رکی ہوئی ہے۔بہت سوں کا خیال ہے کہ اگر لفٹننٹ گورنر وکلاء مقرر کریں گے تو وہ مرکزی حکومت کی پسند کے ہوں گے۔ دلی کی ریاستی حکومت مکمل اور بااختیار حکومت نہیں ہے۔اگر وزیر اعلیٰ کو وکیلوں کے انتخاب کا حق ملتا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ وکیل بڑی حد تک دیانت دار ہوں گے اور حقائق کی روشنی میں بحث کریں گے۔ مسلم فریقین کو بھی پوری تیاری سے کام کرنا ہوگا۔ ویسے تو پولیس ہر فساد میں اپنا رنگ دکھاتی ہے لیکن دلی کے اِن فسادات میں وہ کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہی ہے۔ بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈر اس کی پشت پر ہیں۔ دلی پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں شر پسندوں کے کاموں کا ذکر بھی کیا ہے لیکن دبے دبے انداز میں۔ اصل چابکدستی اور ہنر مندی اس نے ’’مسلم فسادیوں‘‘ کے بارے میں دکھائی ہے۔اس کی پوری چارج شیٹ کا انداز یہی ہے۔بحث کے دوران میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔