خبر و نظر
پرواز رحمانی
’پاکستان ریلوے کراسنگ‘‘
کیا آپ جانتے ہیں کہ گجرات کے شہر احمد آباد میں ’’پاکستان ریلوے کراسنگ‘‘ نام کا ایک مقام بھی ہے۔ اس مقام کا نام احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے ایک ہسپتال نے ایک نومولود کے والدین کو بتایا۔ ہسپتال نے برتھ سرٹیفیکٹ میں نومولود اور اس کے والدین کے پتے میں ’’پاکستان ریلوے کراسنگ ‘‘ لکھا جو یتوا علاقے میں واقع ہے۔ بچے کے والدین اور دادا کئی دن سے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں کہ پتہ درست ہو جائے لیکن کامیاب نہیں ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نام انہوں نے پہلی بار سنا ہے۔ بالآخر میونسپل کارپوریشن کے ایک ممبر بدرالدین شیخ نے یہ معاملہ کارپوریشن کے سامنے اٹھایا۔ اور کارپوریشن نے انکوائری شروع کردی ہے کہ یہ کیونکر ہوا، غلطی کس کی ہے۔ بچے کی پیدائش گزشتہ سال یکم اکتوبر کو ہوئی تھی۔ برتھ سرٹیفکیٹ ۸؍ اکتوبر کو زچہ کوڈ سچارج کرنے کے بعد دیا گیا۔ اس وقت بچے کے خاندان میں سے کسی نے سرٹیفیکٹ نہیں دیکھا تھا۔ جس ڈاکٹر نے برتھ سرٹیفکیٹ پر دستخط کیے تھے اس نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ کہنے کو تو اسے غلطی کہا جا رہا ہے لیکن یہ کھلی شرارت ہے اور غلیظ ذہنیت کی پیداوار ہے۔ اس لیے کہ ریاست گجرات ہندتوا کی ’’لیباریٹری‘‘ ہے۔
یہ ایک طریقہ ہے
ہندتوا کی یہ لیباریٹری ویسے تو ایک عرصے سے یہ کام کر رہی ہے۔ پورے ملک میں اپنے اثرات پھیلا رہی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں گجرات میں یہ لیباریٹری اپنے ہاتھ دکھا چکی تھی مگر ۲۰۱۴ء سے اس کی کارکردگی میں کافی زور پیدا ہوگیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مرکز میں عملاً آر ایس ایس کی حکومت ہے۔ آر ایس ایس کے طور طریقوں سے بھی باخبر لوگ واقف ہیں۔ سنگھ کے لیڈر اور نظریہ ساز گرو گولوالکر نے اپنی کتابوں میں اقلیتی فرقوں خصوصاً سب سے بڑے فرقے کو دشمن قرار دیا تھا۔ اس کے بعد ہی سنگھ کے لوگوں نے اقلیتی فرقوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام شروع کر دیا تھا۔ اس کے لیے مختلف طریقے ایجاد اور استعمال کیے جاتے ہیں۔ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ’’پاکستان ریلوے کراسنگ‘‘ جیسی گھٹیا حرکتیں بھی اُن میں سے ایک طریقہ ہے۔ اور سیاست میں الیکشن کے دوران استعمال کیے جانے والے طریقے دہلی کے لوگ حالیہ اسمبلی انتخاب میں دیکھ چکے ہیں۔ بات انوراگ ٹھاکر، کپل مشرا اور صاحب سنگھ ورما ہی کی نہیں اعلیٰ سطح پر بڑے بڑے دگج نیتا بھی اپنے اپنے حساب سے بد زبانی کرتے ہیں۔ دہلی کی انتخابی مہم میں مرکزی وزیر داخلہ نے بھی یہی بد زبانی کی ہے۔ زیادہ شرمناک امر یہ ہے کہ ان چھوٹے بڑوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
کیا یہ واقعی معنی خیز ہے
ویسے منگل ۳؍ مارچ کو وزیر اعظم کے لہجے میں قدرے تبدیلی محسوس کی گئی۔ بی جے پی پارلیمنٹری پارٹی کی میٹنگ میں وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے اپنے تمام ممبروں وزیروں اور اعلیٰ افسروں سے کہا کہ ’’ہم لوگ امن و اتحاد، بھائی چارے اور ملک میں خوشگوار ماحول کے پابند ہیں یہی ہماری پالیسی ہے لہذا اس کا اظہار ہماری گفتگو، ہمارے بھاشنوں اور طرز عمل سے بھی ہونا چاہیے‘‘۔ وزیر اعظم نے اور بھی بہت کچھ کہا جس کے بارے میں رپورٹروں اور خود بی جے پی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس تقریر کا پس منظر چھوٹے بڑے لیڈروں کے وہ بیانات تھے جو دہلی اسمبلی کے حالیہ انتخابات کے دوران دیے گئے تھے۔ پارٹی کے کچھ لیڈروں کے طرز عمل سے وزیر اعظم کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے، اس لیے اب وہ چاہتے ہیں کہ پارٹی لیڈر غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کریں اور صرف ترقی اور ترقیاتی کاموں کا ذکر کریں۔ رپورٹروں کا کہنا ہے کہ تقریر اس قدر غیر معمولی اور اہم تھی کہ اس کے کچھ حصے اُسی وقت چھپوا کر ممبروں میں تقسیم کیے گئے۔ اگر رپورٹروں کا یہ تاثر صحیح ہے تو اس کے اثرات دیکھنے ہوں گے۔ دیکھنا ہوگا کہ پارٹی کے لیڈروں کے طرز عمل میں کیا تبدیلی آتی ہے اور اس سے بھی اہم یہ ہے کہ ان لیڈروں کے خلاف حکومت کیا کرتی ہے جن کے بیانوں سے دہلی میں فسادات بھڑکے تھے۔ ان قاتلوں کے خلاف کیا قانونی چارہ جوئی ہوتی ہے جنہوں نے دن دھاڑے سڑکوں اور بازاروں میں بے قصوروں کو قتل کیا تھا؟ احمد آباد کے ’’پاکستان ریلوے کراسنگ ‘‘کا پتہ تو خیر درست ہو ہی جائے گا۔