سالِ رواں کے اوائل میں اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ مغربی کنارے کو تحویل میں لے کر اسے اپنا مستقل حصہ بنانا چاہتا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ، یوروپی یونین، عرب دنیا اور بہت سے ملکوں نے اس کی مذمت کی تھی۔ جس کے بعد اسرائیل سے دوسری خبر آئی کہ وہ فلسطین کے صرف تیس فیصد حصے کو ضم کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ کام شروع کرنے کی تاریخ (یکم جولائی) بھی بتا دی گئی تھی لیکن اس اعلان پر بھی دنیا کے بڑے حصے نے اعتراض کیا اور احتجاج درج کرایا۔ مسلم دنیا میں سب سے شدید رد عمل ایران کا آیا۔ اور یہ بات بھی اہم ہے کہ ایران نے اپنے نئی دہلی کے سفارت خانے کو متحرک کیا۔ لہٰذا سفارت خانے نے اسرائیلی اعلان کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ صیہونی ریاست کے خلاف سخت موقف اختیار کرے اور اسے اس کارروائی سے روکے۔ ایرانی بیان میں اسرائیل مسئلے کے لیے عالمی برادری کو ہی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ چند بڑی طاقتوں نے عالم اسلام کے خلاف سازش کرکے شرقِ اوسط میں ایک مصنوعی ریاست قائم کر دی ہے جو وہاں پیدا ہونے والے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ شرقِ اوسط میں خوں ریزی اور ہر قسم کے بگاڑ کا سلسلہ ۱۹۴۸ء سے شروع ہوا ہے۔ بیان کے مطابق اگر اسرائیل کو اس جارحانہ کارروائی سے نہ روکا گیا تو شرقِ اوسط میں حالات بہت بگڑ جائیں گے۔
کانٹا جو چبھتا رہتا ہے
اب اسرائیل کے تازہ بیان کو اس رد عمل ہی کا سبب کہنا چاہیے کہ اس نے فلسطینی علاقے پر قبضے کی کارروائی روک دی ہے۔ لیکن اعلان کیا ہے کہ منصوبے پر عمل آئندہ چند ہفتوں میں شروع کر دیا جائے گا۔اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اپنے ایک معتمد وزیر اوفراکونس سے کہلوایا ہے کہ ’’منصوبے پر عمل کی تفصیلات ابھی مکمل نہیں ہوئی ہیں، اسرائیلی افسران اپنے ہم منصب امریکی افسران کے ساتھ تفصیلات کو آخری شکل دے رہے ہیں‘‘…. اور یوں کہا جاسکتا ہے کہ صیہونی منصوبہ معرضِ خطر میں پڑ گیا ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی و مددگار امریکہ ہے۔ امریکا ہی کی در پردہ اجازت سے اسرائیل نے تل ابیب سے اپنا مرکز یروشلم منتقل کیا تھا۔ امریکہ کے علاوہ کچھ اور ممالک ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے ’’بڑی طاقت‘‘ بننا چاہتے ہیں۔ یہ ممالک بھی ہر کارروائی میں اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ منحوس اور شرمناک بات یہ ہے کہ کچھ مال دار عرب ممالک بھی در پردہ اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا فی الحال غلط ہوگا کہ صیہونی ریاست اپنے ناپاک منصوبوں سے باز آجائے گی۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست دنیا میں بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص ایک کانٹا ہے جو ہر وقت چبھتا رہتا ہے۔
مسلم امت کا انتشار
اور یہ وہ کانٹا ہے جس نے یاسر عرفات کی پی ایل او کو زیر کرلیا، بڑے عرب ممالک پی ایل او سے پہلے ہی بے زار تھے اس کی سرگرمیوں میں مالی مدد اس لیے کرتے تھے کہ وہ ان سے دور ہے ان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ کرے۔ امریکہ نے عراق کو تباہ کرنے کے بعد القاعدہ کو کھڑا کیا اس سے لڑنے کے نام پر مسلم ملکوں میں تحریک اسلامی کو کمزور کیا۔ اس کے بعد اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) اور البغدادی کا ہوا کھڑا کیا لیکن اس سے کام لینے کی زیادہ ضرورت نہیں پڑی۔ با عمل مسلمانوں کی تنظیمیں اپنے ہی مسلم حکم رانوں کے ہاتھوں تباہ ہوتی رہیں۔اسرائیل کے مسئلے کو صرف اس لیے زندہ رکھا گیا کہ دنیا کے مسلمان اس میں الجھے رہیں۔ اب اسرائیل نے مغربی کنارے پر باقاعدہ قبضے کا مسئلہ ایسے وقت اٹھایا ہے جب امت مسلمہ ہر طرف سے کمزور ہے۔صرف ترکی، ایران، ملائشیا اور قطر جیسے ممالک ہیں جو ذرا دم خم رکھتے ہیں۔ اللہ انہیں قائم اور عزت مند رکھے۔ دنیا کے عام مسلمان بے بس ہیں، دعاؤں کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ صیہونی ریاست نے مغربی کنارے پر قبضے کا پروگرام فی الحال تو ملتوی کر دیا ہے لیکن جب وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنائے گی تو دیکھنا ہوگا کہ کتنے مسلم ممالک اس کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہوں گے۔ عام مسلمانوں کی اخلاقی حمایت اور دعائیں یقیناً ان کے ساتھ ہوں گی۔