خبر و نظر

لاک ڈاؤن پر ایک سوال

پرواز رحمانی

’’وزیر اعظم کے بعض ’’جرأ ت مندانہ‘‘ فیصلوں اور ان کی تفرقہ پرداز سیاست کی وجہ سے ملک کی معیشت پہلے ہی کیا کم بد حال ہو رہی تھی کہ اب راتوں رات ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن کا ایک اور ’’جراءت مندانہ‘‘ فیصلہ کر کے انہوں نے معیشت کو مزید بحران سے دوچار کر دیا ہے ……..‘‘۔ یہ کہنا ہے ایس پی چنوئی کا جو ایک سینئر ایڈووکیٹ اور عام لوگوں کے مسائل کے ماہر ہیں۔ انہوں نے انڈین ایکسپریس (4؍جون) میں لکھا ہے کہ ملک گیر لاک ڈاؤن کا فیصلہ صورتِ حال کا جائزہ لیے بغیر جلد بازی میں کیا گیا ہے اور یہ سمجھ کر کیا گیا ہے کہ یہ بہت امیروں کا ملک ہے یہاں تمام شہری بڑے بڑے مکانات اور بلند وبالا عمارتوں میں تمام سہولتوں کے ساتھ رہتے ہیں انہیں جب اور جہاں جانے کو کہا جائے گا بڑے آرام سے چلے جائیں گے، نیز لاک ڈاؤن سے کورونا وائرس کی وبا کو ختم کرنے میں اِس سے بہت مدد ملے گی۔ حالانکہ مارچ کے آغاز میں جب ملک میں اس وبا کا چرچا بڑے پیمانے پر ہونے لگا اور وزیر اعظم نے 24؍ مارچ کو پورے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت ملک میں صرف پانچ سو افراد اس وبا سے متاثر پائے گئے تھے اور صرف 9 اموات ہوئی تھیں (جن کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں وائرس سے مرنے والے کتنے تھے) مسٹر چنوئی کہتے ہیں کہ یہ کام ریاستوں کی سطح پر آہستہ آہستہ ہونا چاہیے تھا اور بہت سی ریاستیں اپنے اپنے طور پر کر بھی رہی تھیں۔
ایک اور جائزہ
سپریم کورٹ کے جسٹس این وی رمنا نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورے ملک میں خاندانی اور گھریلوں حالات دگر گوں ہوگئے ہیں۔ عورتوں کے حقوق پامال ہوئے ہیں، معمر لوگوں کے لیے نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں حتیٰ کہ کم سن بچوں کے جنسی استحصال کی خبریں بھی آئی ہیں۔ جسٹس نے یہ بات نئی دہلی میں قانون سے متعلق ایک کتاب کا اجراء کرتے ہوئے کہی۔ جسٹس رمنا نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی کے ایگزیکیٹو چیئرمین بھی ہیں۔ انہوں نے کہا ’’لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہزاروں افراد اپنی جانیں کھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں بے روزگار ہو چکے ہیں۔ یومیہ مزدوری کرنے والوں کی حالت اور بھی بہت خراب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لاک ڈاؤن نے خاندانوں میں بہت سے نفسیاتی مسائل پیدا کیے ہیں۔ خانہ دار عوتوں پر بوجھ بہت بڑھ گیا ہے بچے اسکول نہیں جا پا رہے ہیں اور گھروں کے اندر تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں‘‘۔ (انڈین ایکسپریس 5؍جون) اِس نوعیت کے بہت سے تبصرے میڈیا میں آ رہے ہیں۔ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد بھی مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ روزگار کے لیے گاؤں اور قصبات سے شہروں کا رخ کرنے والوں کی درد ناک آپ بیتیاں تو سُنی بھی نہیں جا سکتیں۔ ایس پی چنوئی نے اپنے تبصرے میں ملک کی مالی حالت کا نہایت تکلیف دہ نقشہ کھینچا ہے۔
صورت حال کا ذکر کیوں
یہاں اِس صورت حال کے ذکر کرنے کا مقصد شہریوں کو خوف زدہ کرنا یا حکومت پر بے جا تنقید نہیں ہے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام اور علاج کی تدبیریں ڈھونڈتے وقت بہت زیادہ غور وفکر نہیں کیا گیا، صرف چین اور مغربی ملکوں کی مثالیں سامنے رکھی گئیں جہاں کے حالات اور اجزائے ترکیبی ہمارے ملک سے مختلف ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے لاؤڈ اِسپیکروں کا دعویٰ ہے کہ لاک ڈاؤن سے بہت فائدہ ہوا ورنہ صورت حال بہت بگڑ جاتی۔ یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 24؍مارچ کو جس شام لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا اس وقت تک ملک میں کل پانچ سو افراد ہی اِس وبا سے متاثر تھے اور صرف نو اموات ہوئی تھیں، اگر لاک ڈاؤن نافذ نہ ہوا ہوتا تو یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی۔ جب کہ مبصرین کہہ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہی صورت حال بگڑی ہے بصورتِ دیگر اسے کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔ جب یہ صورت ٹھہری تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کر کے صورت حال کا جائزہ لے گی۔ ایس پی چنوئی نے اپنے تبصرے کے آغاز میں وزیر اعظم کے ’’جراءت مندانہ‘‘ اقدامات کے ساتھ ان کی divisive politics کا حوالہ بھی دیا ہے جس کی وجہ سے ملک کی معاشی صورت حال بد تر ہوئی ہے اور یہ divisive politics یعنی شہریوں میں تفرقے ڈالنے والی سیاست کیا ہے سبھی جانتے ہیں۔


 

اِس نوعیت کے بہت سے تبصرے میڈیا میں آ رہے ہیں۔ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی تعداد بھی مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ روزگار کے لیے گاؤں اور قصبات سے شہروں کا رخ کرنے والوں کی درد ناک آپ بیتیاں تو سُنی بھی نہیں جا سکتیں۔ ایس پی چنوئی نے اپنے تبصرے میں ملک کی مالی حالت کا نہایت تکلیف دہ نقشہ کھینچا ہے۔