پرواز رحمانی
یہ مخصوص گروہ
اِس ملک میں جن لوگوں کو ایک سو سال کی کڑی محنت اور جاں فشانی کے بعد یہ موقع ملا ہے کہ اپنی امنگوں اور آرزوؤں کے مطابق اس ملک کی تصویر بنائیں، جن بستیوں کو انہوں نے نیچ اور ذلیل قرار دیا ہے انہیں مزید ذلیل کریں۔ جن آبادیوں کو ناپسندیدہ بلکہ دشمن قرار دیا ہے انہیں مزید ہراساں اور بے آبرو کریں۔ وہ یہ سب کر رہے ہیں اور ایسے وقت کر رہے ہیں جب پوری دنیا میں کورونا وائرس کی شکل میں ایک مہلک وباء پھیلی ہوئی ہے جس سے ہر طبقہ پریشان ہے۔ حکومت بھی بظاہر فکر مند ہے۔ان لوگوں کی طینت یہ ہے کہ جب کوئی بڑا واقعہ پیش آتا ہے تو یہ دیکھتے ہیں کہ اس سے سیاسی فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔اپنی مخالف آبادیوں کو کس طرح زیر کیا جا سکتا ہے۔ کورونا وائرس آیا تو ان کے شیطانی دماغ سوچنے لگے کہ اس کی ذمہ داری کس طرح مسلمانوں پر ڈالی جائے۔ یہ سوچتے وقت ان کے ذہن میں ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہزاروں چھوٹی بڑی مساجد اور مسلم بزرگوں کی درگاہیں تھیں جہاں پانچ وقت نماز پڑھی جاتی ہے درگاہوں میں بڑی تعداد میں عقیدت مند موجود رہتے ہیں۔ دہلی کی بستی حضرت نظام الدین میں تبلیغی جماعت کا مرکز ہے جہاں ہر وقت عبادت گزاروں کا ہجوم اور ملک میں اِدھر اُدھر جانے والی جماعتیں موجود رہتی ہیں۔
میڈیا کی بدطینتی
ماہ مارچ میں مرکز نظام الدین میں ایک اجتماع ہوا تھا جس میں بیرون ملک سے بھی کچھ لوگ شریک ہوئے تھے۔ بد دیانت ٹی وی چینلوں اور اخباروں کے کچھ رپورٹروں نے ہوا اُڑا دی کہ اس بھیڑ میں ’’بہت‘‘ سے لوگ کورونا وائرس کے مریض ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے خبر پورے ملک میں پھیلا دی گئی۔ ایک مخصوص گروہ اول فول بکنے لگا۔ پرائم منسٹر نے نظام الدین کو ملک کے لیے ایک چیلنج کہا۔ ہو سکتا ہے کہ دو تین لوگ اس وائرس سے متاثر پائے گئے ہوں مگر اسے بنیاد بنا کر پوری تبلیغی جماعت کو مطعون کیا گیا اور اس کے توسط سے پوری ملت اسلامیہ پر نشانہ سادھا گیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس شرارت کا اتنا زور تھا کہ مسلمان پریشان ہو گئے۔ مسلم جماعتوں کے بیانات آئے۔ جمعیۃ علماء ہند نے میڈیا کی اس شرارت اور فرقہ پرستی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ یہی مخصوص حلقہ اور اس کا شرارتی میڈیا ایک شرارت پر پہلے سے کام کر رہا تھا۔حکومت نے این آر سی اور سی اے اے کے نام سے جو شوشے چھوڑ رکھے تھے ان کے خلاف پورے ملک میں مسلمان اور صاف ذہن شہری احتجاج کر رہے تھے۔ سب سے بڑا احتجاج مسلم خواتین نے جنوبی دہلی کے شاہین باغ علاقے میں شروع کیا جس میں ۲۴ گھنٹے خواتین کا مجمع رہتا تھا۔ اس قسم کے چھوٹے بڑے پروگرام پورے ملک میں ہونے لگے۔ شرارتی میڈیا نے اس کے خلاف بھی محاذ کھول رکھا تھا۔
سپریم کورٹ حرکت میں
ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت اور اس کی ریاستی سرکاریں ان شرارتوں پر خاموش تھیں بلکہ یک گونہ انہیں ہوا بھی دے رہی تھیں۔ اب سپریم کورٹ نے ان کا نوٹس لیا ہے۔ جمعیۃ علماء نے جو اپیل دائر کی تھی اس کے جواب میں عدالت عظمیٰ نے پریس کونسل آف انڈیا سے پوچھا ہے کہ میڈیا کی فرقہ پرستی اور اس کی شراتوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟ میڈیا نے مرکز نظام الدین اور اس کے خلاف فرقہ وارانہ رپورٹنگ کیونکر کی؟ ایک اور معاملے میں عدالت نے مرکزی حکومت سے پوچھا ہے کہ وہ اُس اپیل کا جواب دے جس میں مرکز تبلیغی جماعت کو بدنام کیے جانے کی تحقیق کے لیے کہا گیا ہے۔ کورٹ کی بنچ نے جس کے سربراہ چیف جسٹس ایس اے بوبڑے ہیں، یہ بھی پوچھا ہے کہ مارچ میں تبلیغی جماعت کے پروگرام کے سلسلے میں یہ بات کیسے پھیلائی گئی کہ اس کا مقصد فرقہ پرستی پھیلانا تھا؟ فاضل جج نے یہ بھی کہا کہ عوام کو فرقہ وارانہ صورت حال بگاڑنے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے کیونکہ بعد میں یہی باتیں قانون بن جاتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پریس کونسل اور مرکزی حکومت عدالت عظمیٰ کی اس ہدایت پر کتنا عمل کرتی ہیں۔ ان کالموں میں اس بات کی طرف بارہا توجہ دلائی گئی کہ شاہین باغ اور کورونا وائرس پر مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی شراتیں کسی گہری اور طویل المدت سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔ مسلم شہریوں کو ہر لحاظ سے چوکس اور خبردار رہنا ہوگا ۔۔
۔حکومت نے این آر سی اور سی اے اے کے نام سے جو شوشے چھوڑ رکھے تھے ان کے خلاف پورے ملک میں مسلمان اور صاف ذہن شہری احتجاج کر رہے تھے۔ سب سے بڑا احتجاج مسلم خواتین نے جنوبی دہلی کے شاہین باغ علاقے میں شروع کیا جس میں ۲۴ گھنٹے خواتین کا مجمع رہتا تھا۔ اس قسم کے چھوٹے بڑے پروگرام پورے ملک میں ہونے لگے۔ شرارتی میڈیا نے اس کے خلاف بھی محاذ کھول رکھا تھا۔