خبر و نظر

تبلیغی جماعت اور موجودہ آزمائش

پرواز رحمانی

تبلیغی جماعت
تبلیغی جماعت …… جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دینی جماعت ہے اور صرف مسلمانوں میں دینی احکام پہنچانے کا کام کرتی ہے غیر مسلموں میں کام سے اسے قطعی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اگر مسلمان صحیح معنی میں مسلمان بن جائیں تو ان کو دیکھ کر سبھی انسان مسلمان بن جائیں گے۔ مسلمانوں میں بھی وہ صرف نماز، روزے اور فضائلِ صدقات کی بات کرتی ہے سیاست، حالاتِ حاضرہ اور اجتماعی زندگی کے مسائل سے بحث نہیں کرتی۔ یعنی یہ ایک سادہ سی جماعت ہے جس کا دائرہ فکر بہت محدود ہے اس لیے سماج کے کسی بھی حصے کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ وہ بڑے چھوٹے شہروں، قصبوں اور گاووں میں جا کر کسی مسجد میں ٹھہرتے ہیں، وہیں کے مسلمانوں کو جمع کر کے ان تک دینی احکام پہنچاتے ہیں، وعظ ونصیحت کرتے ہیں۔ معروف یعنی اچھے کاموں کی تلقین کرتے ہیں اور پھر وہاں سے کسی اور مقام کے لیے چل پڑتے ہیں۔ سڑکوں اور بازاروں میں چلتے ہیں تو پورے ڈسپلن کے ساتھ۔ عام لوگوں کے معمولات میں کوئی خلل نہیں ڈالتے۔ اس کے خلاف کبھی کسی نے کوئی شکایت نہیں کی۔ بھارت میں تبلیغی جماعت کا مرکز بستی حضرت نظام الدین کی ایک قدیم مسجد میں واقع ہے جو ما شاء اللہ اب کافی وسیع وعریض اور پُر شکوہ ہوگئی ہے۔
جب ایک جلیل القدر شخصیت اٹھی
سہارن پور سے ایک جلیل القدر عالمِ دین اور خدا رسیدہ بزرگ مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ نے جب اس جماعت کی بنیاد ڈالی تو وقت کے کئی علماء کو اس کام کے معائنے اور مشاہدے کی دعوت دی۔ ان میں ترجمان القرآن کے مدیر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒبھی شامل تھے۔ مولانا مودودی میوات گئے اور مولانا کاندھلوی کے ساتھ کئی دن گزارے۔ کام کا جائزہ لیا سرگرمیاں قریب سے دیکھیں اس کے بعد اس جماعت کے بارے میں ایک طویل مضمون لکھا اس کے مقصد اور کام کی تحسین کی۔ لوگوں کے جذبہ خدمتِ دینی کو خراج پیش کیا۔ اس کے علاوہ ایک اہم مشورہ یہ دیا کہ جماعت کو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اُن آبادیوں تک بھی پہنچنا چاہیے جن تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی، وہ اسلام سے دور ہیں اور اِسی وجہ سے اسلام اور امت مسلمہ کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا مودودی ؒ کا یہ مضمون تبلیغی حلقوں میں بھی سراہا گیا مگر متذکرہ بالا مشورے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اُس وقت تک مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی قائم نہیں کی تھی البتہ رسالہ ترجمان القرآن اور لٹریچر کے ذریعے اپنی فکرِ اسلامی کی اشاعت کر رہے تھے۔
موجودہ آزمائش
اور اب جماعت پر جو آزمائش آئی ہوئی ہے یہ انہی غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے جس کی طرف مولانا مودودی نے اشارہ کیا تھا۔ ہمارے گرد وپیش کی آبادیوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی بہت بڑی اکثریت مذہب کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہے۔اپنے اپنے مذاہب کے بارے میں بھی وہ بس کچھ روایتی باتوں میں یقین رکھتی ہے اور دین اسلام سے متعلق تو وہ بس وہی کچھ جانتی ہے جو ایک منظم گروہ اِس کام میں پچھلے ایک سو سال سے دل وجان سے لگا ہوا ہے۔ بہت کم غیر مسلم برادران ہیں جو اسلام کو براہ راست (بلاواسطہ) سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں ……. تبلیغی جماعت سے متعلق موجودہ صورت حال یقیناً نا خوش گوار اور تکلیف دہ ہے لیکن اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے کہ یہی موقع ہے کہ ہم برادرانِ وطن کے پاس پہنچ کر ان کے اندر پائی جانے والی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کریں۔ انہیں بتائیں کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ اگر ہم نے یہ کام پوری لگن اور دلسوزی کے ساتھ کر لیا تو ان شاء اللہ موجودہ شر میں سے ایک بہترین خیر کا پہلو برآمد ہوگا۔ موجودہ حالات میں ملتِ اسلامیہ ہند، جماعتوں کی باہمی چپقلش اور کدورت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

سہارن پور سے ایک جلیل القدر عالمِ دین اور خدا رسیدہ بزرگ مولانا محمد الیاس کاندھلوی ؒ نے جب اس جماعت کی بنیاد ڈالی تو وقت کے کئی علماء کو اس کام کے معائنے اور مشاہدے کی دعوت دی۔ ان میں ترجمان القرآن کے مدیر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒبھی شامل تھے۔ مولانا مودودی میوات گئے اور مولانا کاندھلوی کے ساتھ کئی دن گزارے۔ کام کا جائزہ لیا سرگرمیاں قریب سے دیکھیں اس کے بعد اس جماعت کے بارے میں ایک طویل مضمون لکھا اس کے مقصد اور کام کی تحسین کی۔ لوگوں کے جذبہ خدمتِ دینی کو خراج پیش کیا۔ اس کے علاوہ ایک اہم مشورہ یہ دیا کہ جماعت کو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اُن آبادیوں تک بھی پہنچنا چاہیے جن تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی، وہ اسلام سے دور ہیں اور اِسی وجہ سے اسلام اور امت مسلمہ کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا مودودی ؒ کا یہ مضمون تبلیغی حلقوں میں بھی سراہا گیا مگر متذکرہ بالا مشورے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اُس وقت تک مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی قائم نہیں کی تھی البتہ رسالہ ترجمان القرآن اور لٹریچر کے ذریعے اپنی فکرِ اسلامی کی اشاعت کر رہے تھے۔