خبر و نظر: سابق جج اور افسران میدان عمل میں
پرواز رحمانی
سالِ رواں کے آغازِ فروری میں دہلی کے شمال مشرقی حصے میں اچانک خوں ریز فسادات پھوٹ پڑے۔ فسادات کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی بلکہ ہوا صرف یہ تھا کہ حکومت نے جو شہریت کے سلسلے میں کچھ نئے قوانین وضع کیے ہیں اور موجودہ قوانین میں جو تبدیلی کی ہے جو انتہائی غیر مناسب اور غیر اخلاقی ہیں۔ ان میں کچھ غیر ملکی اقلیتوں کو غیر ضروری طور پر شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس پر مسلمانوں اور صاف ذہن کے شہریوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کیا۔ سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ جنوبی دہلی کی شاہین باغ کالونی میں ہوا۔ اس کام میں پہل خواتین نے کی۔ انہوں نے ایک مقام پر مستقل دھرنا دیا اور دن رات وہاں بیٹھی رہیں۔ ان کی تائید اور حوصلہ افزائی کے لے شہر کے دور دراز کے علاقوں سے خواتین کے گروپس آتے چلے گئے۔ پنجاب کے سکھ بھائیوں نے لنگر کا اہتمام بھی کیا۔ ان مظاہروں میں دلت گروپوں اور دانشوروں نے بھی خاصہ جوش و خروش دکھلایا۔ یہ مظاہرے ملک کے دوسرے شہروں میں بھی شروع ہو گئے۔ سوشل میڈیا پر اِس مظاہرے کے بہت چرچے رہے۔ یہ دیکھ کر مرکزی حکومت اور حکمراں پارٹی کے لوگ بد حواس ہو گئے اور مظاہرین کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ انہیں گالیاں اور دھمکیاں دینے لگے۔ جگہ جگہ مظاہرین پر حملے بھی کیے گئے۔
آگ کس نے لگائی
متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد اور بنارس کی گیان واپی مسجد کا قضیہ بھی بہت پرانا ہے۔ 90 کی دہائی کے آغاز میں جب لال کرشن اڈوانی نے اجودھیا کا مسئلہ اٹھا کر ماحول خراب کیا تھا تو بہت سے لوگوں نے اِن مساجد کا ذکر بھی چھیڑا تھا۔ بعض نے کئی سو مساجد کی ایک لمبی فہرست بھی تیار کر رکھی تھی اور ان کی جگہ مندروں کا مطالبہ کرکے امن و قانون کے مسائل پیدا کر رہے تھے۔ اس لیے مرکزی حکومت (وی پی سنگھ، آئی کے گجرال، دیوے گوڑا) نے غالباً عدالتِ عظمیٰ کی مدد سے یہ طے کیا تھا کہ مسجدوں، درگاہوں اور قبرستانوں میں مسئلہ صرف اجودھیا کی بابری مسجد کا ہے اس کے علاوہ کسی اور مسجد یا مذہبی مقام کا کوئی قضیہ نہیں ہے اس لیے کسی اور مسجد یا مقام کو متنازعہ بنا کر شور شرابہ کرنا بالکل غلط ہے۔ اس طرح متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد کا مسئلہ بھی ختم ہوگیا تھا لیکن بعد میں اس فیصلے کا کیا ہوا نہیں معلوم۔ شرارتی عناصر خاموش نہیں رہے۔ دراصل یہ ہندوتوا کی ضرورت ہے اور بھی کئی مسائل ہیں جو اِن لوگوں نے 2014ء میں مرکزی حکومت بدلنے کے بعد شروع کیے تھے۔رام مندر، یکساں سول کوڈ، کشمیر کی دفعہ 370، طلاق ثلاثہ، گئو رکشا، شہریت کا مسئلہ۔ اِن میں سے کچھ مقاصد تو انہوں نے حاصل کر لیے ہیں اور کچھ باقی ہیں۔
ِکمیٹی کے ساتھ تعاون کیجیے
شاہی عیدگاہ مسجد سے متعلق لکھنو کی عدالت نے کرشن بھکتوں کی اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسی طرح ہر کرشن بھکت عدالتوں میں درخواست دینے لگے تو اس سے تو عدالتی اور سماجی نظام تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ سول جج سنیئر ڈویژن چھایا شرما نے 30 ستمبر کو کہا کہ کرشن بھکتی کے دعوے کی بنیاد پر عدالت اس درخواست پر غور نہیں کر سکتی۔ لکھنو کے جن لوگوں نے درخواست دی تھی وہ سب پڑھے لکھے لوگ ہیں اور گمان ہے کہ ان کا تعلق آر ایس ایس کے سنگھ پریوار سے ہے۔ اگر رسمی طور پر تعلق نہ بھی ہو تو وہ کام بہر حال سنگھ پریوار ہی کا کر رہے ہیں۔ اس قبیل کے مسائل اٹھانا اور سوسائٹی میں بے چینی پیدا کرنا سنگھ پریوار کی ضرورت ہے۔ آج کل مرکزی حکومت کو اس کی ضرورت اِس لیے بھی ہے کیوں کہ حکومت چو طرفہ مسائل میں بری طرح سے گھری ہوئی ہے۔ اس کی ریاستی سرکاریں بھی پریشان ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حکومت سماج میں فساد پھیلانے والوں کے خلاف کچھ نہیں کہتی۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم اِن شرارتیوں کو نصیحت اس لیے نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ خود بھی اِسی راستے سے لائم لائٹ میں آئے ہیں۔ مسلمانوں کو چھیڑ کر انہیں احتجاج اور مظاہروں پر آمادہ کرنا بھی حکمراں پارٹی کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
متھرا کی شاہی عید گاہ مسجد اور بنارس کی گیان واپی مسجد کا قضیہ بھی بہت پرانا ہے۔ 90 کی دہائی کے آغاز میں جب لال کرشن اڈوانی نے اجودھیا کا مسئلہ اٹھا کر ماحول خراب کیا تھا تو بہت سے لوگوں نے اِن مساجد کا ذکر بھی چھیڑا تھا۔ بعض نے کئی سو مساجد کی ایک لمبی فہرست بھی تیار کر رکھی تھی اور ان کی جگہ مندروں کا مطالبہ کرکے امن و قانون کے مسائل پیدا کر رہے تھے۔ اس لیے مرکزی حکومت (وی پی سنگھ، آئی کے گجرال، دیوے گوڑا) نے غالباً عدالتِ عظمیٰ کی مدد سے یہ طے کیا تھا کہ مسجدوں، درگاہوں اور قبرستانوں میں مسئلہ صرف اجودھیا کی بابری مسجد کا ہے اس کے علاوہ کسی اور مسجد یا مذہبی مقام کا کوئی قضیہ نہیں ہے اس لیے کسی اور مسجد یا مقام کو متنازعہ بنا کر شور شرابہ کرنا بالکل غلط ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 اکتوبر تا 3 نومبر، 2020