خبر ونظر
پرواز رحمانی
بدزبان خاتون کے بعد
حکمراں پارٹی کی بدزبان خاتون نپور شرما کی جو چوطرفہ ہرزہ سرائی ہوئی، اسے ساری دنیا نے دیکھا۔ امت مسلمہ کا عالمی احتجاج، اندرون ملک شریف انسانوں کا ملک گیر احتجاج۔ پارٹی سے بد زبان خاتون کی معطلی، چیف جسٹس آف انڈیا کی جانب سے بد زبان خاتون کے خلاف سخت ترین ریمارکس اور سرزنش، یہ سب نے دیکھا۔ یقیناً تلنگانہ اسمبلی کے اس ممبر نے بھی دیکھا اور سنا ہوگا جس نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی۔ لیکن اس پر اس عالمگیر مذمت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بی جے پی کے ٹی راجہ سنگھ نے حال ہی میں تقریباً وہی گستاخانہ کلمات دہرائے جو نپور شرما نے کہے تھے۔ اس کی بدزبانی پر اس سے بڑا احتجاج شروع ہوگیا۔ پارٹی نے ممبر کو فی الفور معطل کردیا۔ تلنگانہ پولیس نے اسے گرفتار کرلیا مگر چند گھنٹوں بعد چھوڑدیا مگر ممبر کی بد خصلتی دیکھیے کہ پولیس کی تحویل سے آزاد ہونے کے فوراً بعد اس نے دھڑلے سے وہی کلمات دہرائے اور اعلان کیا کہ وہ یہ کام کرتا رہے گا۔ لہذا پولیس نے اسے دوبارہ گرفتار کرلیا۔ کچھ بدخصلت لوگ نپور کی طرح راجہ سنگھ کی بھی آو بھگت کررہے ہیں۔ اس کی گلپوشی ہورہی ہے۔ ’’بہادری‘‘ پر اسے مبارکباد دی جارہی ہے۔
کیا یہ سب اچانک ہے
سوال یہ ہے کہ یہ سب کیا اچانک (extempore ) ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ سب منصوبہ بند ہے۔ اس کے پیچھے ایک مخصوص سوچ اور ذہنیت ہے جو گزشتہ ایک سو سال سے کام کررہی ہے۔ بد زبانوں اور بد خصلتوں کو پارٹی سے معطل کردینا، یا قانون ساز ایوان سے نکال دینا یا پولیس کا انہیں گرفتار کرلینا ، یا کسی کو سزا سنا دینا حتی کہ اس صورتحال کے خلاف وزیراعظم کا زور دار بیان دینا بھی اسی منصوبہ کے تحت آتا ہے۔ سوچ تو بہت قدیم ہے، اس پر گزشتہ صدی میں عمل بھی ہوا ہے۔ مساجد کے سامنے شور و شرابہ، باجے ، ڈھول تماشے، دروازوں پر سندور پھینکنا، مسجدوں میں سور چھوڑنا، مندروں میں یا ان کے سامنے گوشت کے لوتھڑے پھینکنا، یہ تماشے اور شعبدے پہلے سے ہورہے ہیں لیکن 2014میں جب سے کہ مرکزی اقتدار پر اس گروہ کا قبضہ ہواہے یہ شرارتیں منظم اور منصوبہ بند طریقے سے ترتیب وار ہورہی ہیں۔ سلسلہ محمد اخلاق کو اس کے گھرمیں گھس کر مارڈالنے سے شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد اسی قبیل کے کچھ واقعات ہوئے۔ پھر اس شر سے شاخیں نکلنے لگیں۔ خواتین کےساتھ زیادتی، مسلم طالبات کے نقاب پر اعتراض ۔ مائک پر اذاں پر اعتراض وغیرہ۔
کچھ نظر نہیں آتا
محمد اخلاق کے واقعہ کے بعد مویشیوں کے ذبیحے پر اعتراض اور مویشیوں کی آمد و رفت پر لوگوں کو سر بازار مار مار کر ہلاک کرنے کے واقعات بڑھنے لگے تو وزیراعظم نے کم سے کم دوبار نہایت سخت اور تیز و تند بیانات دیے ۔ کہا قصور واروں کو کسی صورت میں معاف نہیں کیا جائے تو خود ان کی پارٹی اور سنگھٹھنوں کے لوگ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ ان بیانات پر لوگوں کو ہنستے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ اس لیے کہ یہ طریقہ تو پارٹی کی بنیادوں میں شامل ہے۔ خود گجرات کے وزیر اعلیٰ اسی طریقے سے لائم لائٹ میں آئے اور وزیراعظم بنے ہیں۔ پھر وہ کس منھ سے ہمیں روکنے کی بات کررہے ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ 2014کے بعد وزیراعظم نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔ تمام شر پسند خوب جانتے ہیں کہ حکومت ان کے خلاف کوئی بڑی قانونی کارروائی نہیں کرے گی۔ صورت حال بدلنے کی بات سبھی پارٹیاں کرتی ہیں لیکن ٹھوس اور قابل عمل پروگرام کوئی پیش نہیں کرتا۔ سیاسی پارٹیوں کا اتحاد بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہر پارٹی چاہتی ہے کہ اتحاد اس کی قیادت میں قائم ہو۔ 1977میں جے پرکاش نارائن نے اپوزیشن پارٹیوں کو یک جا کردیا تھا لیکن وہ اتحاد تین سال سے زیادہ قائم نہیں رہا۔ بعد میں وی پی سنگھ ایک مضبوط لیڈر کے طور پر اٹھے تھے مگر ’اپنوں‘ کے ہاتھوں ناکام ہوگئے۔ کیا اب کوئی یونیفائنگ لیڈر کہیں نظر آتا ہے؟
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022