خبر ونظر

پرواز رحمانی

بنارس میں گرم ہوا
35 سال قبل جب بابری مسجد کا تنازع اٹھایا گیا تھا تو شرپسند مزید مساجد کی باتیں کرنے لگے تھے، فہرستیں بھی جاری کی تھیں، مگر بابری مسجد کے علاوہ دو مسجدیں خاص طور سے ان کے نشانے پر تھیں۔ شہر بنارس کی گیان واپسی مسجد اور متھرا کی عید گاہ مسجد۔ انتظامیہ اور عدالتوں کی مدد سے بابری مسجد ہتھیالینے کے بعد اب بنارس کی مسجد کے مبینہ متنازع کو گرمانے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ گرمادیا گیا ہے۔ پہلے عدالت کی مدد سے سروے کرایا گیا۔ سروے میں شیو لنگ نما کوئی چیز دیکھی گئی جس کا پروپگنڈہ پورے ملک میں کیا گیا۔ سرکاری وفادار ٹی وی چینل لگاتار تین دن یہ مناظر دکھانے میں مصروف رہے جب کہ مساجد کمیٹی اور ذمہ دار مسلمانوں کا کہنا ہے کہ جس چیز کو شیو لنگ کہا جارہا ہے وہ دراصل مسجد کے وضو خانے میں ایک فوارہ تھا۔ بنارس کی گیان واپی مسجد بہت وسیع اور کشادہ ہے۔ قدیم مساجد کی طرح وہاں بھی کئی قسم کے اسٹرکچر ہیں۔ سروے کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے کچھ نہیں کہا۔ مسجد میں حسب معمول نماز جاری ہے۔ سروے میں جس اسٹرکچر کو شیو لنگ بتایا گیا ہے، اسے سیل کرلیا گیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ کسی کی دراندازی سے کوئی بڑا مسئلہ پیدا ہوسکتا تھا۔ عدالت نے شیو لنگ تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس دعوے کی سماعت ہونی ہے۔
ایک اہم قانونی نکتہ
عدالت کی جانب سے سروے کی اجازت اور وضو خانہ سیل کیے جانے کے بعد ماہرین قانون ایک اہم آئینی نکتہ اٹھارہے ہیں جس کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ غیر آئینی غیر قانونی ہے۔ 1991میں جب ایودھیا مسئلہ پر ملک بھر میں ہلچل تھی۔ مرکز کی نرسمہاراو حکومت نے ایک قانون بنایا تھا کہ بابری مسجد کے علاوہ کسی بھی مسجد، مندر، قبرستان، درگاہ یا عبادت گاہ پر کسی کا بھی دعویٰ قابل قبول نہ ہوگا۔ یعنی اب کسی عبادت گاہ کو چھیڑا نہیں جائے گا۔ اس لیے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ بنارس کے سلسلے میں عدالت کا فیصلہ درست نہیں ہے۔ ویسے یہ نکتہ عام لوگوں کی نگاہ میں بھی تھا اور اس کا اظہار بھی کیا جاتا تھا۔ اس پر عدالت کا موقف ابھی سامنے نہیں آیا۔ سپریم کورٹ نے بھی کچھ نہیں کہا؟ 1991کے قانون سے بابری مسجد کو اس لیے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا کہ اس کا مقدمہ عدالت میں پہلے سے موجود تھا۔ 1991کےقانون بننے کا سب نے خیرمقدم کیا تھا، مخالفت میں کچھ آوازیں اٹھیں تھیں مگر بعد میں کچھ نہیں ہوا۔ اس وقت کی حکومت نے دونوں فریقوں کو اعتماد میں لے کر یہ قانون بنایا تھا۔ اس لیے اس کے خلاف کوئی بڑی آواز اٹھی نہ کوئی تحریک چلائی گئی۔
مسلمان ضبط و تحمل پر قائم ہیں
وہ قانون آج بھی موجود ہے۔ اسی صورت میں منسوخ ہوسکتا ہے جب یا تو سپریم کورٹ اسے کالعدم قرا ردے یا پارلیمنٹ منسوخ کردے۔ مگر دونوں قسم کے اقدام کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت ہی بے انصافی پر اتر آئی ہے۔ ماہرین قانون اور سول سوسائٹی کے لوگ اس قانون پر عمل کو یقینی بنانے کی کوشش کریں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب گیان واپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ کی باتیں اٹھائی گئیں(یو پی کے حالیہ انتحابات میں) تو عدالت عظمیٰ کو 1991کے قانون کے حوالے سے ان باتوں پر اسی وقت لگام لگادینی چاہیے تھی۔ مسائل بہت سے ہیں۔ بد قسمتی سے آج اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جن کی سوچ مثبت کبھی نہیں رہی۔ وہ منفی سوچ کے حامل ہیں۔ یہ لوگ پچاس سال تک برسر اقتدار رہنے کے منصوبے بنارہے ہیں۔ دو سال بعد لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے ان کی نچلی سطح کے گروپوں نے اپنا کام شروع کردیا ہے۔ دہلی میں چالیس دیہات کے نام بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے کچھ نام زبردستی بدل بھی دیے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا میں نئی شرارتیں اور اشتعال انگیز باتیں کی جارہی ہیں۔ بنارس میں عدالتی فیصلہ انھیں نیا ہتھیار مل گیا ہے۔ مسلمان ضبط و تحمل پر قائم ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  29 مئی تا 04 جون  2022